وجود

... loading ...

وجود

لاک ڈاؤن کب تک جاری رہے گا۔۔۔؟

جمعرات 02 اپریل 2020 لاک ڈاؤن کب تک جاری رہے گا۔۔۔؟

کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال سندھ میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کرنے کا اوّلین فائدہ تو یہ ضرور ہوا ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑی حد تک روک دیا گیا ہے ۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کراچی ،حیدرآباد ،دادو ،لاڑکانہ،جیکب آباد اور سکھر کے علاوہ صوبہ کے باقی 20 اضلاع ابھی تک کورونا وائرس سے مکمل طور پر محفوظ و مامون ہیں اور تاحال اِن 20 اضلاع میں سے کسی بھی ضلع میںرہنے والے شخص کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا ہے ۔ جبکہ کورونا وائرس کے مقامی منتقلی کے مریض بھی اَب تک صرف اور صرف کراچی اور حیدرآباد میں ہی سامنے آئے ہیں ۔ اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی طرف سے صوبہ بھر کو بروقت لاک ڈاؤن کرنے کا اقدام ملکی حالات کی حالیہ نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل صحیح فیصلہ ثابت ہوا ،جس کے نتیجے میں کم و بیش 80 فیصد صوبے میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔اس غیر معمولی صورت حال کا مشکل اور بحرانی کیفیت میں سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہورہاہے کہ چونکہ کورونا وائر س سندھ کے فقط تین یا چار شہروں تک ہی محدود ہے۔ لہٰذا ریاستی اداروں کو کورونا وائرس کے خلاف پورے ارتکاز اور مجتمع قوت سے لڑنے میں آسانی ہورہی ہے ۔ اگر خداانخواستہ کورونا وائرس کے متاثرہ مریض پورے صوبے میں شہر شہر پھیلے ہوتے تو حکومتی اداروں کو کورونا وائرس کے انسداد اور متاثرین کو طبی امداد بہم پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتاتھا۔

اگر سندھ میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے عملی نفاذ کی بات کی جائے تو اُس میں بھی سندھ حکومت کی کارکردگی وفاق اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں کافی حد تک اطمینان بخش اور متاثر کُن رہی ہے ۔سندھ کے لاک ڈاؤن کو پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہونے والے ہومیوپیتھک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں بلاشبہ ایک مکمل لاک ڈاؤن قرار دیا جاسکتا ہے ۔ جس میں حقیقی معنوں میں حکومتی حلقوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ہر سطح پر محنت اور کوشش کی گئی ۔خاص طو پر سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کے فقط سرکاری حکمنامہ پر ہی انحصا ر کرنے کے بجائے صوبے میں اثرورسوخ رکھنے والی تمام سیاسی ،سماجی ،تجارتی تنظیموں کو بھی اِس بات پر اپنا ہم خیال بنانا ضروری سمجھا کہ صوبے میں ہونے والا ایک کامیاب اور مکمل لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کتنا ضروری ہے ؟۔ وسیع سطح پر ہونے والی مشاورت کا یہ فائدہ ہوا کہ صوبہ سندھ میں 90 فیصد علاقے میں اَب تک انتہائی کامیابی سے ساتھ لاک ڈاؤن جاری ہے اور کسی بھی جگہ یا مقام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہریوں کی جانب سے مزاحمت یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ حالانکہ سندھ میں جاری لاک ڈاؤن میں ’’قانونی سختی ‘‘کا یہ عالم ہے کہ صوبہ بھر میں شام 5 بجے کے بعد تو کرفیو کا گمان ہونے لگتا ہے ،لیکن اِس کے باوجود شہریوں کی اکثریت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھرپور اندا ز میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہاں ! سندھ حکومت سے لاک ڈاؤن کے نفاذ میں ایک بڑی غلطی ضرور سر زد ہوئی اور وہ یہ کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے عرصہ میں ہونے والے نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو مختصر یا محدود کرنے کے لیے جاری کیے جانے والے اپنے حکمنامہ پر صوبہ کے علماء ،مشائخ اور مذہبی طبقہ کے نمائندہ رہنماؤں کو اعتماد میں لینے یا اُن سے مشاورت کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ۔شاید سندھ حکومت نے اپنے دانست میں خیال کیا ہوگا کہ اُن کے جاری کردہ حکمنامہ پر ہی لوگ نمازِ جمعہ کوترک کردیں گے ۔ حالانکہ نماز ہمیشہ سے ہی ایک ایسا دینی فریضہ رہا ہے،جس کے متعلق مسلمانوں کی اکثریت نے سوائے علمائے کرام کے کبھی کسی اور کی بات نہ تو سُنی ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی سنے گی۔چونکہ سندھ حکومت نے نماز جمعہ پر علمائے کرام کو اعتماد میں نہیں لیا تھا لہٰذا صوبہ کے اکثر شہروں میں نماز جمعہ کے اجتماعات کے لیے لوگ جوق در جوق مسجدوں میں پہنچ گئے اور جب انہیں پولیس کی طرف سے بزورِ طاقت روکنے کی کوشش کی گئی تو کئی جگہوں پر اَمن و اَمان کی صورت حال کشیدگی کی آخری حدو ں کو چھونے لگی ۔ جبکہ بے شمار مسجد کے اماموں کے خلاف مقدمات درج کرکے اُنہیں حوالہ زنداں کردیا گیا ،جس کے باعث مذہبی طبقات میں سندھ حکومت کے خلاف نفرت کا الاؤ دہکنے لگا۔ قریب تھا کہ یہ صورت حال بد سے مزید بدتر ہوجاتی کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حالات کی نزاکت اور حسیاست کا بروقت ادراک کرتے ہوئے سندھ بھر کے نمایاں مذہبی رہنماؤں سے ازسرِ نو حکومتی روابط قائم کرکے اُنہیں قائل کرلیا کہ لاک ڈاؤن کے ثمرات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو محدود کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ علمائے کرام نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہ آئندہ سے حکومتی احکامات کے تحت ہی نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو محدود رکھنے کے لیے دستِ تعاون دراز کردیا۔ اِس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے مساجد کے پیش اماموں و دیگر افراد کے خلاف قائم کیے مقدمات ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اُنہیں فی الفور رہا کرنے کا اعلان بھی کیا ۔ اگر یہ ہی سب اقدامات سندھ حکومت ابتداء میں ہی اُٹھالیتی تو کتنا اچھا ہوتا ،بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق آخر میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام تر صورت حال انتہائی خوش اسلوبی سے سنبھال لیا ۔
دوسری جانب عام لوگ اَب یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ سندھ میں جاری لاک ڈاؤن آخر کب تک اختتام پذیر ہوگا؟۔ گو کہ وزیراعلیٰ سندھ لاک ڈاؤن میں ایک ہفتے کی مزید توسیع کرچکے ہیں لیکن کیا یہ لاک ڈاؤن میں کی جانے والی آخری توسیع ہوگی؟ اور اگلے ہفتہ سے معمولات ِ زندگی رفتہ رفتہ بحال ہونا شروع ہو جائیں گے ؟۔ یہ وہ سوالات ہیںجن کے جوابات بھی سندھ حکومت کو جلد ازجلد عوام کو فراہم کر دینا چاہیے کیونکہ بہرحال لاک ڈاؤن کو غیرمعینہ مدت تک تو کسی بھی صورت میں جاری نہیں رکھا جاسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر