... loading ...
یہ اتفاق نہیں کہ کورونا وائرس اُن لوگوں کا مددگار ثابت ہورہا ہے ، جو آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے مختلف نظریات برقی محفوظات میں ٹنوں کے حساب سے دستیاب ہیں۔ یہ ایک پُرانا موضوع ہے۔ جسے اقوام متحدہ کی ایجنڈا 21نامی کانفرنس میں بھی زیربحث لایا گیا تھا۔ محض یہی ایک موضوع اتنی شاخیں رکھتا ہے کہ اسے چند تحریروں میں نہیں سمیٹا جاسکتا۔ اس لیے اس کے نظریاتی پہلوؤں سے قطعِ نظر کر لیتے ہیں، اور عملی پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہیں۔
بل گیٹس نے 36برس کی عمر میں جب اقوامِ متحدہ کی مذکورہ کانفرنس سے 1992ء میں خطاب کیا تو اُس کا ہدف آبادی کا کنٹرول ہی تھا۔ بِل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اس کے آٹھ برس بعد 2000ء میں قائم ہوئی تھی، جس نے اپنے پرَ پُرزے آہستہ آہستہ نکالے۔ بل گیٹس کے ایجنڈے میں شامل گلوبل ہیلتھ اصلاً آبادی پر کنٹرول کو ہی ہدف بناتا ہے۔ قدرتی وسائل کو انسانوں کے لیے ناکافی سمجھنے کا غلط موقف اس منصوبے کی بنیاد میں ہے۔ اپنے کرتوتوں سے فطرت کے لازمی نتائج کو انسانوں کے خلاف استعمال کرنے کا یہ ایک عجیب و غریب کھیل ہے۔ یہ عناصر سمجھتے ہیں کہ موجودہ آبادی کے ساتھ دو مسئلے ہیں ۔ ایک یہ پہلے سے ہی زیادہ ہے دوسرے یہ اپنی آبادی کو مستقبل میں بھی کنٹرول کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ان دونوں پہلوؤں سے یہ موجودہ آبادی پر حملہ آور ہیں۔ چنانچہ ان کے موجودہ آبادی کے ساتھ کھلواڑ بھی دو طرح سے سامنے آتے ہیں۔ اولاً : موجودہ آبادی کو کم کیا جائے۔ چنانچہ اسے کنٹرول کرنے کے مختلف طریقوں میں سے یورپ کی بوڑھی آبادی سے نجات بھی ایک ترجیح ہے۔ یہ عناصر دنیا کے بوڑھوں کو دیکھتے ہوئے ذرا خود کو نہیں ٹٹولتے، ایسا کرتے کرتے وہ خود بھی اب بوڑھے ہو چکے، مگر قدرت نے اُن کے خاکے کو پورا نہیں ہونے دیا، یہ پھر بھی بضد ہیں۔ ثانیا: موجودہ آبادی مستقبل میں آبادی میں جومزید اضافہ کرسکتی ہے، اُسے اپنے کنٹرول میں لے لیا جائے۔ یعنی مستقبل میں آبادی کتنی اور کب بڑھنی چاہئے ، اس کا تعین اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے۔ یہ اس منصوبے کا سب سے خوف ناک پہلو ہے۔ یہیں سے انسان کی تولیدی صحت کو کنٹرول کرنے کے نظریے نے جنم لیا۔ اور یہیں سے ویکسی نیسن کا کھیل شروع ہوا۔ یہاں اس نکتے کو بھی دھیان میں رکھنا چاہئے کہ’’جی ایم فوڈ ‘‘(Genetically modified foods) میں کہیں اس نوع کی’’ کاریگری‘‘ تو نہیں۔
جینیاتی طور پر بیجوں کو تبدیل کرنے اور اپنی فصلیں اُگانے میں جس نوع کے کھانے انسانوں کے معدوں میں ٹھونسے جارہے ہیں ، وہ ا س کے تولیدی نظام کو کتنا گڑ بڑ کرتے ہیں، اس سوال کا جواب تحقیق طلب ہے۔ بہر حال اپنے اصل نکتے کی طرف پلٹتے ہیں۔آبادی سے کھلواڑ کے مذکورہ دونوں پہلوؤں پر محیط منصوبے کو گلوبل ہیلتھ سے جڑے بل گیٹس کے ایجنڈے سے منسلک کریں ۔ پھر اس منصوبے کے ساتھ اس کی دوطرفہ سرگرمیوںپردھیان دیں، یعنی ویکسین اور وائرس۔ویکسین ایک انتہائی اہم اور تیسری دنیا کے محروم اور پس ماندہ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انتہائی کم علم اور ریاستی طاقت کے پیچیدہ استعمال کے ساتھ چلنے والے ویکسین منصوبوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تائید ڈاکٹرز سے بھی حاصل کرلی جاتی ہے۔جنہیں سالانہ چھٹیاں منانے کے لیے دوطرفہ ٹکٹس ، ایک پنج ستارہ ہوٹل اور گاہے رات کو رنگین بنانے والی کوئی مخلوق درکار ہوتی ہے۔ پاکستان میںتو اس سے کم میں بھی کام چل جاتا ہے۔ لیبارٹریاں درست بات بتاتے ہوئے پراسرار خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ پھر بھیڑچال ہی سب سے اچھی چال رہ جاتی ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں ، یہ کتنا خوف ناک مسئلہ ہے؟
ایف ولیم اینگڈھل (F. William Engdahl)جرمنی میں مقیم ایک امریکی ہے۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُنہوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے اپنے خیالات بھی پیش کیے ہیں۔ جسے کسی اور تحریر پر اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں ہم اُس پسِ منظر پر زیادہ توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں ، جس میں کورونا وائرس اور اس نوع کے اقدامات کے محرکات واضح ہوں۔ چنانچہ کیلیفورنیا میں 2010 میں منعقد ہونے والی ’’ٹی ای ڈی کانفرنس‘‘ میں بل گیٹس کے خطاب پر اُن کی تحریر زیادہ ضروری محسوس ہوتی ہے۔ایف ولیم اینگڈھل نے بل گیٹس کے خطاب پر ایک مضمون 4؍ مارچ 2010کو لکھا جس کا عنوان تھا:
’’ Bill Gates Talks About Vaccines to Reduce World Population‘‘
مضمون نگار نے بل گیٹس کے عزائم کا اُس کے ذہن میں اُتر کر سراغ لگایا ، مگر یہاں بل گیٹس کے مذکورہ کانفرنس میں اپنے الفاظ کو ذہن میں دوبارہ تازہ کرلیجیے:
’’دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے ، جو تقریباً 9 بلین ہونے کی طرف گامزن ہے ۔
اگر ہم نئی ویکسین، حفظان صحت اور تولیدی صحت کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم آبادی کو شاید 10سے15 فی صد تک گھٹا سکتے ہیں‘‘۔(بل گیٹس کا 2010 میں خطاب)
ایف ولیم اینگڈھل اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ بل گیٹس کی اس تقریر کاعنوان ہی ’’Innovating to Zero‘‘ تھا۔جس میں اُس نے ایک بے رنگ و بے بو گیس کے اخراج کے امکان اور آبادی کے 2050 میں موجود امکانات پر بھی بات کی۔ مضمون نگار کے مطابق تقریبا ساڑھے چار منٹ کے خطاب میں دنیا کا یہ طاقت ور ترین فرد آبادی میں اضافے کو کم کرنے کے لیے ویکسین کے استعمال کی بات کرتا ہے۔
گیٹس فاؤنڈیشن، گاوی (Global Alliance for Vaccinations and Immunization) کی بانی رکن ہے۔جو ورلڈ بینک اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر ویکسین انڈسٹری کے ساتھ شراکت داری رکھتی ہے۔ ان کا مشن ترقی پزیر ملک کے ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانا ہے۔یہ سب کچھ انسانیت کی بھلائی میں لگتا ہے۔ مگر خطرناک بات یہ ہے اس ویکسین انڈسٹری کو اکثر کچرا کنڈی میںکچھ نہ کچھ دفن کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اب دنیا بھر میں یہ کوئی مذہبی تنظیمیں نہیں بلکہ مغرب کی ہی انسان دوست عالمی تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ ان کی جانب سے قطرے پلانے کا اصل مقصد لوگوں کو بیمار رکھنا اور قبل ازوقت موت کا شکار کرنا ہے۔ ایف ولیم اینگڈھل یہاں یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کے بچوں کے لیے پولیو کے قطرے ہی کیوں ضروری ہیں؟روم میں واقع کوکرین ریسرچ سینٹر کے ماہر ڈاکٹر تھامس جیفر سن ایسی بہت سی بیماریوں کی ویکیسن سے تیسری دنیا کو محروم رکھنے پر سوال اُٹھاتے ہیں جو ان کے پاس موجود ہیں۔ پھر پولیو کے قطروں پر ہی اصرار کیوں؟
تیسری دنیا میں فراہم کی جانے والی ویکیسن میں سے اکثر پر خاصے طبی سوالات موجود ہیں۔ مثلاًدواسازی کے ٹیکے بنانے والے آٹزم اورنیورو پٹھوں کی خرابی سمیت نوزائیدہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے بہت زیادہ صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میںکوئی بات نہیں کرتا ، جن میں سے اکثر میں زہریلی ادویہ استعمال کی گئیں۔ اسی طرح کثیر خوراک کی ویکسین جو تیسری دنیا کو زیادہ سستی فروخت کے لیے بنائی جاتی ہیں ، ان میں تھائیمروسل Thiomersol) ) نامی کوئی چیز ہوتی ہے ، جس میں ایک مرکب (سوڈیم ایتھیلمرکوریٹیوسائلیسلیٹ) ہوتا ہے ، جس میں 50 فیصد پارا ہوتا ہے ، جسے محافظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔جولائی 1999 میں امریکی ‘نیشنل ویکسین انفارمیشن سینٹر نے ایک پریس ریلیز میں اعلان کیا تھا کہ ’’پارا کو گھسنے کے مجموعی اثرات دماغ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘۔اسی مہینے ، امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے اے پی) اور بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز (سی ڈی سی) نے عوام کو تھائیمروسل پر مشتمل ویکسینوں سے متعلقہ ممکنہ صحت کے اثرات سے آگاہ کیا۔ انھوں نے سختی سے سفارش کی کہ تھیمروسل کو جلد از جلد ویکسین سے ہٹایا جائے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب تیسری دنیا کامقدر کیوں ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب تصورات ہیں، درحقیقت یہ سب خطرات حقیقت کاروپ دھار رہے ہیں۔ پاکستان کو ابھی زیر بحث نہیں لاتے، بھارت چلتے ہیں۔ بھارت کی دو ریاستوں گجرات اور آندھرا پردیش میںقدیم قبائل کے تیس ہزار بچوں پر ایچ پی وی ویکیسن کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ جن بچوں پر یہ ویکیسن آزمائی گئی اُن میں سے اکثر بیمار ہوگئے۔ کچھ کی موت واقع ہوئی۔ متاثرہ بچوں میں بانجھ پن کے مسائل بھی سامنے آئے۔ گیٹس فاؤنڈیشن پاکستان وبھارت میں پولیو ویکیسن مہم کی مالیاتی سرپرستی کرتی ہے۔اور باتیں تو چھوڑئیے! پولیو مہم میں بچوں کو دو قسموں میں سے ایک’’او پی وی‘‘ (Oral Polio vaccine) دی جاتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بھارت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ’’اے ایف پی‘‘( Acute Flaccid paralysis)کے مریض سامنے آئے ۔ اے ایف پی کا مرض جسم میں قوت مدافعت گھٹانے اور معذوری کا سبب بنتا ہے ۔یہ ایک دانستہ ہدف ہے جو آبادی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے سے جڑا ہے۔ بھارت میں پولیو کی اس قسم یعنی او پی وی (Oral Polio vaccine) پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگر آپ اس منصوبے کو پوری طرح ٹٹولیں تو واضح ہو جائے گا کہ ویکسین انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے کے مذموم منصوبے کا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ؔ