... loading ...
کیا آپ جانتے ہیں، سی ای پی آئی کیا ہے؟
یہ لاک ڈاؤن کے بعد کا کھیل ہے۔سی ای پی آئی (Coalition for Epidemic Preparedness Innovations) جس میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔
مرکزی ذرائع ابلاغ سے غلط معلومات کی تشہیر اورپروپیگنڈے کے طوفان میں خوف کی فضاء سے دنیا مقفل ہوچکی ہے۔ مگر چین میں کورناوائرس کی نشاندہی کے بمشکل دو ہفتوں بعد ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا ایک اجلاس ہوا تھا۔تاریخیں یاد رکھیں۔ چین نے 7/جنوری کو کورونا وائرس کی نشاندہی سرکاری طور پر کی۔اس کے صرف دو ہفتوں بعد21تا 24/ جنوری کو ورلڈ اکنامک فورم کا رنگارنگ اجلاس ہوا۔ اسی اجلاس میں کورونا وائرس کی ویکسین کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان”سی ای پی آئی“نے کیا۔جس کی مالیاتی کفالت (اسپانسرڈ) ورلڈ اکنامک فورم اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ تاریخیں اچھی طرح ذہن نشین کریں۔ ڈیوس ورلڈ اکنامک فورم (جسے دنیا بھر کی حکومتیں ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر سرکاری سطح سے اہمیت دیتی ہے)کے منچ پر کورونا وائرس کی چین میں نشاندہی کے ٹھیک دو ہفتوں بعد اس مرض کے خلاف”این سی او ویکسین 2019“ کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بھی ایک ہفتے بعد ڈبلیو ایچ او نے 30/جنوری کو دنیا بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔ ڈبلیو ایچ او کا اعلان انتہائی مشکوک تھا۔ کیونکہ تب تک چین سے باہرباقی دنیا میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز صرف 150 تھے جن میں امریکا کے چھ کیسز بھی شامل تھے۔
بل گیٹس کی مالیاتی کفالت سے متحرک”سی ای پی آئی“ویکسین کے کاروبار میں ایک اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہے۔ اس کے لیے وہ مختلف اداروں اور حکومتوں کے ساتھ شراکت کرتی نظر آتی ہے۔ وہ ایک طرف امریکی فارما کمپنی ”Inovio“ (جو ایجادات اور نئی دریافتوں پر دھیان دیتی ہے) سے ہاتھ ملاتی ہے، تو دوسری طرف آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ کو آنکھ مارتی ہے۔
سی ای پی آئی 23/ جنوری کو اعلان کرتی ہے کہ اس نے امریکی ریاست میسا چوسٹس میں قائم موڈرنا اور امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکسش ڈیزیز (این آئی اے آئی ڈی) سے ایک معاہدہ کر لیا ہے۔ این آئی اے آئی ڈی کی سربراہی ڈاکٹر انتھونی فوکی کرتے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے جس نے کورونا وائر س کے حوالے سے پورے امریکا میں خوف وہراس قائم کرنے کی مہم میں سب سے زیادہ معاونت فراہم کی۔ یہ صاحب ہیلری کلنٹن کے شدید حامی رہے ہیں۔ ڈاکٹر فوکی نے ہی چند روز قبل یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ امریکی حکومت لاک ڈاؤن کے بعد کام پر آنے والوں کے لیے کورونا وائرس سے محفوظ ہونے کے ایک ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ کے اجراء پر غور کررہی ہے۔
الغرض،بل گیٹس کی مالی کفالت سے چلنے والی سی ای پی آئی نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی فضا کے بالکل ابتدائی ایام میں ویکسین کے حوالے سے ایک مرکزی کردار حاصل کر لیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے انتہائی قبل ازوقت ہنگامی حالت کے اعلان سے صرف ایک روز بعد 31 / جنوری کو چین سے ہوائی پروازوں کو محدود کردیا تھا،ٹھیک اسی روز”سی ای پی آئی“ نے اپنی ویکسین اجارہ داری کی پرواز کو جاری رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ جرمنی میں قائم بائیوفارماسوٹیکل کمپنی، کیورویک اے جی کے ساتھ شراکت کرچکی ہے۔ چند دن بعد فروری کے اوائل میں اس نے مزید پاؤں پھیلاتے ہوئے کہا کہ وہ ویکسین سازی کی ایک بڑی فارما کمپنی ”جی ایس کے“ کی سہولتوں سے مستفید ہو سکے گی تاکہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی اثراندازی میں اضافہ کیا جاسکے۔(جی ایس کے پاکستان میں ادویہ سازی کے حوالے سے کردار انتہائی خراب رہا ہے۔لیکن یہاں اس کے کردار کا جائزہ لینے کی گنجائش نہیں)۔ یہاں آپ کو یاد دلادیں کہ سرکاری طور پر کورونا وائرس کو ایک وبا کے طور پر 11/ مارچ کو تسلیم کیا گیا تھا۔ سی ای پی آئی کی یہ ساری اُچھل کود اس سے بہت پہلے کی ہے، جس کی پشت پر ہاتھ بل گیٹس کا ہے۔ یاد رہے کہ کورنا وائرس کی چین میں نشاندہی سے کچھ ہفتے قبل اکتوبر 2019 کے وسط میں ایک آزمائشی ریہرسل”بعنوان ایونٹ 201“ میں کورنا کے ایک وبا کے پھیلاؤ کے بعد جس ویکسین کا نام لیا جاتا جاتا ہے، سی ای پی آئی اور ڈبلیو ایچ او نے اپنے ابتدائی دنوں میں اسے وہی نام دیا تھا، یعنی ”این سی او ویکسین 2019“۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ آزمائشی ریہرسل جان ہاپکنز اور گیٹ فاونڈیشن کی مشترکہ سرپرستی میں کی گئی تھی۔ اس آزمائشی مشق میں جو خیالی منظرنامہ دنیا کا پیش کیا گیا تھا، اس کے عین مطابق حقیقت میں ہوا۔ کورونا کے مریضوں میں اضافے کی رفتار سے لے کر دنیا پر پڑنے والے معاشی اور معاشرتی اثرات تک سب کچھ گیٹس کی ریہرسل کے مطابق تھا۔ یہاں تک کہ اس کا ویکسین پراجیکٹ بھی اسی طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ اس آزمائشی مشق میں اموات سے قطع نظر دنیا کی اسی فیصد آبادی کو کورونا سے متاثر کرنے کا ذہن پوری طرح جھلک، چھلک اور اُچھل اُبل رہا ہے۔
اس پورے منظرنامے میں بل گیٹس کے منصوبے کے عین مطابق”سی ای پی آئی“ کردار ادا کررہی ہے۔ اس منصوبے تلے ہی تمام بامعنی سرکاری اداروں، یونیورسٹیز کی لیبارٹریز کے اشتراک کے ساتھ بڑی بڑی فارما اور بائیو ٹیک کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے جارہے ہیں۔ یہ عالمی ویکسی نیشن پروگرام کا ایک انتہائی اہم اور کلیدی مرحلہ ہے۔ دنیا کا تمام خوف، لڑکھراتی معیشت، لرزتی معاشرت اور کپکپاتی سیاست کو ایک ویکسین کا انتظار ہے۔ غور سے سی ای پی آئی کے سی ای او ”Richard Hatchett“کا بیان ملاحظہ کریں جو11/ مارچ کو کورنا کو ایک وبائی مرض قرار دینے کے باضابطہ اعلان سے ٹھیک دو ماہ قبل دیا گیا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بننے والی دنیا کے متعلق کتنی اچھی طرح آگاہ تھے:
”ہم اپنے ممکنہ شراکت داروں کی ایک وسیع صف کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں کہ کس طرح ویکیسن
کی ایک بڑی مقدار کو تیار کیا جاسکے جو وبائی بیماری کی ضرورتوں سے مطابقت رکھتی ہوں۔۔۔۔اس ضمن میں
ہمارا”گلوبل سروے“جاری ہے کہ کہاں مینو فیکچرنگ پلانٹ لگایا جائے جو اس عالمی ضرورت کو پورا کرسکے“۔
یہاں سی ای پی آئی کے سی ای او کا پورا انٹرویو دُہرانا مقصود نہیں جو پورا ہی دلچسپ ہے۔ مگر اس کے اہم نکات کی طرح آپ کو متوجہ کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دے رہا تھا جب کورونا مرض کے متعلق دنیا کے بڑے بڑے متعلقہ ادارے بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ یعنی کورونا کو وبائی مرض قرار دینے سے ٹھیک دو ماہ قبل۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ وہ اس کی تیاری خود کورونا وائرس کی نشاندہی سے بھی قبل سے کررہے تھے۔ اپنے انٹرویو میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ اس منصوبے کا آغاز کورونا کی تشخیص سے قبل ہی کرچکے تھے۔ دھیان دیجیے!کورونا کی آزمائشی مشق کورونا کی تشخیص سے چند ہفتے قبل اکتوبر 2019ء میں ہوئی۔ جبکہ کورونا کے حوالے سے ویکیسن کی تیاری اس سے بھی کئی ماہ قبل شروع کی جاچکی تھی۔ ”ہم اس پر کام پچھلے سال اور اس سے بھی پہلے سے کررہے تھے“۔ یہ اُن کا جملہ ہے۔ اس پورے کھیل میں وقت اور کام کی نوعیت ہمیں سمجھاتی ہے کہ دنیا کے ردِ عمل کے حوالے سے کتنے ٹھیک اندازے لگائے گئے تھے۔ پھر اس پر توجہ جاتی ہے کہ اُن کے سارے منصوبے کتنے حسب حال ثابت ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ گلوبل سروے کا نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ کس طرح ”سی ای پی آئی“ کے ایک سی ای او کو پتہ ہے کہ مرض دنیا میں وبائی شکل اختیار کرے گا، اور اس کی عالمی ضروریات کو دھیان میں رکھنا ہے۔اس بحران کے بڑھاوے میں ان کے اگلے اقدام بھی طے شدہ ہیں۔ جو خود اُن کے اپنے طرزِ عمل اور گفتگو کی تہہ داریوں سے واضح ہو جاتے ہیں۔ دیکھیں نا کیسی زبردست ترتیب ہے، این سی او ویکسین 2019 اور آئی ڈی 2020۔واہ بل گیٹس واہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔