... loading ...
ایک نئی دنیا کی تخلیق کووڈ۔19 کے ذریعے کرنے کا عمل تیزرفتاری سے جاری ہے۔ اس میں امریکا کا کردار بھی زیر بحث آئے گا۔ مگر یہ باریک بینی سے کھیل کو سمجھنے کے مختلف النوع پہلوؤں کا مطالعہ ہے۔ بساط بچھانے والوں کے ہاتھوں کو ڈھونڈنے کی عرق ریز ی میں تفصیلات کا ایک سمندر حائل رہتا ہے۔گاہے کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ مگر کوئی اقدام کیا نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اُس کوشش کی تفہیم اقدام کے مقصد کو واضح کردیتی ہے۔ یہ ایسی ہی کوشش ہے۔ آئیے سیدھے قدم بڑھاتے ہیں۔ کووڈ۔19 کے ذریعے بازی بچھانے والوں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔اِسے بل گیٹس کے اقدامات کی روشنی میں ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا مارچ میں کووڈ۔19 کی ہلاکت خیزیوں سے کہیں زیادہ زیادہ خوف میں مبتلا تھی، تو بل گیٹس نے مارچ کے وسط میں اپنی بساط بچھائی۔تقریباً 97.8 بلین ڈالرز کی مالی حیثیت کے ساتھ دنیا کے دوسرے امیر ترین شخص بل گیٹس کو ”مائیکروسوفٹ اوربرک شائرہیتھ اوے“ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے استعفیٰ دیے ابھی ہفتہ ہی ہوا تھا۔ اُس نے اپنی تمام توانائیوں کو گلوبل ہیلتھ کے لیے مرکوز کرنے کا عندیہ دیا۔ اور پھر صرف ایک ہفتے بعد ریڈیٹ کے”مجھ سے کچھ بھی پوچھو“(Ask Me Anything) پروگرام میں شرکت کی جو ٹھیک 18/ مارچ کو کورونا وائرس کی وبا اور اس کے عالمی اثرات سے نمٹنے کے طریقوں پر مخصوص کیا گیا تھا۔بل گیٹس نے کورونا وائرس کے حوالے سے یہی کہا کہ ہم اچھی طرح جانتے تھے، کہ یہ وبا زکام یا سانس کے وائرس کے ساتھ کسی بھی موقع پر ظاہر ہوگی، مگر اس پر فنڈز نہیں لگائے گئے“۔ بل گیٹس کے ان الفاظ کا تناظر امریکی حکومت پر جاری تنقید ی ماحول تھا، جس میں امریکی حکومت کے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے حوالے سے بروقت ردِ عمل دینے میں ناکام رہی۔مگر اصل بات کچھ اور ہے۔ بل گیٹس آگے توجہ دلاتا ہے کہ روزانہ ہزاروں کورونا کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں مگر کوئی بھی ”قومی ٹریکنگ نظام“ سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ اس موقع پر بل گیٹس نے جنوبی کوریا کی طرز کا ”قومی ٹریکنگ سسٹم“ لانے کا مطالبہ کیا۔ بس ہم بحث کے بنیادی منطقے میں داخل ہوگئے۔ بل گیٹس نے خود انگلی پکڑ کر کورونا وائرس کے ذریعے ہماری سمت کا تعین کردیا ہے۔ مگر ابھی ہاتھ پولاپولا رکھنے کا وقت ہے۔ چنانچہ آواز دھیمے سروں میں رکھتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کو دنیا کے بہت سے ماہرین ”وبا“کی تعریف پر پورا اُترنے کے قابل بھی نہیں سمجھتے، ایک خیالی خوف کی افزائش میں دنیا کی تمام حکومتیں جُتی ہوئی ہیں۔ اسی دوران اسی خوف کو ایک”ایجنڈے“ کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے میں دنیا کے بہت سے دانشور اور عالمی میڈیا کے بہت طاقت ور افراد اپنی تمام توانائیاں کھپارہے ہیں۔ یہ ایجنڈا نہ صرف کورونا وائرس کی ویکیسن سے متعلق ہے بلکہ بل گیٹس کے قومی ٹریکنگ سسٹم کی سب سے موثر شکل یعنی”بائیو میٹرک آئی ڈی“ سے جڑا ہوا ہے۔کورونا وائرس کی تحقیق کے اہم مرحلے میں کینیڈا ایک مرکز رہا ہے، وہیں پرٹورنٹو کے333بے اسٹریٹ پر قائم خبررساں ادارے ”رائٹرز“ نے کورونا وائرس کے حوالے سے بائیومیٹرک آئی ڈی کو ٹیسٹ اور ویکسین کے لیے ”گیم چینجر“ قرار دیا ہے۔رائٹر کے مطابق جب دنیا کے ممالک کورونا وائرس کے باعث جاری لاک ڈاؤن کو ختم کرنے لگیں گے تو بایومیٹرک شناخت ان لوگوں کی تصدیق میں مدد دے سکتی ہے جو پہلے ہی انفیکشن میں مبتلا ہیں، اور ویکسین آنے کے بعد یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ کورونا مریضوں کو یہ ملی چکی ہے“۔ رائٹرز کی بات کافی نہ تھی، اس معاملے میں ایک برطانوی این جی او بھی کودگئی، جس کی شراکت داری جان ہاپکنز یونیورسٹی کے گلوبل ہیلتھ پراجیکٹ سے ہے۔ یہاں اس کی وضاحت ضروری نہیں کہ جان ہاپکنز انسٹی ٹیوٹ کورونا وائرس کے مختلف تحقیقاتی مرحلوں میں گیٹس فاونڈیشن کے ساتھ شریک کار رہا ہے۔ دیکھیے کام کرنے والے کہاں کہاں سے بروئے کار آتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کو کہاں کہاں سے آگے بڑھاتے ہیں۔ برطانوی این جی او ”آئی رسپونڈ اور سمپرنٹس“ نے کورناو ائرس کے مریضوں اور ویکسین پانے والوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بائیو میٹرک نظام کے نفاذ پر زور دینا شروع کردیا۔ تفریح طبع کے لیے یہ بھی دھیان میں رہے کہ یہ این جی او بھی کورونا وائرس آنے سے پہلے کی ریہرسل میں ایونٹ 201 کا حصہ تھی۔ بائیومیٹرک شناخت کے نظام کو لاگو کرنے کے لیے ان تمام ذرائع سے ایک اور پہلو بھی اجاگر کیا جا رہا ہے جو قومی ریاستوں کے لیے ترغیب آمیز ہے کہ ریاست کے دشمنوں اور سیاسی حریفوں پر چوبیس گھنٹے کی نگرانی کے لیے بھی یہ نظام نہایت کارآمد ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ترغیب میں ”کام بن سکتا ہے“ کا امکان پوشیدہ ہے۔ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ وباؤں کے ذریعے صحت کے عالمگیر خطرے کا مبالغہ آمیز منظر ایک ایسی ہسٹریائی کیفیت پیدا کردے جس میں بائیومیٹرک آئی ڈی کو قومی ریاستیں ایک بل کے ذریعے نافذ کر نا شروع کردیں۔ گندا ہے پر کیا کریں، یہی دھندا ہے۔
بائیومیٹرک آئی ڈی کے اس منصوبے کو ”ID2020“ کہا جاتا ہے، جسے راک فیلر فاؤنڈیشن، بل گیٹس اور مائیکرو سوفٹ، بین الاقوامی قومی دوا سازکارپوریشنوں اور مختلف ٹکنالوجی فرموں نے شروع کیا ہے۔ بیجوں میں جینیاتی تبدیلیاں لاکر مصنوعی فصلوں اور صحت عامہ کے نام پر ویکیسن کے منصوبوں سے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے والے یہ لوگ اپنے ہر کام کے لیے خوشنما لفظوں کی گوٹا کناری کرتے ہیں۔ ان کا ID2020کے لیے بھی ایک انتہائی مقدس تصور موجود ہے، اُن کے ہی الفاظ میں پڑھیں:اس کرہ ارض پر موجود ہر انسان کو ایک بائیو میٹرک تصدیق کی ضرورت ہے،یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کون ہے اوراس کے عالمگیر انسان کے کے طور پر کیا انسانی اور بنیادی حقوق ہیں“۔
آخر یہ سب کیا چاہتے ہیں۔ کرۂ ارض پر موجود تمام انسانوں کا ایک معیاری ڈیٹا کا حصول واحد مقصد تو نہیں۔ یہ کنٹرول کا کھیل ہے جس کے تحت دنیا کے ہر انسان کو عالمگیر اقدار سے باندھ کر ایک کمانڈ سینٹر کے تحت رکھنا ہے تا کہ کہیں پر بھی کوئی رکاؤٹ نہ آئے۔ یہ ایک امکانی شراکت میں بندھے لوگوں کے دنیا کے مجوزہ اور آئندہ کے نظام کے خطرات کا پیشگی تدارد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِسے چین کے سوشل کریڈٹ نظام کے قریب کی کوئی شے سمجھا جائے، مگر یہ اس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کورونا وبا کی افراتفری اور قیاس آرائیوں کے ہجوم میں اس مطلق العنان ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے بعض ریاستیں ا ور اُن کی شراکت دار کارپویشینیں پیش قدمی کررہی ہیں۔یہ معمولی پیش قدمی نہیں۔ یہ انسان کو انسان ہونے سے دستبردار کرانے کی کوشش ہے اور سانس لیتے لوگوں کو اپنی ڈھرکنوں کے ساتھ روبوٹ میں ڈھال لینے کی مکروہ سازش ہے۔ اس کی تہہ داریوں میں اُترنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔