وجود

... loading ...

وجود

صابن ، بھکاری اور کورونا

جمعرات 02 اپریل 2020 صابن ، بھکاری اور کورونا

ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران میڈیا پرسنز بھی لازمی ڈیوٹیز انجام دے رہے ہیں۔اورزرائع آمدو رفت کی بندش کے باوجود کسی نہ کسی طرح دفاتر پہنچ جاتے ہیں ، جہاں نئے نئے نامے ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ آج میری چھٹی تھی لیکن کورونا سے آپ کو پتا ہے کہ دفتر کی طرح گھر پر بھی جان نہیں چھوٹ رہی ہے، کورونا کے علاوہ اور کوئی بات ہی نہیں ہوتی۔لاک ڈاؤن کے دوران کیونکہ دکانیں 5 بجے بند ہوجاتی ہیں، اس لیے میں اپنے کچھ کام نمٹانے کے لیے گھر سے نکلا تو کیا دیکھا کہ راستے میں دو افراد ایک دوسرے کو بری طرح مار رہے ہیں، میں نے کہا اللہ خیر کرے انسانوں کو مارنے کے لیے کورونا ہی کم تھا کیا، جو یہ ایک دوسرے پر یوں پل پڑے ہیں۔ قریب سے گزرا تو پتہ چلا یہ وہ دونوں مانگنے والے تھے۔یعنی صاف ستھرے کپڑوں والے بھکاری۔قریب ہی لوگوں سے تفصیلات پتا کیں تو معلوم ہوا کہ ابھی5 منٹ پہلے کار میں ایک مخیر حضرت سامان بانٹتے ہوئے گزرے تھے، ان حضرت کے پاس بانٹتے بانٹتے سامان ختم ہوگیا، آخری تھیلا بچا تو یہ دونوں اس پر جھپٹ پڑے۔ ، وہ صاحب تو گاڑی لیکر کر چلے گئے لیکن یہ دونوں لڑ رہے ہیں۔میں نے دیکھا کہ تھیلا قریب ہی زمین پر پڑا رو رہا تھا۔
کراچی میں مخیر حضرات اور اداروں کی جانب سے سامان کی تقسیم پر زیادہ تر یہ پیشہ ور بھکاری ہی ٹوٹے نظر آرہے ہیں۔شہر کی ہر گلی اور سڑک پر بھکاریوں کی فوج حملہ آور ہوچکی ہے،دو منٹ کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہی آپ کا سامنا درجنوں بھکاریوں سے ہوجاتا ہے۔پیشہ ور بھکاری اپنے انداز کی بنا پر صاف پہنچان لیے جاتے ہیں، پاس آخر ڈھٹائی سے اپنا مسئلہ بیان کرنا، باآواز بلند بھیک مانگنا، آپ کو چْھو کر متوجہ کرنا ، دکانوں ، سگنلوں یا اپارٹمنٹس کی اینٹرینس پر بیٹھ کر آپ کا گزرنا محال کردینا، یہ ان پیشہ ور بھکاریوں کی واضح پہچان ہیں۔
کوئی بھی پودا اس وقت پھلتا پھولتا ہے جب اس کی آبیاری کی جائے۔ ہمارے معاشرے کے لوگ ہی ایسے ہیں جو ان پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ان کو رقم دے کر سمجھتے ہیں کہ بیڑا پار ہوا۔یہ بات عرصے سے لوگوں کو سمجھائی جارہی ہے کہ اپنی ، زکوہ ، صدقات اور ہدیات کے لیے صرف اپنی پہچان کے مستحق لوگوں کو ترجیح دیں۔اور جن لوگوں کو آپ نہیں جانتے ان سے کلیئر معذرت کرلیں۔سب لوگ اگراپنی پہچان کے لوگوں کوعطیات دینا شروع کریں گے تو گلی اور محلے میں سب کا اپنا ایک سرکل وجود میں آجائے گا۔اور یوں ہر علاقے میں تمام مستحقین فیضیاب ہونے لگیں اور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔سرکل کی مزید وضاحت کردوں کہ آپ کے سرکل میں آپ کی ماسیاں ، چوکیدار ، پیون ، مزدور ، پھیری والے ، سیکورٹی گارڈز اور سوئیپرز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب لوگ اس لیے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے کام کرنے کو ترجیح دی ہے اپنے لیے ایک پیشہ چْنا ہے۔اس لیے یہ لوگ باعث احترام بھی ہیں۔
خیر اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر واپس آیا تو ٹی وی پر خبر دیکھی کہ امریکا نے ایران پر پابندیوں میں مزید دو ماہ کی توسیع کردی ہے، میں سوچنے لگا کہ یاخدا ، یہ کیسے لوگ ہیں۔اپنے ملک پر آفت آئی ہوئی ہے۔ملک بند پڑا ہے، نیویارک ، کیلی فورنیا کے اسپتال بھرے پڑے ہیں،بچے بڑے سب مر رہے ہیں۔مریضوں کی تعداد 14 روز میں دو لاکھ ہوچکی ہے۔لیکن انہیں اپنے غرور اور ظلم سے یہ آفت بھی نہیں روک پارہی۔شاید انہیں اللہ کی طرف سے ہدایت ہی نہیں رہی۔اور جنہیں ہدایت نہ رہے ، ان کی بہتری کا معاملہ انسان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک دوسری مثال تین روز قبل دیکھی گئی جب حوثیوں نے یمن سے سعودی عرپ پر دو بیلسٹک میزائل داغ دیئے۔انتہائی حیرت کی بات ہے، خطہ عرب خود بھی ان دنوں کورونا سے لڑ رہا ہے، یمن میں اس وقت کوئی تازہ جھڑپیں بھی نہیں ہورہی تھیں، پھر یہ حملہ ایک سنگین شرارت لگتا ہے۔حوثیوں کو پتا ہونا چاہیئے کہ ایسی صورتحال میں کہ جب ایران خود کورونا سے شدید متاثر ہے اور کورونا سے ایک طویل جنگ کی تیاری کررہا ہے، ایرانی میزائلوں کا یوں بے دریغ استعمال موقع محل کے لحاظ سے عجیب و غریب اور شرمناک ہے۔
ڈاکٹر عطا الرحمان کے ایک بیان نے بھی سوشل میڈیا پر خوشی کی لہر دوڑا دی ہے، سوشل میڈیا پر موجود ’’سائنسدان‘‘ ، ’’تجزیہ نگار‘‘ اور ’’محققین‘‘ اس بیان کی توجیحات اپنے اپنے انداز سے پیش کررہے ہیں۔
بیان کا لب لباب یہ تھا کہ کورونا وائرس کی قسم جو پاکستان میں پنپ رہی ہے وہ کچھ سست ہے۔یعنی کم ہلاکت خیز کہی جاسکتی ہے۔ اس بیان نے لوگوں کی ٹینشن میں خاصی کمی کردی۔ کئی لوگوں نے کہا کہ دیکھا ہم نہیں کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہوگا، دیکھو میں تو ایک مہینے سے کوئی ذیادہ خاص احتیاط بھی نہیں کررہا، لیکن پھر بھی فٹ فاٹ ہوں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کو کسی صورت ہلکا نہیں لینا چاہیئے۔یہ ہمیں ہماری کسی بھی کمزوری کی بنا پر اپنا شکار بنا سکتا ہے، پاکستان میں کورونا سے مرنے والے بیشتر افراد سانس ، گردوں، کینسر یا کسی دوسرے موذی مرض میں پہلے سے مبتلا تھے اس لیے وہ کورونا کا آسان شکار بن گئے۔چنانچہ نہ صرف اپنے آپ کو صحت مند رکھنا ہے بلکہ کورونا سے بچاؤ کی تمام احتیاط بھی جاری رکھنی ہیں۔اور شکرادا کرنا ہے کہ پاکستان کے حالات ابھی امریکا اور یورپ کے بدترین لیول پر نہیں آئے ہیں۔کورونا کی وبا کے دوران بار بار صابن سے ہاتھ دھونا تونہایت ضروری ہیں۔تاہم صابن کوئی سا بھی ہو سکتا ہے۔کوئی صابن سلو نہیں ہوتا، یہ ڈرامہ بازیاں صرف برانڈز کی مشہوری کے لیے ہیں۔یہ صرف سلوگنز ہیں کہ فلاں صابن تیز ہے فلان سلو اور فلاں صابن جراثیم کش ہے فلاں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اگر ہاتھ دل سے رگڑ کر 20 سیکنڈ دھو لیں تو پھر تمام صابن تیز ہیں۔خیر بات سے بات نکلتی چلی جائے گی۔یہاں ختم کرتے ہوئے اللہ سے دعا ہے عالم انسانیت پر اپنا خصوصی رحم و کرم فرمادے۔ا?مین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر