... loading ...
وائرس کی دنیا انسانوں کے لیے شاید حیران کن ہو، مگر ایک بات اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کہ بل گیٹس ہمیں وائرسوں سے بروقت آگاہ کرتے ہیں۔ آخر بل گیٹس میں ایسا کیا ہے، کہ وائرس اُن کی پیشین گوئیوں کو پورا کرنے کے لیے ٹھیک وقت پر آدھمکتے ہیں۔ یہ تو کوئی الہامی پیش گوئیاں لگتی ہیں کہ چند سال قبل بل گیٹس نے کہا تھا کہ دنیا میں تباہی مچانے والا(گلوبل کلر) ایک وائرس آنے والا ہے ، مگر ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ کیا یہ کم حیران کن ہے کہ بل گیٹس نے 18؍ مارچ 2015ء کو کینیڈا کے شہر وینکوور (Vancouver) میں تقریر کی اور ٹھیک اُسی دن ایک بلاگ بھی لکھا ، جس میں دنیا کو پھر وائرسوں سے خبردار کیا:
’’میں نے ابھی ایک ایسے مضمون پر مختصر گفتگو کی جس کے متعلق میں نے حال ہی میں بہت کچھ سیکھا ، اور وہ ہے وبائی امراض۔
مغربی افریقا میں’’ ایبولا‘‘ کا پھیلنا ایک المیہ ہے ۔تادمِ تحریر، دس ہزار افراد اس وائرس (وبائی مرض) سے ہلاک ہو چکے۔۔۔
یہ جتنا خوفناک ہے، اگلا اس سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابھی تیار نہیں۔
وائرل فلو کی ہی مثال لے لیں، جو بہت جلد بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
ان چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ا س بات کا قوی امکان ہے کہ اگلا وبائی مرض (وائرس) ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرسکتا ہے‘‘۔
یہ بل گیٹس کے الفاظ ہیں جو اُن کے اپنے بلاگ بعنوان ’’We’re not ready for the next epidemic‘‘ سے لیے گئے ۔ کسی وائرس سے ایک کروڑ سے زیادہ ہلاکتوں کے امکان کی سرگوشی بل گیٹس کے کان میں کون کرتا ہے؟ جیسے کسی وائرس کی وجہ سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ اُس سے ایک کروڑ لوگ ہلاک نہیں ہوں گے، تو کسی وائرس کے متعلق یہ بھی لازماً نہیں کہاجاسکتا کہ اُس سے ایک کروڑ سے زائد لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ سازشی نظریات کو چھوڑیں! خود بل گیٹس کے گزشتہ پچیس برسوں کے تمام بلاگس ، بیانات اور تقاریر کا جوہری جائزہ لیں، وہ پہلے دن سے وائرس اور وباؤں سے کروڑوں انسانوں کی ہلاکتوں پر اپنے موقف کو باربار ، بتکرار ، بصد اِ صرار دُہرا رہاہے۔آخر اس کی کوئی سائنسی بنیاد تو ہونی چاہئے۔ اس موقف پر اِصرار کے لیے ایک حیاتیاتی توجیہ کا مطالبہ بے وزن تو نہ ہوگا۔مگر دال تب کالی لگتی ہے جب ایسا شخص انسانی آبادی میں کمی لانے کا قائل بھی ہو۔
بل گیٹس نے سال 2015ء میں ہی ایک طویل مضمون ’’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن ‘‘ کے لیے لکھا۔ اس کا عنوان تھا: اگلی وبا اور ایبولا سے اسباق۔بل گیٹس اپنے اس مضمون میں ممکنہ اور پیش آئندہ وباؤں کے تناظر میں انتہائی پیچیدہ مرکبات کے ساتھ ویکسین کے مختلف پہلوؤں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیتا ہے۔ جو وائرس ابھی آئے ہی نہیں، جن وائرسوں کے رویے اور ہلاکت خیزی کے متعلق ٹھیک ٹھیک اندازے بھی دستیاب نہ ہوں، پھر وہ وائرس اپنے خاندانوں میں کس نوع کی ’’اینٹی باٖڈیز‘‘سے اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں، اس کے کوئی ٹھوس سائنسی نتائج سرے سے موجود ہی نہ ہو ں تو ویکسین کی تیاریوں میںایک یقینی سمت کیسے اختیار کی جاسکتی ہے؟ اس سوال سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ بل گیٹس یہ ساری سرگرمیاں انتہائی کاروباری انداز سے جاری رکھتا ہے۔ کسی اور کو معلوم ہو یا نہ ہو، بل گیٹس کو سب معلوم ہے۔ مثلاً وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر پیش آئندہ وبا کے مریضوں کوایک خاص آر این اے پر مبنی ایک سیٹ بنا کردیا جائے تو اس سے مخصوص پروٹین (بشمول اینٹی باڈیز) پیدا ہونگیں، یہ اگر چہ کچھ نیا ہے ، مگر امید افزا ہے اور ایک محفوظ دوا کے ساتھ اِسے بڑے پیمانے پر تیار بھی کیا جاسکتا ہے‘‘۔
ہمیں یہاں بل گیٹس کی حیران کن پیشین گوئیوں کے اس پورے سلسلے پر حیرت کا حق بھی نہیں کہ وہ وائرس جو ابھی دنیا کے سامنے آئے بھی نہیں، وہ اُن وائرسوں اور وباؤں کا ذکر کرتا ہے ، پھر نامعلوم او رناموجود وباؤں کی یقینی دواؤں پر بھی قبل از وقت ہمیں آگاہ کرتا ہے۔ ویکسین اور وائرسوں کی یہ ’’ولایت‘‘ اُسے طب کے کون سے ’’روحانی ‘‘ مقام سے کس’’ یزداں ‘‘نے عطیہ کیں، یہ سب ابھی معلوم نہیں۔ مگر ہم ’’ایمان‘‘ لانے پر مجبور ہیں۔مگر کوئی بات تو ہے کہ بل گیٹس بنی نوعِ انسانیت کی واضح ’’رہنمائی‘‘ کرتا ہے۔ وہ انگلی پکڑ کر ہمیں دو کمپنیوں کی جانب واضح اشارہ دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:’’ موڈرنا‘ اور ’’کیوریک ‘‘ نامی کمپنیاں اپنی ویکسین تیاریوں کے ساتھ ان پیش آئندہ وبائی امراض کو روکنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں‘‘۔ بل گیٹس کی یہ باتیں تب بہت مشکوک لگتی ہیں جب یہی کمپنیاں گیٹس فاونڈیشن کے سرمائے سے حرکت کرتی ہیں، اور اس سے بھی زیادہ خطرناک تب لگتی ہیں جب یہ کمپنیاں آر این اے پر مبنی منظور شدہ کووڈ۔ 19 کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دیتی ہیں۔ اور کیوں نہ ہو، دنیا بھر میں وبائی امراض یا وائرس (پھر چاہے وہ زکام جیسی وبا ئی بیماری ہی کیوں نہ ہو) پر سب سے زیادہ گیٹس فاونڈیشن ہی تو متحرک ہے۔بل گیٹس نے برطانیا کے ویلکم ٹرسٹ کو ساتھ ملاکر 2017ء میں ڈیووس ورلڈ اکنامک فورم کے دوران میں ایک نیا کام شروع کیا جسے اُس نے ’’سی ای پی آئی‘‘(Coalition for Epidemic Preparedness Innovations)کا نام دیا۔
بل گیٹس نے اس منصوبے کے تحت ناروے ، ہندوستان ، جاپان اور جرمنی کی حکومتوں کے ساتھ کام شروع کیا جس کا مقصد وبائی امراض کی ویکسینوں کی ترقی میں تیزی لانا بتایا گیا ۔آپ بل گیٹس کی پیش بینی کی صلاحیتوں کی داد دیں، پھر ان تیاریوں کو دیکھیں، پھر اُس وائرس کی دنیا کو ملاحظہ کریں جو اس کی پیش بینی کی حیرت انگیز صلاحیت سے حرکت میں آتی ہے۔ کیا یہ سب واقعی ایسا ہی ہے ؟کیا وائرس کے حرکت میں آنے کا کوئی ٹھوس سائنسی نمونہ (پیٹرن) ہمارے پاس موجود ہے؟ کورونا وائرس کے خاندان کے پہلے دو وائرسوں سارس (SARS) اور میرس (MERS) کی سرگرمیاں محدود کیوں تھیں؟ اور کورونا وائرس کے موجود ایڈیشن یعنی کووڈ۔ 19 کا’’ فیض‘‘عالمگیر کیوں ہے؟ سارس چین میں ہان نسل اور میرس مشرقِ وسطیٰ میں بھی سعودی النسل لوگوں کے پیچھے ہی کیوں پڑا تھا؟ اور موجودہ کووڈ ۔ 19 میں ایسا کیا ہوا کہ اُس نے کسی نسل کا امتیاز نہیں کیا؟ اس کا ہمارے پاس کوئی سائنسی جواب نہیں ۔ یہاں تک کہ اس سوال کی سائنس پر بھی ہماری کوئی توجہ نہیں۔ بس ایک بھیڑ چال ہے جو غوروفکر کے بغیر چاروں اطراف جاری ہے۔ مگر دنیا میں واحد آدمی جو اس معاملے میں اپنے راستے پر چل رہا ہے، وہ ہے بل گیٹس۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ بل گیٹس نے کورونا وائرس کے موجود پھیلاؤ سے چند ہفتے قبل باقاعدہ ایک آزمائشی مشق( ریہرسل) کی تھی ۔ اس آزمائشی مشق میں کورونا کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کے ممکنہ اثرات کا خیالی جائزہ لیا گیا تھا۔ اس میں شرکت کرنے والوں کی تفصیلات اور اس فلم کے خیالی مناظر کو آئندہ تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ مگر کیا یہ سارے پہلو ایک ترتیب کے ساتھ آپ کو حیران نہیں کرتے؟آپ کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال نہیں اُٹھتا کہ کیا بل گیٹس وائرسوں کے ماما ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔