وجود

... loading ...

وجود

اب مائی رحمتے نہیں لڑتی۔

جمعرات 02 اپریل 2020 اب مائی رحمتے نہیں لڑتی۔

کمان سے نکلا اور زبان سے نکلی بات کبھی واپس نہیں آتی یہ حقیقت نما کہاوت سنتے زندگی گزری۔ بابا رحمتے ایک فرضی کردار کے طور پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی زبان سے ادا ہونے والا واقعہ ایسا منسوب ہوا کہ جسٹس ثاقب نثار اور بابا رحمتے لازم و ملزوم ہوگئے۔ جسٹس ثاقب نثار جب تک فرائض منصبی نبھاتے رہے بہت متحرک رہے آئے روز عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ملزمان کے ساتھ جو ہوتا رہا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ بابا رحمتے مختلف اداروں میں جس طرح چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ان پر آج لوگ تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے اس وقت کے سربراہ سے لڑائی پاکستان کی عدالتی و انتظامی تاریخ کی بدترین “لڑائیوں” میں سے ایک تھی۔ آج پی کے ایل آئی کے ویرانے بتاتے ہیں لڑائی بلا وجہ تھی۔ اس کے لیے نا کوئی اصول اپنایا نا کوئی قانون اس قابل سمجھا گیا۔ طاقت کے “اصول ” کو سب کچھ جان کے ا سٹیٹ آف دی آرٹ ادارے کو اجاڑ دیا گیا۔ کاش بابا رحمتے اس دیہاتی کہاوت سے واقف ہوتے جس میں لڑائی کے لیے مشہور مائی رحمتے ایک نئی نویلی دلہن کی “شرط” کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ قارئین کرام، دیہاتی کہاوت پڑھے بغیر بات آگے بڑھانا اچھا نہیں لگتا اس لیے پہلے یہ کہاوت پڑھ لیں کسی گاؤں میں ایک لڑکی دلہن بن کے آئی۔

سارے گاؤں کی خواتین حسب روایت اْسے دیکھنے آتیں اور بتاتیں کہ مائی رحمتے سے ذرا بچ کے رہنا…
وہ پوچھتی مائی رحمتے ہے کون؟
تو جواب ملتا ملو گی تو خود پتہ چل جائے گا۔
کچھ دیر میں ہی شور ہوا اور ایک بوڑھی عورت لڑتی جھگڑتی گلی میں آئی..
.پتہ چلا کہ یہ مائی رحمتے ہے۔
اور ہر وقت لڑنا اس کا کام ہے۔
گاؤں کا کوئی بچہ بوڑھا مرد عورت اس کی لڑائی کی زد سے نہیں بچ سکتا۔
حتٰی کہ جانوروں سے بھی اس کی لڑائی تھی۔
گاؤں کا کوئی گائے بھینس بیل سنڈھا کتا بلی گھوڑا گھوڑی
اس خاتون کا سامنا نہیں کرتا تھا سب سے لڑ چکی تھی…
مائی رحمتے نے دلہن کو دیکھا ناک بھوں چڑھائی اور بولنے ہی لگی تھی کہ دلہن بول اْٹھی:
” اے مائی تیرا لڑن دا ارادہ اے تے پہلے اصول طے کر لے۔
جے تے اک دن دی لڑائی لڑنی اے تے آ جا ہْنے قصہ مکائیے۔
جے چھ مہینے لڑنا ای تے میرے نال رل کے کنک بیج لا۔
مربعے آندیاں جاندیاں لڑیا کراں گے۔
جے سال لڑنا ای تے رل کے زمین ٹھیکے تے لیندے آں۔ کدی پانی دی واری تے لڑاں گے کدی بجائی تے کدی واڈیاں تے۔
اک سال بعد جان چھْٹے گی دوواں دی..
تے جے تیرا خیال ساری عمر لڑن دا اے تے میرے کھسم نال ویاہ کرا لے
سوکن بن جا میری۔ نالے وسّاں گے نالے لڑاں گے”
سنا ہے اب مائی رحمتے نہیں لڑتی..۔۔( مائی رحمتے اگر لڑنے کا ارادہ ہے تو اصول طئے کرلیں۔ ایک دن کے لیے لڑنا ہے تو ابھی لڑ لیتے ہیں۔ 6 ماہ لڑنا ہے تو مشترکہ طور پر گندم کی فصل بو لیتے ہیں۔ ایک سال لڑنا ہے تو ٹھیکے پر رقبہ لے لیتے ہیں۔ اور اگر ساری زندگی لڑنے کا ارادہ ہے تو میرے خاوند سے بیاہ رچا کے میری سوتن بن جاؤ ساری زندگی لڑتے رہیں گے اس کی یہ بات سن کے مائی رحمتے لڑائی سے توبہ تائب ہوگئی) یہ کہاوت پاکستان کی سیاست پر بھی صادق آتی ہے جہاں کوئی اصول ہے نا ضابطہ صرف لڑائی، لڑائی اور لڑائی۔ آج اپوزیشن حکومت کے سامنے دلہن کی طرح “شرط” رکھ دے اور یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس پر عمل کرے تو شاید پاکستان سے یہ لڑائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ حکومت مائی رحمتے کی طرح ہر ایک سے لڑتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ مائی رحمتے بھی گاؤں کی” بڑی ” ہونے کی وجہ سے اپنی عزت کرواسکتی تھی لیکن اسے یہ راس نہ آئی اور نئی نویلی دلہن سے بے عزت ہوکے لڑائی سے تائب ہوئی۔ پاکستان کی اپوزیشن بھی نئی نویلی دلہن ہے لیکن گاؤں کی دلہن اور اس دلہن میں فرق یہ ہے کہ گاؤں کی دلہن سمجھدار ہونے کے ساتھ دلیر بھی تھی مگر یہاں معاملہ صرف الٹ ہے۔ دلہن اپوزیشن صرف “شرمیلی” ہے۔ جو مائی رحمتے پر تنقید کرتے ہوئے کوئی “اصول ” طئے کرنا تو درکنار تنقید کرنے سے بھی شرماتی ہے۔ آج پاکستان میں خوف کے سائے ہیں۔ لوگوں کو بیروزگاری کا عفریت منہ کھولے کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ سڑکوں۔ گلیوں میں خوف کے سائے ہیں۔ کرونا وائرس نے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پنجے گاڑ لیے ہیں۔ ہماری حکومت اس قدر نااہل ہے کہ اس نے تاریخ میں اپنا “مقام ” بنالیا ہے لیکن اس کی خوش قسمتی کہ اس کا واسطہ اس دیہاتی دلہن سے نہیں پڑا بلکہ شہبازشریف نامی “دلہن” اس کے نصیب میں آئی جو ڈری سہمی دکھائی دیتی ہے۔ اس دلہن کے پاس ڈرنے کی کوئی “معقول ” وجہ ہوگی لیکن جو بھی ہو یہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ موت کے سایوں میں بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان سیاست سے باز نہیں آرہے وہ ان حالات میں بھی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ کرونا ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بھی اسی مستقبل کی منصوبہ بندی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر وہ کرونا سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہوتے تو ٹائیگر فورس کی بجائے اساتذہ کرام۔ ھیلتھ ورکرز۔ بلدیاتی اداروں یا پھر ریڈ کراس کے تربیت یافتہ رضا کاروں کو استعمال کرتے لیکن ان کا مقصد ریلیف سے “بڑا” ہے۔ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں بھی آئیندہ عام انتخابات کی منصوبہ بندی میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب دلہن اپوزیشن اس پر بھی بات کرتے ہوئے شرمارہی ہے۔ تبدیلی سرکار کی شروعات سے اب تک کی پالیسی پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ لڑائی اس کا سب سے کارگر ہتھیار ہے یہ حکومت صرف اسی “کارکردگی ” کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے قوم اس وقت انتہائی برے دور سے گزر رہی ہے اور خواہشمند ہے کہ ڈری سہمی دلہن اپوزیشن کی جانب دیکھنے کی بجائے اس قوم کی حالت پر رحم کھائے اور اسے یقین دلائے کہ “اب مائی رحمتے نہیں لڑتی”۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر