... loading ...
کمان سے نکلا اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتی یہ حقیقت نما کہاوت سنتے زندگی گزری۔ بابا رحمتے ایک فرضی کردار کے طور پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی زبان سے ادا ہونے والا واقعہ ایسا منسوب ہوا کہ جسٹس ثاقب نثار اور بابا رحمتے لازم و ملزوم ہوگئے۔ جسٹس ثاقب نثار جب تک فرائض منصبی نبھاتے رہے بہت متحرک رہے آئے روز عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ملزمان کے ساتھ جو ہوتا رہا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ بابا رحمتے مختلف اداروں میں جس طرح چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ان پر آج لوگ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے اس وقت کے سربراہ سے لڑائی پاکستان کی عدالتی و انتظامی تاریخ کی بدترین “لڑائیوں” میں سے ایک تھی۔ آج پی کے ایل آئی کے ویرانے بتاتے ہیں لڑائی بلا وجہ تھی۔ اس کے لیے نا کوئی اصول اپنایا نا کوئی قانون اس قابل سمجھا گیا۔ طاقت کے “اصول ” کو سب کچھ جان کے ا سٹیٹ آف دی آرٹ ادارے کو اجاڑ دیا گیا۔ کاش بابا رحمتے اس دیہاتی کہاوت سے واقف ہوتے جس میں لڑائی کے لیے مشہور مائی رحمتے ایک نئی نویلی دلہن کی “شرط” کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ قارئین کرام، دیہاتی کہاوت پڑھے بغیر بات آگے بڑھانا اچھا نہیں لگتا اس لیے پہلے یہ کہاوت پڑھ لیں کسی گاؤں میں ایک لڑکی دلہن بن کے آئی۔
سارے گاؤں کی خواتین حسب روایت اْسے دیکھنے آتیں اور بتاتیں کہ مائی رحمتے سے ذرا بچ کے رہنا…
وہ پوچھتی مائی رحمتے ہے کون؟
تو جواب ملتا ملو گی تو خود پتہ چل جائے گا۔
کچھ دیر میں ہی شور ہوا اور ایک بوڑھی عورت لڑتی جھگڑتی گلی میں آئی..
.پتہ چلا کہ یہ مائی رحمتے ہے۔
اور ہر وقت لڑنا اس کا کام ہے۔
گاؤں کا کوئی بچہ بوڑھا مرد عورت اس کی لڑائی کی زد سے نہیں بچ سکتا۔
حتٰی کہ جانوروں سے بھی اس کی لڑائی تھی۔
گاؤں کا کوئی گائے بھینس بیل سنڈھا کتا بلی گھوڑا گھوڑی
اس خاتون کا سامنا نہیں کرتا تھا سب سے لڑ چکی تھی…
مائی رحمتے نے دلہن کو دیکھا ناک بھوں چڑھائی اور بولنے ہی لگی تھی کہ دلہن بول اْٹھی:
” اے مائی تیرا لڑن دا ارادہ اے تے پہلے اصول طے کر لے۔
جے تے اک دن دی لڑائی لڑنی اے تے آ جا ہْنے قصہ مکائیے۔
جے چھ مہینے لڑنا ای تے میرے نال رل کے کنک بیج لا۔
مربعے آندیاں جاندیاں لڑیا کراں گے۔
جے سال لڑنا ای تے رل کے زمین ٹھیکے تے لیندے آں۔ کدی پانی دی واری تے لڑاں گے کدی بجائی تے کدی واڈیاں تے۔
اک سال بعد جان چھْٹے گی دوواں دی..
تے جے تیرا خیال ساری عمر لڑن دا اے تے میرے کھسم نال ویاہ کرا لے
سوکن بن جا میری۔ نالے وسّاں گے نالے لڑاں گے”
سنا ہے اب مائی رحمتے نہیں لڑتی..۔۔( مائی رحمتے اگر لڑنے کا ارادہ ہے تو اصول طئے کرلیں۔ ایک دن کے لیے لڑنا ہے تو ابھی لڑ لیتے ہیں۔ 6 ماہ لڑنا ہے تو مشترکہ طور پر گندم کی فصل بو لیتے ہیں۔ ایک سال لڑنا ہے تو ٹھیکے پر رقبہ لے لیتے ہیں۔ اور اگر ساری زندگی لڑنے کا ارادہ ہے تو میرے خاوند سے بیاہ رچا کے میری سوتن بن جاؤ ساری زندگی لڑتے رہیں گے اس کی یہ بات سن کے مائی رحمتے لڑائی سے توبہ تائب ہوگئی) یہ کہاوت پاکستان کی سیاست پر بھی صادق آتی ہے جہاں کوئی اصول ہے نا ضابطہ صرف لڑائی، لڑائی اور لڑائی۔ آج اپوزیشن حکومت کے سامنے دلہن کی طرح “شرط” رکھ دے اور یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس پر عمل کرے تو شاید پاکستان سے یہ لڑائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ حکومت مائی رحمتے کی طرح ہر ایک سے لڑتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ مائی رحمتے بھی گاؤں کی” بڑی ” ہونے کی وجہ سے اپنی عزت کرواسکتی تھی لیکن اسے یہ راس نہ آئی اور نئی نویلی دلہن سے بے عزت ہوکے لڑائی سے تائب ہوئی۔ پاکستان کی اپوزیشن بھی نئی نویلی دلہن ہے لیکن گاؤں کی دلہن اور اس دلہن میں فرق یہ ہے کہ گاؤں کی دلہن سمجھدار ہونے کے ساتھ دلیر بھی تھی مگر یہاں معاملہ صرف الٹ ہے۔ دلہن اپوزیشن صرف “شرمیلی” ہے۔ جو مائی رحمتے پر تنقید کرتے ہوئے کوئی “اصول ” طئے کرنا تو درکنار تنقید کرنے سے بھی شرماتی ہے۔ آج پاکستان میں خوف کے سائے ہیں۔ لوگوں کو بیروزگاری کا عفریت منہ کھولے کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ سڑکوں۔ گلیوں میں خوف کے سائے ہیں۔ کرونا وائرس نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پنجے گاڑ لیے ہیں۔ ہماری حکومت اس قدر نااہل ہے کہ اس نے تاریخ میں اپنا “مقام ” بنالیا ہے لیکن اس کی خوش قسمتی کہ اس کا واسطہ اس دیہاتی دلہن سے نہیں پڑا بلکہ شہبازشریف نامی “دلہن” اس کے نصیب میں آئی جو ڈری سہمی دکھائی دیتی ہے۔ اس دلہن کے پاس ڈرنے کی کوئی “معقول ” وجہ ہوگی لیکن جو بھی ہو یہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ موت کے سایوں میں بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان سیاست سے باز نہیں آرہے وہ ان حالات میں بھی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ کرونا ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بھی اسی مستقبل کی منصوبہ بندی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ کرونا سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہوتے تو ٹائیگر فورس کی بجائے اساتذہ کرام۔ ھیلتھ ورکرز۔ بلدیاتی اداروں یا پھر ریڈ کراس کے تربیت یافتہ رضا کاروں کو استعمال کرتے لیکن ان کا مقصد ریلیف سے “بڑا” ہے۔ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی آئیندہ عام انتخابات کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب دلہن اپوزیشن اس پر بھی بات کرتے ہوئے شرمارہی ہے۔ تبدیلی سرکار کی شروعات سے اب تک کی پالیسی پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ لڑائی اس کا سب سے کارگر ہتھیار ہے یہ حکومت صرف اسی “کارکردگی ” کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے قوم اس وقت انتہائی برے دور سے گزر رہی ہے اور خواہشمند ہے کہ ڈری سہمی دلہن اپوزیشن کی جانب دیکھنے کی بجائے اس قوم کی حالت پر رحم کھائے اور اسے یقین دلائے کہ “اب مائی رحمتے نہیں لڑتی”۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔