... loading ...
ہم یہاں راک فیلر کا استقبال کرچکے۔مسئلہ آبادی ہی ہے۔بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاونڈیشن نے راک فیلر فاؤنڈیشن کے ساتھ مختلف طریقوں سے افریقا میں پنجے گاڑے۔ہدف آبادی کو نشانا ہی بنانا تھا۔ ان دونوں فاونڈیشن کے روابط کو دھیان میںرکھتے ہوئے ان کی افریقامیں مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو اندازا ہوتا ہے کہ یہ ’’انسان دوست ‘‘تنظیمیں دو طرح سے افریقا کو نشانا بناتی ہیں۔ جی ایم فوڈ اور ویکسی نیشن۔ جینیاتی انجینئرنگ سے بیجوں کو مرضی کی فصلوں میں ڈھالنے سے لے کر ویکسی نیشن سے بیماریوں کا مقابلہ کرنے تک ان دونوں تنظیموں پر الزامات یکساں لگے ۔ ان دونوں تنظیموں کے متعلق ان دونوں میدانوں میں کام کرتے ہوئے یہ یکساں الزام لگا کہ یہ اس کے ذریعے انسان کی تولیدی صحت کومتاثر کرتے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ انسان دوستی، بھوک کے خاتمے ، مستقبل کی حفاظت اور فلاحِ انسانیت ایسے خوشنما اور متاثر کن الفاظ(Euphemism) استعمال کرنا کبھی نہیں بھولتے۔
یاد رکھیں !جی ایم او ٹیکنالوجی کے تخلیق کار ڈیوڈ راک فیلر اور بل گیٹس نے باہمی طور پر افریقا میں ایک’’ سبز انقلاب ‘‘ بعنوان اے جی آر اے یعنی ’’The Alliance for a Green Revolution in Africa‘‘ کے منصوبے کی مالی اعانت کی۔ جس کی سربراہی اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کی ۔ اب اے جی آر اے کے ذریعے کیا کھیل کھیلا گیا ؟سب سے پہلے مصنوعی زرعی اجناس کا کاروبار کرنے والی بڑی کارپوریشنز نے اپنے’’ مشکوک‘‘ اور ’’ مصنوعی بیجوں ‘‘کو مختلف فریب زدہ نشانات(لیبل) لگا کر بیچنا شروع کردیا۔ان بڑی کارپوریشنز میں مونسینٹو(Monsanto) ، ڈوپونٹ ( DuPont)، ڈاؤ ( Dow)، سنجینٹا(Syngenta)شامل تھیں۔
مصنوعی بیجوں سے فصلوں کی آبیاری کی مقامی سطح پر مخالفت ہوئی تو سبز انقلاب کا خواب دیکھنے والے مقامی لوگ حرکت میں آئے ۔ آخر ’’اے جی آر اے ‘‘ کو کس دن کے لیے پالا گیا تھا؟ ان کی مالی معاونت کیوں کی گئی تھی؟ ظاہر ہے کہ اب کھیل شروع ہے۔ ان کارپوریشنز میں عملاً زیادہ تر حصص ٹیکس فری بل گیٹس اور راک فیلر کی فلاحی تنظیموں کے ہیں۔ یہی تنظیمیں سبز انقلاب کے لیے افریقیوں کو مالی معاونت کررہی ہیں، مگر افریقا کے تمام ممالک اُن کارپوریشنز سے مصنوعی بیج فریب زدہ نشانات کے ساتھ خرید رہی ہیں جس کے مالی معاون گیٹس اور راک فیلر ہیں۔ یوںایک ہاتھ سے پیسے دے کر کئی ہاتھوں سے گھومتے ہوئے وہی پیسے ان کے ہاتھ لگ رہے ہیں جو فلاح انسانیت کے نام پر ایک تو ٹیکس سے بھی مستثنیٰ ہیں اور دوسری طرف کاروباری سرگرمیوں میں بھی گردش کررہا ہے۔ یہاںاس نکتے کو بھی فراموش نہ کریں کہ جب یہ ساری سرگرمیاں اسی منحوس اور شیطانی دائرے میں جاری تھیں تو دوسری طرف کوفی عنان بل گیٹس اور راک فیلر کی تنظیموں سے اظہارِ تشکر کررہاتھا۔ یہ سب پہلو اپنے اپنے مقام پر حرکت کرتے ہوئے ایک بڑا دائرہ بناتے ہیں۔ تب ہی تو راک فیلر اور بل گیٹس ایک برانڈ بنتے ہیں۔ مگر اس پورے منحوس چکر (vicious circle) میں گھومتے گھماتے ہوئے ان کا اصل ہدف وہی آبادی کا کنٹرول اور کمی ہے۔
آئیے اس پیچیدہ بحث کے سرے کو تھام لیتے ہیں۔ مصنوعی زرعی اجناس یعنی جی ایم اور کی فصلیں انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے کبھی بھی محفوظ ثابت نہیں ہوئیں۔ وہ خلقاً جینیاتی طور پر غیر مستحکم ہوتی ہیں، کیونکہ مصنوعی بیجوں کے ڈی این اے میں شامل غیر ملکی جراثیم جیسے بیکیلس تھرنجین جنس (بی ٹی) یا دوسرے مادہ غیر فطری آمیزش کے باعث اپنی خاصیتیں ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہو جاتا ہے، جسے انتہائی سفاکی سے دانستہ جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ ہدف تو آبادی کو نشانا ہی بنانا ہوتا ہے۔ اسی طرح جوڑ والی کیمیائی دوا جو جی ایم او معاہدے کے تحت لازمی فروخت کا حصہ ہے، اسی نوع کا کاروبار ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پھیلائی گئی ہے۔ اس میں انتہائی زہریلے گلائفوسیٹ مرکبات شامل ہیں،جن کے آزاد تجربات اور آزمائشوں سے اس میں زہریلے ارتکاز کا پتہ چلا۔اسی دوران میں جی ایم او فیلڈ کے قریب زمینی پانی پینے والی حاملہ عورتوں میں بھی معمولی مقدار میں گلائفوسیٹ مرکبات کا انکشاف ہوا۔ اسی طرح ایک پراناامریکی منصوبہ مکئی کی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ قسم کا بھی ہے جسے میکسیکو اور دیگر لاطینی امریکی ممالک میں غذائی سامان بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ امریکی محکمہ زراعت نے کیلی فورنیا میں واقع ایک چھوٹی سی بائیو ٹیک کمپنی ’’ایپی سائٹ ‘‘ کے ساتھ اس کا تجربہ کیا۔
ایپی سائٹ ( Epicyte)نامی کمپنی کے صدر مِچ ہین نے2001ء میں اپنی کامیابی کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ جس میںمچ میں نے اپنے جی ایم او پودوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس ان درختوں کا پورا گرم خانہ ہے جو اینٹی اسپرم اینٹی باڈیز بناتا ہے ، جسے مدافعتی بانجھ پن کے نام سے پہنچانا جاتا ہے۔ اس سے قبل لبرل ازم اور عورتوں کے حقوق کے نام پر اُنہیں ذہنی طور پر تیار کیا جاچکا تھا کہ وہ بچے پیدا کرنے سے انکار کردیں۔ لو جی آسان نسخہ ہاتھ لگ گیا، مکئی کھائیے اور مدافعی بانجھ پن سے آزاد عورت ہونے کا ثبوت بھی دیں۔ انسانیت کے خلاف جاری ان سرگرمیوں کو انسانی شعور کے بانجھ پن سے ہی جاری رکھا جاسکتا ہے، ہمت دیکھیں کہ پریس کانفرنسوں میں اس کا اعلان کرتے ہیںاور معاشرہ دیکھیں کہ وہ خوش و خرم ہے ، چونکتا بھی نہیں۔ لبرل ازم ، ماڈرن ازم زندہ باد!! موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ مِچ ہین نے اس پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ’’انھوں نے خواتین سے اینٹی باڈیز لی ہیں جنھیں مدافعتی بانجھ پن کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ ان جینوں کو الگ تھلگ کیا جاتا ہے جو بانجھ پن کے اینٹی باڈیز کی تیاری کو منظم کرتے ہیں ، اور جینیاتی انجینئرنگ کی تکنیک سے جینوں کو مکئی کے پودے تیار کرنے کے لیے زیرِ استعمال بیجوں میں داخل کردیتے ہیں۔اس طریقے سے ، انہوں نے مکئی میں سرایت شدہ ایک چھپا ہوا مانع حمل پیدا کیا ہے‘‘۔مِچ ہین نے اپنی پوری پریس کانفرنس میں حیاتیاتی طور پر اس تکنیک کی تفصیل بیان کی جو مکئی سے مانع حمل کا مقصد پورا کردیتا ہے۔ اس طویل حیاتیاتی تفصیلات کی یہاں ضرورت نہیں، مقصد تو محض ایک نکتے کی وضاحت ہے۔ یہاں صرف مِچ ہین کے اس دعویٰ کو بیان کرنا ضروری ہے جس میں وہ اُسی پریس کانفرنس میں کہتا ہے کہ’’ یہ دنیا کی زیادہ آبادی کا ممکنہ حل ہے ‘‘۔
اب تیسری دنیا کو بھوک مٹاؤ مشن کے تحت اس کا کھانا کھلایا جارہا ہے ، اوریہ’’ فیاضی‘‘گیٹس فاونڈیشن اور راک فیلر فاونڈیشن دکھاتی ہے۔ جس میں افریقا کی حد تک اُن کے مددگار سبز انقلاب والے یعنی’’ اے جی آراے‘‘ ہے۔ یہی کام ایشیا میں بھیس بدل بدل کر جاری ہے۔ افسوس پاکستان میں کسی بھی سطح پر اس کا شعور تک نہیں۔ کیا آپ ان لوگوں کو پوری طرح پہچاننا چاہتے ہیں؟ بعض لوگ غلط طور پر اس کی تعبیر ملکوں کی سطح پر آکر کرتے ہیں۔ ہر گز نہیں، یہ کچھ لوگ ہیں جو ملکوں کو اپنا خدمت گار بناتے ہیں۔ یہ ایسے وائرس ہیں جنہیں حرکت کرنے کے لیے جس معاون جسم کی ضرورت پڑتی ہے وہ دراصل بڑے ملکوں کی بڑی اور طاقت ور حکومتیں ہیں ، یہ اپنی ذہانت سے خود کو اُ ن سے بھی زیادہ طاقت ور بنائے رکھتے ہیں۔ اس کام کو صرف راک فیلر یا بل گیٹس نہیں کرتے۔ بلکہ یہ ایک کلب ہے، جنہیں یہ’’ گڈ کلب‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی تفصیل آئندہ کے لیے اُٹھائے رکھتے ہیں۔ یہاں صرف یہ نکتہ واضح کرنا مقصود ہے کہ مصنوعی بیجوں سے لے کر ویکسین تک ہر چیز کا مقصد آبادی کو گھٹانا ہے۔ کورونا وائرس اسی مقصد کا محض ایک معمولی تجربہ ہے۔ تجربات مزید کیے جارہے ہیں ، دنیا آئندہ بھی نئے وائرسوں کے لیے تیار رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔