... loading ...
ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران میڈیا پرسنز بھی لازمی ڈیوٹیز انجام دے رہے ہیں۔اورزرائع آمدو رفت کی بندش کے باوجود کسی نہ کسی طرح دفاتر پہنچ جاتے ہیں ، جہاں نئے نئے نامے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ آج میری چھٹی تھی لیکن کورونا سے آپ کو پتا ہے کہ دفتر کی طرح گھر پر بھی جان نہیں چھوٹ رہی ہے، کورونا کے علاوہ اور کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔لاک ڈاؤن کے دوران کیونکہ دکانیں 5 بجے بند ہوجاتی ہیں، اس لیے میں اپنے کچھ کام نمٹانے کے لیے گھر سے نکلا تو کیا دیکھا کہ راستے میں دو افراد ایک دوسرے کو بری طرح مار رہے ہیں، میں نے کہا اللہ خیر کرے انسانوں کو مارنے کے لیے کورونا ہی کم تھا کیا، جو یہ ایک دوسرے پر یوں پل پڑے ہیں۔ قریب سے گزرا تو پتہ چلا یہ وہ دونوں مانگنے والے تھے۔یعنی صاف ستھرے کپڑوں والے بھکاری۔قریب ہی لوگوں سے تفصیلات پتا کیں تو معلوم ہوا کہ ابھی5 منٹ پہلے کار میں ایک مخیر حضرت سامان بانٹتے ہوئے گزرے تھے، ان حضرت کے پاس بانٹتے بانٹتے سامان ختم ہوگیا، آخری تھیلا بچا تو یہ دونوں اس پر جھپٹ پڑے۔ ، وہ صاحب تو گاڑی لیکر کر چلے گئے لیکن یہ دونوں لڑ رہے ہیں۔میں نے دیکھا کہ تھیلا قریب ہی زمین پر پڑا رو رہا تھا۔
کراچی میں مخیر حضرات اور اداروں کی جانب سے سامان کی تقسیم پر زیادہ تر یہ پیشہ ور بھکاری ہی ٹوٹے نظر آرہے ہیں۔شہر کی ہر گلی اور سڑک پر بھکاریوں کی فوج حملہ آور ہوچکی ہے،دو منٹ کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہی آپ کا سامنا درجنوں بھکاریوں سے ہوجاتا ہے۔پیشہ ور بھکاری اپنے انداز کی بنا پر صاف پہنچان لیے جاتے ہیں، پاس آخر ڈھٹائی سے اپنا مسئلہ بیان کرنا، باآواز بلند بھیک مانگنا، آپ کو چْھو کر متوجہ کرنا ، دکانوں ، سگنلوں یا اپارٹمنٹس کی اینٹرینس پر بیٹھ کر آپ کا گزرنا محال کردینا، یہ ان پیشہ ور بھکاریوں کی واضح پہچان ہیں۔
کوئی بھی پودا اس وقت پھلتا پھولتا ہے جب اس کی آبیاری کی جائے۔ ہمارے معاشرے کے لوگ ہی ایسے ہیں جو ان پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ان کو رقم دے کر سمجھتے ہیں کہ بیڑا پار ہوا۔یہ بات عرصے سے لوگوں کو سمجھائی جارہی ہے کہ اپنی ، زکوہ ، صدقات اور ہدیات کے لیے صرف اپنی پہچان کے مستحق لوگوں کو ترجیح دیں۔اور جن لوگوں کو آپ نہیں جانتے ان سے کلیئر معذرت کرلیں۔سب لوگ اگراپنی پہچان کے لوگوں کوعطیات دینا شروع کریں گے تو گلی اور محلے میں سب کا اپنا ایک سرکل وجود میں آجائے گا۔اور یوں ہر علاقے میں تمام مستحقین فیضیاب ہونے لگیں اور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔سرکل کی مزید وضاحت کردوں کہ آپ کے سرکل میں آپ کی ماسیاں ، چوکیدار ، پیون ، مزدور ، پھیری والے ، سیکورٹی گارڈز اور سوئیپرز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب لوگ اس لیے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے کام کرنے کو ترجیح دی ہے اپنے لیے ایک پیشہ چْنا ہے۔اس لیے یہ لوگ باعث احترام بھی ہیں۔
خیر اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر واپس آیا تو ٹی وی پر خبر دیکھی کہ امریکا نے ایران پر پابندیوں میں مزید دو ماہ کی توسیع کردی ہے، میں سوچنے لگا کہ یاخدا ، یہ کیسے لوگ ہیں۔اپنے ملک پر آفت آئی ہوئی ہے۔ملک بند پڑا ہے، نیویارک ، کیلی فورنیا کے اسپتال بھرے پڑے ہیں،بچے بڑے سب مر رہے ہیں۔مریضوں کی تعداد 14 روز میں دو لاکھ ہوچکی ہے۔لیکن انہیں اپنے غرور اور ظلم سے یہ آفت بھی نہیں روک پارہی۔شاید انہیں اللہ کی طرف سے ہدایت ہی نہیں رہی۔اور جنہیں ہدایت نہ رہے ، ان کی بہتری کا معاملہ انسان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک دوسری مثال تین روز قبل دیکھی گئی جب حوثیوں نے یمن سے سعودی عرپ پر دو بیلسٹک میزائل داغ دیئے۔انتہائی حیرت کی بات ہے، خطہ عرب خود بھی ان دنوں کورونا سے لڑ رہا ہے، یمن میں اس وقت کوئی تازہ جھڑپیں بھی نہیں ہورہی تھیں، پھر یہ حملہ ایک سنگین شرارت لگتا ہے۔حوثیوں کو پتا ہونا چاہیئے کہ ایسی صورتحال میں کہ جب ایران خود کورونا سے شدید متاثر ہے اور کورونا سے ایک طویل جنگ کی تیاری کررہا ہے، ایرانی میزائلوں کا یوں بے دریغ استعمال موقع محل کے لحاظ سے عجیب و غریب اور شرمناک ہے۔
ڈاکٹر عطا الرحمان کے ایک بیان نے بھی سوشل میڈیا پر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے، سوشل میڈیا پر موجود ’’سائنسدان‘‘ ، ’’تجزیہ نگار‘‘ اور ’’محققین‘‘ اس بیان کی توجیحات اپنے اپنے انداز سے پیش کررہے ہیں۔
بیان کا لب لباب یہ تھا کہ کورونا وائرس کی قسم جو پاکستان میں پنپ رہی ہے وہ کچھ سست ہے۔یعنی کم ہلاکت خیز کہی جاسکتی ہے۔ اس بیان نے لوگوں کی ٹینشن میں خاصی کمی کردی۔ کئی لوگوں نے کہا کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا، دیکھو میں تو ایک مہینے سے کوئی ذیادہ خاص احتیاط بھی نہیں کررہا، لیکن پھر بھی فٹ فاٹ ہوں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کو کسی صورت ہلکا نہیں لینا چاہیئے۔یہ ہمیں ہماری کسی بھی کمزوری کی بنا پر اپنا شکار بنا سکتا ہے، پاکستان میں کورونا سے مرنے والے بیشتر افراد سانس ، گردوں، کینسر یا کسی دوسرے موذی مرض میں پہلے سے مبتلا تھے اس لیے وہ کورونا کا آسان شکار بن گئے۔چنانچہ نہ صرف اپنے آپ کو صحت مند رکھنا ہے بلکہ کورونا سے بچاؤ کی تمام احتیاط بھی جاری رکھنی ہیں۔اور شکرادا کرنا ہے کہ پاکستان کے حالات ابھی امریکا اور یورپ کے بدترین لیول پر نہیں آئے ہیں۔کورونا کی وبا کے دوران بار بار صابن سے ہاتھ دھونا تونہایت ضروری ہیں۔تاہم صابن کوئی سا بھی ہو سکتا ہے۔کوئی صابن سلو نہیں ہوتا، یہ ڈرامہ بازیاں صرف برانڈز کی مشہوری کے لیے ہیں۔یہ صرف سلوگنز ہیں کہ فلاں صابن تیز ہے فلان سلو اور فلاں صابن جراثیم کش ہے فلاں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اگر ہاتھ دل سے رگڑ کر 20 سیکنڈ دھو لیں تو پھر تمام صابن تیز ہیں۔خیر بات سے بات نکلتی چلی جائے گی۔یہاں ختم کرتے ہوئے اللہ سے دعا ہے عالم انسانیت پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمادے۔ا?مین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔