وجود

... loading ...

وجود

مس ڈائریکشن اور جادو

جمعه 10 اپریل 2020 مس ڈائریکشن اور جادو

تھوڑی دیر اپنے موضوع کے ساتھ ٹہرتے ہیں۔ ہمہ پہلو موضوع کے پہلو دار حصوں میں شاخ درشاخ جھانکتے ہوئے رُکنا پڑتا ہے۔ ابتدائی آثار میں ہی بات چھپی ہوتی ہے، مگر ابتدا میں ہی اِسے دھند آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کھیل ہے۔ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، ابتدا سے دھیان ہٹتا ہے اور تب ابتدا سے ہی گتھی سلجھنا شروع ہوتی ہے۔ بل گیٹس کی نیٹ فلکس سیریز اور ایونٹ 201 کی آزمائشی مشق نے یہی کام کیا۔ کسی کو اِدھر اُدھر دیکھنے کا موقع ہی نہ دیا۔ اسے کہتے ہیں ”مس ڈائریکشن“۔۔ ہالی ووڈ کی 2001 کی ایک فلم ”سورڈ فش“ (Swordfish)نے مس ڈائریکشن کے مفہوم کو نہایت اچھی طرح سے فلمایا تھا۔ مس ڈائریکشن کے حوالے سے ایک فقرہ اس فلم کے ہیرو سے منسوب ہے، لطف لیجیے:
”Misdirection. What the eyes see and the ears hear, the mind believes.“
(مس ڈائریکشن۔ آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں اور کان جو کچھ سنتے ہیں، دماغ اُس پر یقین بھی کرنے لگتے ہیں)

ہم وہی دیکھتے اورسنتے آئے جو بل گیٹس نے ہمیں دکھایا اور سنایا۔ بس پھر کیا تھا، بہت سے ابتدائی دعوے یقین میں ڈھل گئے۔ دنیا نے سب کچھ جوں کا توں مان لیا۔ اب دنیا وہی ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ذریعے سوچی گئی۔ کھیل کھیلنے والوں کو داد دیجیے!اور پرانی باتوں میں سے نکلنے والے نئے پہلوؤں پر دھیان دیجیے!ابتدا میں ہمیں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی چین سے ابتدا ہوئی اور اس کا محرک دراصل چمگاڈر کا سوپ تھا۔ کسی نے ٹہر کر ایک سادہ سوال بھی نہیں کیا کہ چمگاڈر کا سوپ چینی صدیوں سے پیتے آئے ہیں۔ پھر یہ وائرس کیوں پیدا نہیں ہوا؟ کسی نے یہ سوال بھی نہیں کیا کہ کورونا کے خاندان کے تین وائرس اپنی اصل میں کہاں سے آئے؟ سارس چین میں آزمایا گیا، مگر تاحال اس کی پیدائش کے متعلق تمام آراء حتمی باور نہیں کی جاتیں۔میرس مشرق وسطیٰ میں آزمایا گیا تو اس کی پیدا ئش کے اسباب بھی کم کم سامنے آئے۔ اب کووڈ۔ 19 کا نیا وائرس اسی خاندان سے آیا ہے تو یہ چمگاڈروں سے کیوں منسوب کیا جانے لگا؟ اس کے متعلق حتمی رائے قائم کرنے کے لیے مستند تو کجا کوئی غیر مستند تحقیق بھی تب تک میسر نہ تھی، اور آج تک میڈیکل سائنس کے تمام مشاق یہاں تک کہ ماہرین ِوبائیات کے پاس بھی کہنے کو کچھ قطعی نہیں، صرف اندازے ہیں۔پھر اس قدر قطعی طور پر کووڈ۔19 کے جد ِ امجد کو چمگاڈر کے اندر سے کیسے ڈھونڈ لیا گیا۔ آئیے کہانی سمجھتے ہیں۔

کووڈ۔ 19 کے پہلے مریض کب اور کہاں سامنے آئے؟ یورپ میں اس حوالے سے اب تک پھیلائے گئے تمام تصورات پر شکوک ظاہر کیے جارہے ہیں۔ مثلاً خود اٹلی کے ہی ایک طبی ماہر جیو سیپی ریمزی نے دعویٰ کیا ہے کہ اٹلی کے معالجین نے”نمونیا“ میں مبتلا کچھ عجیب وغریب اور قدرے مختلف مریض نومبر میں ہی دیکھے تھے۔ واضح رہے کہ جیو سیپی ریمزی ماریو نیگری انسٹیٹیوٹ برائے فارماکولوجیکل ریسرچ کے ڈائریکٹرہیں۔ اُنہوں نے دستیاب حقائق کی روشنی میں یہ انکشاف بھی کیا کہ مبتلائے نمونیا سارے مریض عمر رسیدہ تھے اور ان میں شدید قسم کا نمونیا تھا۔ سیپی ریمزی ماریو نیگری نے اٹلی میں مبتلائے نمونیا مریضوں کی نومبر میں موجودگی پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وائرس چین میں تشخیض سے پہلے ہی شمالی اٹلی میں پھیل رہا تھا۔ چین میں مصدقہ کورونا کے مریض دسمبر میں سامنے آئے تھے۔ مگر ایک خیال کے مطابق چین میں نومبر میں بھی کورونا کے مریضوں کی موجودگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تب بھی یہ ایک ساتھ چین اور اٹلی میں کورونا کے مریضوں کی موجودگی کے امکان کو قوی کرتا ہے۔ غور کیجیے! اس موقف میں معمولی سچائی بھی ہو تو یہ کورونا وائرس کی پیدائش کے تصور کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔ چمگاڈر اور پنگولین سے لے کر ووہان کی مرطوب مارکیٹ تک کورونا وائرس کے پیدائشی تصور کا تیاپانچا ہو جاتا ہے۔ٹہر کر مس ڈائریکشن کا مشہور فقرہ دوبارہ پڑھ لیجیے۔یہاں بطور حوالہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ برطانوی اخبار گارجین کی ایک سے زائد رپورٹوں میں کورونا وائرس کے ووہان کی مرطوب مارکیٹ سے فروغ پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ الجزیرہ نے بھی اپنی رپورٹوں میں یہ لکھا ہے کہ کورونا کے ووہان سے پھیلنے کا معاملہ اب تک کوئی حقیقی سندنہیں پاسکا۔ اس حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سب ”نظریات“ ہیں۔حیرت ہے کہ مرکزی دعوے کے متعلق کوئی سند نہیں، اس کے متعلق اب تک جو کچھ کہا گیا سب نظریات ہیں۔ مگر اس پر سوال اُٹھانے والے نظریات ”سازشی نظریات“ ہیں۔ آخر گمراہ کرنے کی کوئی حد ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ کورونا کی پیدائش کا تصور اگر ووہان کی مرطوب مارکیٹ سے دم توڑ جاتا ہے اور اگر اس میں کوئی سچائی نہیں نکلتی تو پھر سب سے بڑا سوال ہی یہ پیدا ہو گا کہ اس سارے عمل کو غلط سمت میں کیوں موڑا گیا؟ ظاہر ہے معاملے کو غلط سمت میں موڑنے والا واحد نام لوگوں کے ذہنوں میں جو اُبھرے گا وہ نیٹ فلکس سیریز کے محرک اور ایونٹ 201 کی آزمائشی مشق کے سرپرست بل گیٹس ہی ہوں گے۔ مگر ایک اس سے بھی بڑا نتیجہ ہمار ا منتظر ہوگا۔ کیا کورونا وائرس کی الگ الگ کھیپیں مختلف ملکوں میں الگ الگ طریقے سے پہنچائی گئیں؟ اس ضمن میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کا ایک بیان بھی سامنے ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں موجود کورونا وائرس اپنی اصل میں موجود چین کے نمونوں سے نہیں ملتا۔پھر اٹلی اور چین کے وائرس بھی مختلف الا حوال ہیں۔ دلچسپ طور پر ان کے پیدائشی عرصے میں بھی اختلاف نے ان کے الگ الگ ہونے کے تاثر کو تقویت دے دی ہے۔ایسا دو ہی صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اولاً: کورونا وائرس اپنی اصل ہیئت کو بہت تیزی سے تبدیل کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ ثانیا: کورونا وائرس کی مختلف کھیپیں موجود ہو۔ اگر کورونا وائرس اپنی ہیئت کو تیزی سے بدلنے پر قادر ہوتا توعملاً اِسے حرکت میں آنے میں اتنی دیرکبھی نہ لگتی۔ پھر اس کی مختصر زندگی میں اسے جس ماحول اور کیرئیریا ”ناز بردار“کی ضرورت رہتی ہے وہ بھی اُسے ہمیشہ میسر نہیں آجاتا۔اس لیے اُن کے اپنی موت آپ مرنے کے امکانات اُس کے زندہ رہنے سے زیادہ موجود ہوتے ہیں۔ تو پھر یہ اتنی تعداد میں دنیا بھر میں کیسے اور کیوں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔سماجی فاصلوں اور لاک ڈاؤن کے باوجود ان وائرسوں میں کمی کیوں نہیں آرہی؟ظاہر ہے کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب کورونا وائرس کی مختلف کھیپیں مسلسل حرکت میں آرہی ہوں۔ ہم ابھی بھی نتائج کا انتظار ہی کریں گے کہ ان مختلف الوجود کورونا وائرسز کے تمام نمونے تحقیق سے ہی کھرل ہو سکیں گے کہ اس نے اپنی شکلیں تیز رفتار طریقے سے تبدیل کی ہیں یا یہ وائرسز کی مختلف کھیپیں (BATCHES) ہیں؟جو الگ الگ ظاہر ہو رہی ہیں۔ درحقیقت امریکا اور اٹلی سمیت یورپ میں جس طرح کورونا کے معاملے کو دیکھا جارہا ہے، وہ خود اس پورے معاملے کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس کا ہدف واضح ہوتاجارہا ہے۔ اس ہدف کے سروں کو پکڑنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ کورونا وائرس کے گرد کہانیوں کا ایک جال بُن دیا گیا ہے۔ کھیل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اور ماحول مکمل ”مس ڈائریکشن“کا شکار ہے۔دیکھیے بھارتی مصنف امیت کلنٹری (Amit Kalantri) یہاں کتنا حسب حال ہے، لکھتا ہے:
“What I say is misdirection, what you see is an illusion and what results is magic.”
(میرے خیال میں مس ڈائریکشن یہ ہے کہ جسے تم دیکھتے ہو، وہ ایک فریب ہو، اور اس کا نتیجہ ایک جادو کی صورت نکلتا ہو)۔
کورونا کا فریب زدہ ماحول ایک جادو جگانے والا ہے، یورپ اس جانب بتدیج بڑھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر