... loading ...
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کے وہ “تاریخی ” اشعار آپ کو یاد ہوں گے
“نوٹس ملیا ککھ ناں ہلیا
کی سجناں دا گلہ کراں
میں بسم اللہ کراں ” ان کے ان اشعار نے عدالت عظمیٰ کو آگ بگولہ کردیا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب بابر اعوان کو توہین عدالت کے جرم میں اپنی عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے عدالت کی جانب سے ملنے والے نوٹس پر ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کیا تھا جس کا انہیں طویل عرصہ تک “کفارہ” ادا کرنا پڑا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کچھ اداروں کو “مقدس” گائے کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ ان مقدس قرار دینے والا ادارہ یعنی پارلیمان ان کی نظروں میں کبھی بھی مقدس نہیں سمجھا گیا۔ ان اداروں کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس ادارے کے کسٹوڈ?ن اور قائد ایوان بھی اسے اس قابل نہیں سمجھتے کہ باقاعدگی سے آنے کا تکلف کریں۔ یوسف رضا گیلانی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ باقاعدگی سے ایوان میں آتے شاید ان کے “انجام” سے ڈر کے ان کے بعد آنے والے قائدین ایوان یہاں قدم رکھتے وقت سوچتے ہوں گے کہ جو وزیراعظم باقاعدگی سے یہاں آتا تھا یہ مقدس ایوان اسے نہیں بچا سکا تو پھر ہمیں کیا پڑی ہے کہ یہاں آکر اپنا قیمتی وقت “برباد” کریں۔ یہاں ہونے والی تقریریں ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان گنہگار آنکھوں نے کئی بار وہ مناظر دیکھے جس میں قائد ایوان سپیکر کی کرسی کو گواہ بناکر کہہ رہے ہیں کہ یہ وہ ذرائع آمدن جب بھی کسی فورم پر طلب کئے جائیں گے پیش کروں گا اور پھر عدالت عظمیٰ وہ ثبوت مانگتی رہی اور اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف “ثبوت ” دینے سے قاصر رہے اور اسی وجہ سے تاحیات نااہل ہوکر ایوان اقتدار سے بے دخل کئے گئے۔ سیاستدانوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنے کہے ہوئے کو عمل کے قابل کم ہی سمجھتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے وہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں وعدہ کوئی قرآن یا حدیث نہیں جو توڑا نہ جائے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی سیرت اور بصیرت کیا ہے۔ پرانا پاکستان میں تو ایسے معاملات معمول تھے آج جو حکمران ہمیں “صادق ” اور “امین” کے غلاف میں لپیٹ کر ہمیں دئیے گئے ان کا حال تو ان پرانے حکمرانوں سے بھی ابتر ہے۔ صبح کا کہا شام کو بھول جاتے ہیں اور شام کی کہی بات صبح یاد نہیں رہتی۔ ہم اگر ان کے عمل کو دیکھیں تو ان سے بڑا “چھوڑو” ہماری سیاسی تاریخ نے نہیں دیکھا اور اگر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پڑھیں تو ان سے سچا کوئی نہیں۔ ہم بیچارے جائیں تو جائیں کہاں۔ نہ جائے رتن نہ پائے ماندن۔ جناب عمران خان وزیراعظم پاکستان جسے صبح اپنی کابینہ سے نکالتے ہیں اسے شام کو پہلے سے بڑی وزارت کے منصب یر فائز کرکے تاتالیا بجاتے ہاتھوں کو سینہ پیٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ہمت کی داد کے مستحق یہ سپورٹر اگلی صبح پھر ان سے “کرامت” کی امید لگالیتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اپنے “عمل” سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ جس چیز کانوٹس لیں اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ سنا ہے ان دنوں انہوں نے نے آٹے چینی کی مہنگائی اور ہیر پھیر کا “نوٹس” لے رکھا ہے۔ اس نوٹس کا انجام بھی ماضی کے تجربے کی روشنی بتانا مشکل نہیں۔ وہ اب تک جن چیزوں پر نوٹس لے چکے ہیں ان کی ہلکی سی جھلک وہ بھی ریکارڈ کی درستگی کے لیے پیش خدمت ہے: 13 اکتوبر 2018، شہریار آفریدی کے گھر کی سرکاری خزانے سے تزئین، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 20 جنوری 2019، سانحہ ساہیوال، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 23 جون 2019، فرشتہ زیادتی و قتل کیس، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
27 جون 2019، مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
9 دسمبر 2019، بجلی کی قیمت میں اضافہ، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
11 دسمبر 2019، پی آئی سی میں وکلا گردی، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
12 فرروری 2020، یوٹیلٹی سٹور پر مہنگے داموں فروخت، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 19 مارچ 2020، ترقیاتی منصوبون کی لاگت میں کئی گنا اضافہ، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
26 مارچ 2020، ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 6 مارچ 2019، ادویات کی قیمتوں میں سو فیصد تک اضافہ، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 3 اپریل 2020، وزیر اعظم ہاوس کے سامنے خود سوزی، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 4 جنوری 2020 گیس کی 513 ملین کی اووربلنگ، ذمہ داروں کا تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔
– 5 اپریل 2020، چینی بحران رپورٹ، ذمہ داروں کا (مزید) تعین ہو لینے دیں ایکشن لوں گا۔ اللہ کے بندے اگر قوم کے ساتھ اس ظلم پر بھی آپ نے سیاست کرنا تھی تو پھر اللہ کی پناہ ایسی سیاست سے۔ اگر یہ رپورٹ نہ مکمل تھی تو پھر لیک یا آپ کے بقول ریلیز کیوں کروائی گئی۔ کیا جہانگیر ترین کو “نکیل” ڈالنے کے لیے رسی کے طور پر یہ رپورٹ استعمال کی گئی۔ جہانگیر ترین نے بھی فوری ردعمل تو بہت سخت دیا اس رپورٹ پر۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عملی طور پر کیا کرتے ہیں۔ کہیں اس کمھار کی روٹھی بیوی کی طرح گدھے کی دم پکڑ کر یہ کہتے ہوئے “وے چھڈ دے کھوتیا میں نئیں گھر جانا” واپس آجائیں گے یا پھر کچھ کرکے دکھائیں گے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ جناب وزیراعظم اس بار صرف نوٹس نہیں ایکشن بھی لیں گے۔ کم از کم وہ آٹے چینی چوروں کو یہ کہنے کی اجازت نہیں دیں گے ” نوٹس ملیا ککھ ناں ہلیا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔