... loading ...
دوستو،آپ مانیں یہ نہ مانیں لیکن ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ کورونا وائرس پوری دنیا کے لیے رب کائنات کی جانب سے ایک آزمائش ہے۔۔ایسی آزمائش جس میں سوچنے، سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔۔ اللہ پاک نے چودہ سو سال پہلے ہی قرآن پاک میں فرمادیاتھا کہ۔۔انسان خسارے میں ہے۔۔ اور اللہ پاک جس کے بارے میں ایک بار کہہ دے کہ وہ خسارے میں ہے تو پھر پوری دنیا کے ارب پتی، کھرب پتی، اعلیٰ دماغ والے سائنسدان، تحقیق داں وغیرہ وغیرہ مل کر بھی زور لگالیں تو انسان کو خسارے سے نہیں نکال سکتے۔۔ کورونا وائرس سے جہاں اس وقت دنیا بھر میں خوف و ہراس طاری ہے، وہیں ہمارے ملک میں بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔۔ پڑوسی ملک کے معروف اداکار انوپم کھیر نے ایک وڈیو پیغام میں کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ اس کورونا وائرس نے اچانک ساری زندگی بدل دی، کسی بھی چیز کی اب کوئی اہمیت نہیں، اب کوئی یہ کہے کہ میرے پاس اتنی گاڑیاں ہیں، اتنے بڑے گھر ہیں، اتنے کپڑے ہیں، سب کی اہمیت ختم ہو گئی۔ کاش انسان سمجھ سکے؟؟۔۔اصل حقیقت بھی یہی ہے روپیہ،پیسہ، گاڑی، گھر،کپڑے،جوتے،فونز،تمام تر لگژری دھری کی دھری رہ گئی۔۔ایک ”کورونا“ نے حضرت انسان کو اس کی اوقات یاد دلادی۔۔
موبائل فون ہو یا سوشل میڈیا کے تمام ذرائع۔۔احباب سے جب بھی بات ہوتی ہے تو کورونا وائرس سے شروع ہوکر کورونا پر ہی ختم ہوتی ہے۔۔ہم نے خود کو گھر میں قطرنطینہ کیا ہوا ہے، اکیس مارچ سے گھر میں قید ہیں۔۔باباجی نے گزشتہ روز فون کیا، خیرخیریت دریافت کی پھر کہنے لگے۔۔گھر پر رہتے ہو اگر آپ دیواروں، پودوں اور فرنیچر سے باتیں کرنا شْروع کر دیں تو یہ مت سوچئے گا کہ آپ پاگل ہیں۔ یہ نارمل ہے۔۔ہاں اگر وہی دیواریں اور پودے اور فرنیچر آپ کی باتوں کا جواب دینا شْروع کر دیں تو آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔اگر آپ کورونا وائرس کے خوف سے باہر نکلیں تو دیکھیں۔۔آسمان کا رنگ بدل چکا ہے۔۔ دھوپ اور سورج میں بہت فرق پڑ گیا ہے،سورج زیادہ چمکدار ہو گیا ہے۔۔دھوپ زیادہ روشن ہو گئی ہے کیونکہ آسمان پر آلودگی ختم ہو گئی، موٹر گاڑیاں،ہوائی جہاز، ٹرینیں فیکٹریاں بندہونے سے فضا صاف شفاف ہو گئی ہے۔۔ہوابھی خالص ہوگئی ہے،درخت،پھول،پتے تازہ لگ رہے ہیں۔شورکم ہونے سے ایک سکون اور امن ہے۔ایک انجانے خوف نے انسانوں کو دنیا کے جلوؤں اور رنگینیوں سے متنفر کردیاہے۔۔ہر شخص پاک صاف رہنے لگا ہے، باربار ہاتھ منہ دھونے سے چہرے پر عجیب سی نرمی اور تازگی آگئی ہے۔کام کاج بند ہونے سے گھر کے افراد ایک دوسرے کو وقت دینے لگے ہیں۔۔موت کے خوف نے انسانوں کو خدا کے قریب کر دیا ہے۔۔کوئی عبادت کرے نہ کرے لیکن ہرکوئی ہروقت پاک صاف رہتا ہے،لوگوں میں صفائی ستھرائی کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔۔عورتیں چاہے ماسک کی وجہ سے ہی سہی لیکن گھر سے نکلتے ہوئے چہرے چھپانے لگی ہیں۔ماسک لگانے کی وجہ سے چہرے کے بناؤ سنگھار میں کمی آ گئی ہے جس سے سادگی کا احساس ہوتاہے۔۔مختصر لباس پہننے والیاں مکمل لباس پہننے لگی ہیں۔لوگوں میں ایثار کا جذبہ بیدار ہوگیا ہے۔۔
ہمارے دوست واٹس ایپ پر ایسے ایسے پیغام بھیج رہے ہیں جنہیں پڑھ کر ہم سارے ڈر بھول جاتے ہیں۔ چلیے ماہرنفسیات کے کچھ مشورے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔۔ اپنے آپ کوکورونا وائرس کی خبروں سے دور رکھیں۔ اس مرض کے بارے میں آپ کو جتنا جاننا تھا جان چکے ہیں۔۔ اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد جاننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ کرکٹ میچ نہیں ہے کہ اسکور جاننا ضروری ہو۔۔ ہمیشہ کورونا کے بارے میں سوچتے رہنے سے آپ ڈپریشن یا نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو سکتے ہیں۔۔ قرآن مجید، دینی تعلیم یا پسندیدہ کتابیں پڑھ کر وقت گزاریں۔۔ بیوی بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔ بے فکر رہنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو گا، جو آج کل بہت ضروری ہے۔۔ واٹس ایپ اور فیس بک کی خبروں پر تصدیق کیے بغیر بھروسہ نہ کریں۔۔ خدا کی رحمت پر بھروسہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جس طرح ہر بلا ایک دن ٹل جاتی ہے، یہ بلا بھی ٹل جائے گی۔۔اس لاک ڈاؤن سے قوم کو کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا ہے،جیساکہ۔۔امریکا دنیا کا سب سے طاقت ور ملک نہیں ہے۔ چین نے تیسری عالمی جنگ کوئی بھی میزائل یا گولی چلائے بغیر جیت لی۔۔اہل یورپ اتنے تعلیم یافتہ نہیں جتنے نظر آتے ہیں، نہ ان کا مدافعتی نظام ہماری طرح مضبوط ہے۔۔ غریب آدمی امیر آدمی سے زیادہ مضبوط ہے۔۔ انسانوں کو اب احساس ہواہوگا کہ جانور چڑیاگھر میں کیسا محسوس کرتے ہونگے؟؟۔ گھروں میں رہ کر بھی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔۔ہم فاسٹ فوڈ اور غیرضروری سرگرمیوں کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس دنیا میں اب بھی اچھے لوگ موجود ہیں۔۔ہم گاڑیوں کے بغیر بھی چل سکتے ہیں۔۔انڈرپاسز، اوورہیڈبرجز، سڑکوں، پلوں سے زیادہ اہم اسپتالوں کی تعمیر ہے۔۔ہمارے پاس وقت بہت ہے بس اس کا استعمال کرنے کا طریقہ آنا چاہیئے۔۔ ضرور سے زیادہ پیسہ بیکار چیز ہے۔۔قدرت کا بنایا ہوا نظام ہی بہتر ہے اسی میں انسان کی بھلائی ہے۔دنیا کتنی بھی ترقی کرلے قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔۔
پہلے پاکستانی باہر کے ملک سے واپس آتے تو گاؤں والے ملنے جاتے تھے، اب فون کرکے پولیس بلالیتے ہیں۔۔اک ہور آیا جے باہروں۔۔لاک ڈاؤں میں بیویاں شکوہ کررہی ہیں کہ۔۔پہلے کیا ساسیں کم روگ تھیں جو اب میا ں صاحبان(شریف برادران کی بات نہیں ہورہی ہے، خاوندوں کی طرف اشارہ ہے)بھی گھر بیٹھ کر میاؤں،میاؤں کررہے ہیں۔۔باباجی کا پوتا میٹرک میں ہے، میٹرک کے امتحانات کراچی میں ملتوی کردیئے گئے ہیں، جو کہ جون کے وسط میں ہوں گے۔۔ہم نے وقت گزاری کے لیے باباجی کے پوتے سے پوچھا۔فلمیں دیکھتے ہو۔۔بولا، جی۔۔ہم نے پوچھا،گبرسنگھ کو جانتے ہو؟ کہنے لگا، شعلے فلم کے ویلن کی بات کررہے ہیں۔۔ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی اور اسے ٹاسک دیا کہ گبرسنگھ پر اچھا سے مضمون لکھ کردکھاؤ، تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ تمہارے اندر ایک اچھے لکھاری کی کیسی خصوصیات ہیں۔ اب چونکہ وہ باباجی کا پوتا تھااس لیے مزاح تو خون میں شامل تھا، موصوف نے گبرسنگھ کے کردار پر کچھ اس طرح کا مضمون لکھ کر ہمیں دکھایا۔۔۔گبرسنگھ سادگی پسند تھا، اسی لیے شہرکی بھیڑ سے دور جنگل میں رہا کرتا تھا،ایک ہی جوڑے میں کئی کئی دن گزاراکرتا تھا۔تمباکوخوری کے عادی تھے۔اصولوں کے اتنے سخت تھے کہ کالیا جیسے وفادار ساتھیوں کو بھی ٹاسک پورا نہ کرنے پر براہ راست گولی ماردی۔۔گبرسنگھ انسان دوست اور بہت ہمدردتھے جس کی واضح مثال یہ تھی کہ انہوں نے ٹھاکر پر قابوپانے کے باوجود صرف ان کے ہاتھ کاٹ کر چھوڑدیا، چاہتے تو اس کی گردن بھی اڑاسکتے تھے۔۔جمالیاتی حسن کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اسی لیے اپنے ہیڈکوارٹر میں رقص و موسیقی کی محفلیں سجاتے تھے۔۔بسنتی کو دیکھتے ہی جان گئے تھے کہ وہ ایک بہترین رقاصہ ہے۔۔خوش مزاج بھی بلاکے تھے،کبھی کسی کو غمگین نہیں دیکھ سکتے تھے، اس لیے اپنے ساتھیوں کو بھی ہنسا ہنسا کر ہی جان سے مارا کرتے تھے۔۔عورتوں کا بہت احترام کرتے تھے۔۔ بسنتی کو اغواکرنے کے بعد صرف اس کا رقص دیکھنا پسند کرتے تھے۔۔فقیرانہ زندگی گزارتے تھے، ان کے آدمی گزارے کے لیے صرف خشک اناج مانگا کرتے تھے،کبھی شراب، گوشت یا بریانی کی فرمائش نہیں کی۔۔ماؤں کے فیوریٹ تھے، اسی لیے وہ اس کا نام لے کر بچوں کو ڈراتی اور پھر سلادیتی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔