... loading ...
فرد کی آزادی کا دور دنیا میں اختتام کے قریب ہے۔پاکستان میں چند ہفتے قبل کچھ سرپھری عورتیں اپنے بے ہودہ پلے کارڈز کے ساتھ سڑکوں پر کھڑی تھیں تو ان کے آدرش ملکوں میں فرد کو نظر نہ آنے والی زنجیروں میں جکڑنے کے منصوبے تیار کیے جاچکے تھے۔ذرا ایک منظر ملاحظہ کیجیے! ایک عورت اپنے ہاتھ میں پلے کارڈ لے کر کھڑی ہے، جس پر لکھا ہے: میرا جسم میری مرضی۔یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا شخص اُسے اپنے کمپیوٹر پر دیکھ رہا ہے اور اس کے جسم میں موجود چپ کے ذریعے اُس کے غصے اور اعضاء کی شاعری کو کنٹرول کررہا ہے۔وہ اس کی آزادی کے بھرم پر ایک قہقہ تو لگا ہی سکتا ہے۔ہے نا مزے کی بات۔ مگر یہ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ بل گیٹس ایسا ہی چاہتا ہے۔ اور دنیا کے کچھ شقی القلب امراء کا ایک پورا کلب جی ہاں ”گڈز کلب“ اس کا شراکت دار ہے۔
کورونا وائرس سے تیار ہونے والے عالمی اسٹیج پر اب جو منصوبہ حرکت کررہا ہے، وہ اس کثیر الجہتی سازش کے تمام پہلوؤں پر محیط ہدف ہے۔ اس کھیل کو پوری طرح سمجھنے والے مغربی دانشور بار بار ایک نکتہ واضح کررہے ہیں کہ کووڈ۔ 19 کا خوف بناوٹی ویکسین کے استعمال کولازمی کرائے گا۔ اس کی مزاحمت کرنے والوں کوصحت عامہ کے مجرم (بلیک لسٹڈ)قرار دے کر الگ تھلگ کردیا جائے گا۔ وہ معاشرے سے نکال باہر کیے جائیں گے۔ یہ کوئی خیال نہیں، اپنے منفرد خیالات کے ساتھ امریکا میں متوازی ذرائع ابلاغ میں بہت دھیان سے پڑھے جانے والے مارٹن آر م اسٹرونگ ہمیں خبر دار کرتا ہے کہ واشنگٹن کے مختلف حلقوں میں ایک الیکٹرونک مائیکروچِپ یا ٹرانسپونڈر کی تجویز زیرِ گردش ہے جو پہلے سے ہی پالتو جانوروں کی شناخت کے لیے موجود ہے۔ یہ چاول کے دانے سے بڑی نہیں، جسے انسانی جسم میں داخل کرنے کے لیے چند منٹ ہی لگتے ہیں۔ٹرانسپونڈر کے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہوئے کوئی برقی لہریں بھی خارج نہیں ہوتیں۔ انسان کے لیے یہ ایک ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ ہوگا۔جس کا مطلب ہے کہ آپ کو کورونا سے بچاؤ کے قطرے پلا دیے گئے ہیں اور آپ بھلے ہی اللہ کی تخلیق اور اپنے ماں باپ کی اولاد ہیں مگر آپ کو ایم آئی ٹی اور مائیکرو سوفٹ نے تیار کیا ہے۔ اس چِپ کے بعد انسان کے لیے نشوونما کا لفظ نہیں بلکہ کسی الیکٹرک ساختہ شے کی مانند ”ڈیولپ“(Develop)کا لفظ استعمال کیا جائے گا۔ذرا دوبارہ دہرائیں، انسان ڈیولپ ہوگیا۔ ڈارون نے بھی انسانی نسب کو جانوروں سے منسلک کرکے اس سے وہ شرف نہ چھینا ہوگا جو اس ذلت آمیز طریقے سے سلب کرلیا جائے گا۔حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے جاری فضا میں واشنگٹن کا خیال ہے کہ اس مائیکرو چِپ کو بل گیٹس کے ”ID2020“ کے منصوبے میں ضم کردیا جائے۔مارٹن آرم اسٹرونگ کا خیال ہے کہ یہ قطعی طور پر ممکن ہے کہ لوگوں کو اس مائیکرو چِپ کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے موجودہ خوف کی فضا پیدا کی گئی ہو۔تاکہ معاشرتی مقاطعہ کا خوف آپ کی انفرادیت کی خواہش کا بھرکس نکال دے۔ یہ فضا بالکل نائن الیون کی طرح ہے۔ نائن الیون کے بعد طیاروں میں داخل ہونے سے پہلے مسافروں کو ایکسرے مشین سے گزرنا لازم قرار دے دیا گیا تھا۔ اب اس نئے مرحلے میں کورونا وبا کے بعد ہر انسان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ برقی نشانات کو جسم کا اُسی طرح حصہ بنادیں جیسے کتے اور بلیوں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کو مغربی ممالک میں ”ID2020“ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے نہایت چالاکی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک اور مغربی مصنف نے اس کے لیے ”ٹروجن ہارس“ یا ٹرائے کے گھوڑے کی تشبیہ استعمال کی ہے۔ یہ اس کھیل کو سمجھنے کے لیے انتہائی دلچسپ اور حسبِ حال ہے۔ یونان کی اسطوری کہانیوں میں لکھا ہے کہ دیوتاؤں کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں جب یونانی ٹرائے شہر کا نوسال تک محاصرہ رکھنے کے باوجود اسے فتح کرنے میں ناکام رہے تو اُنہوں نے ایک چال چلی۔ یونانیوں نے ایک بہت بڑا لکڑی کا گھوڑا بنایا، جسے اندر سے کھوکھلا رکھا گیا۔ یونانی نو سال کے طویل محاصرے کے بعد بآلاخر اپنی پسپائی کا تاثر دیتے ہوئے ایک رات خاموشی سے محاصرہ چھوڑ کر چلے گئے اور کاٹھ کاگھوڑا وہیں چھوڑ آئے، جس میں یونانیوں نے اپنے بہترین سپاہی چھپا دیے تھے۔ ٹروجنوں نے صبح بیدار ہونے پر سمجھا کہ یونانی شکست تسلیم کرتے ہوئے چلے گئے ہیں اور لکڑی کا گھوڑا چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اسے گھسیٹ کر شہر کے اندر لے گئے۔ رات کو ٹروجن اپنی فتح میں سرشار جشن منا رہے تھے تو کاٹھ کے گھوڑے میں چھپے یونانی فوجی خاموشی سے نکلے اور قلعے کے دروازے کھول دیے۔ باہر منتظر یونانی دروازے کھلتے ہی آدھمکے اور ٹرائے کو فتح کرلیا۔ کاٹھ کو وہ گھوڑا اب”ٹروجن ہارس“ کہلاتا ہے، ہومرکی نظموں کا موضوع اور اسطوری کہانیوں کا یہی ٹرائے اب ترکی کا عظیم شہر ”کینا کلی“ ہے۔یونانیوں نے ٹرائے کو لکڑی کے ایک ”ٹروجن گھوڑے“ سے شکست دی تھی جو ایک دھوکا تھا۔ بل گیٹس اور گڈ کلب کے ارکان کا”ID2020“ کا منصوبہ ایک مکمل ٹروجن ہارس کہلاتا ہے جسے انسانیت کے خلاف ایک دھوکے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
کووڈ۔19 دراصل دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیوں کو مائیکرومینجمنٹ کے ساتھ کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جس کے تحت ریاستی قوتیں بھی ختم ہوجائیں گی اور دنیا کے تمام افراد کی تمام حرکات وسکنات پر نگرانی ونظرداری کے ساتھ اُنہیں بوقت ِ ضرورت بآسانی کنٹرول بھی کیا جاسکے گا۔ تاریخ اسٹالن اور ماؤ سے ہٹلر اور مسولینی تک مثالوں سے لبریز ہے۔ فرد کی آزادی کے خاتمے اور اُن کی صوابدید کو ایک منظم جبر سے قابو میں رکھنے کی کوششیں ہمیشہ رہی ہیں۔ اب یہ کام وائرس اور ٹیکنالوجی سے لیا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کا ”ڈبلیو ایچ او“(ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) دراصل اس منصوبے کا آلۂ کار ہے۔ڈبلیو ایچ اوبجائے خود ایک مستقل موضوع ہے جسے موزوں طور پر بعد میں زیر بحث لائیں گے۔ مگر کورونا وائرس کے خوف کو پھیلانے میں اُس نے اس پورے کھیل کے”محرکین“ کی مرضی کے مطابق اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے اُس نے امریکی حکومت کو بھی نظرانداز کردیا ہے۔ اس پردے کے پیچھے کچھ تو ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او نے لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔اس نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے نہایت خام خیالات کی ترویج میں حصہ لیا۔ آج دنیا بھر میں لوگوں کے غیر محفوظ ہونے کا احساس دراصل ڈبلیو ایچ او کی مجرمانہ روش کے نتیجے میں ہے۔ جس نے تحقیق کے بجائے خام خیالات کے ساتھ عالمی معیشت کو تباہ کیا۔یہ صحت کی صنعت ہی ہے جو عالمی معیشت کے درپے ہے۔ بے روزگاری آسمان کی سطح کو چھو رہی ہے۔ لوگ اپنی ملازمتوں سے دنیا بھر میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کام کرنے کے مواقع مسلسل محدود ہوتے جارہے ہیں۔ مگر ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کے مسئلے کوپیچیدہ بنانے پر تُلی ہے۔ اب خطرہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ملازمتوں پر واپسی کے لیے بھی کورونا کی ویکسین کی تصدیق کے ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ کو لازمی کردیا جائے گا۔آزادی کاتصور ”ID2020“ کی تحویل میں چلا گیا ہے۔ انسان اب انسان ہونے سے دستبردار ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔