... loading ...
گاہے خیال آتا ہے، شاعر نے کس حال میں کہا ہوگا!
خود فریبی رہے تو اچھا ہے
خود شناسی تباہ کر دے گی
ہم کورونا وائرس سے نمٹ نہیں رہے، کورونا ہمیں نمٹا رہا ہے۔ خوف زدہ لوگوں کا خوف اُن کے داخل میں ہے، خارج ایک بہانا ہوتا ہے۔خوف کس چیز کا خوف!!!مسلمانوں کا طرہ ٔ امتیاز اللہ کا خوف ہے، اور یہ خوف معمولی نہیں، سرچشمۂ علم ہے۔اللہ کے نبیﷺ نے گرہ کھول دی:
راس الحکمۃ مخافتہ اللہ
(اللہ تعالیٰ کا خوف حکمت کا سرچشمہ ہے)۔
کون بل گیٹس اور کون بلومبرگ؟ کیا ہم ان کے خوف سے باہر آئیںگے؟دنیا انسان کے بنائے ہوئے کسی وائرس کی شکار بھی ہوتو یہ کس کی دنیا ہے؟ بل گیٹس اور مائیکل بلومبرگ کے فریب کی شکار دنیا میں کیا ان کا سکہ چلنے لگے گا؟ یہ بل گیٹس اور مائیکل بلو مبرگ کا بھی تو بس بھرم ہی ہے۔ اللہ نے اپنی دنیا شیطان کے حوالے نہیں کی۔ سازشوں کا شعور بہت ضروری ہے مگر سازشوں کا شکار کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ افسوس ہم خوف زدہ ہو کراس کے شکار ہورہے ہیں۔ کورونا وائرس جس نسل کا تیسرا لحمیاتی سالمہ ہے وہ اپنے پیش رو سارس (SARS) اور میرس (MERS) سے مختلف نتائج کے لیے دنیا کو زد پر لے رہا ہے۔ اس کا اولین ہدف خوف پیدا کرنا ہے۔ دنیا نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی اسی خوف میں کیا ۔ لاک ڈاؤن ضروری ہو سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟ ہمیں چند ہفتوں کے بعد بھی لوگوں میں شعور پیدا کرنے اور اُن کی تربیت کی ضرورت پڑے گی۔ یہی اس کا مناسب حل ہے۔
غور کیجیے! خوف کیسے حکومت کرتا ہے؟ 2002ء میں سارس وائرس سے شرح اموات دس فیصد سے زیادہ تھی، چین نے نہ لاک ڈاؤن کیا اور نہ ہی کوئی سینی ٹائزر اور ماسک مہم چلائی۔یہاںتک کہ کسی ویکسین کا بھی ذکر سنائی نہیںدیا۔ وائرس اپنی موت آپ مرگیا۔ 2012ء میں میرس سے ہلاک ہونے والوں کی شرح 34فیصد تھی۔ اس وائرس کی ہلاکت خیزی نے بھی خوف کی یہ مقدار جنم نہیں دی۔ اس میں بھی کوئی غیر معمولی مہم نہیں چلائی گئی۔ انسان کے مدافعتی نظام نے ان وائرسوں کے خلاف اپنا بہترین دفاع کیا اور کامیاب رہا۔ اب کورونا وائرس کا حال دیکھیں۔ اس کی ہلاکت خیزی پچھلے دووائرسوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ کورونا وائرس سے شرح اموات تین فیصد سے کم اور2-7 اور 2-9 فیصد کے درمیان کہیں ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ شرح بھی مختلف ملکوں میں الگ الگ ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں میں اکثریت عمر رسیدہ افراد کی ہے۔ پھر کورونا سے جان کی بازی ہارنے والوں میں اس سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز امراض کی پہلے سے موجودگی کا پتہ چل رہا ہے۔ جس سے یہ اندازا لگانا بھی دشوار نہیں کہ کون سا مرض مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کی مثال لے لیجیے!چین میں 44 ہزار مریضوں پر محیط سب سے بڑے سروے میں بوڑھوں میں شرح اموات سب سے زیادہ تھی ،یہاں تک کہ درمیانی عمر کے لوگوں سے بھی دس فیصد زیادہ نکلی۔چین میں تیس سال سے کم عمر کے پینتالیس سو مریضوں میں سے صرف آٹھ افراد کی موت واقع ہوئی، جن میں پہلے سے کچھ دیگر امراض بھی موجود تھے۔ امراض قلب، بلند فشارِ خون ، ذیابیطس اور سرطان کے مریضوں میں کورونا کے شکار ہونے کی شرح زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک تحقیق طلب امر ہے کہ ایسے مریضوں میں کورونا کے شکار ہونے کے بعد اُن کی وجہ موت اُن کی پہلی اورپرانی بیماری ہوتی ہے یا پھر اُن کی وجہ موت کورونا قرار دی بھی جاسکتی ہے یا نہیں؟
ہم اپنے ہاں کی مثال بھی دھیان میں رکھیں! گزشتہ روز محکمۂ صحت نے سندھ میں دو مریضوںکے کورونا وائرس سے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔ کراچی میں رہائش پزیر دونوں مرد حضرات کی عمریں 83 سال اور 70 سال تھیں اور وہ نمونیا میں بھی مبتلا تھے ۔اس سے قبل کورونا سے انتقال کرنے والا پہلا مریض بھی کراچی کا رہائشی 77 سالہ شخص تھا جو کینسر، ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے امراض میں بھی مبتلا تھا۔ابھی ملک بھر میں کورونا سے جان کی بازی ہارنے والوں کی عمروں، پہلے سے موجود بیماریوںاور حقیقی وجہ اموات کادرست تجزیہ ہونا ہے۔ اس ضمن میں ہمارا حال تو یہ ہے کہ عباسی شہید اسپتال میں زہر خورانی سے ہلاک شخص کے ورثاء کو کورونا وائرس سے ہلاکت کی سند تھمادی گئی۔ورثاء کے احتجاج کے بعد اُنہیں درست وجۂ موت کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس تناظر میں جائز اور واجب سوال یہ اُبھرتا ہے کہ کورونا وائرس کا اتنا خوف کیوں پھیلایا جارہا ہے؟پھر اس وائرس کے حوالے سے جاری مہمات کا اس سے قبل کسی دوسرے وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی میں سراغ کیوں نہیںملتا؟
درحقیقت یہ خوف کا کاروبار ہے۔ کچھ سفاک ذہن خوف سے اپنی مرضی کی ایک دنیا تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ یہ خوف کس طرح نتائج دیتا ہے، اس کی مثالیں بھی سامنے ہیں ۔ اٹلی میں ایک 34سالہ نرس نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے پر خود کشی کرلی۔ حالانکہ وہ اپنے ہی اسپتال میں کسی بھی دوسرے مریض سے زیادہ جانتی تھی کہ یہ زیادہ خطرناک نہیں۔ مگر خوف نے اُسے خود کشی پر مجبور کردیا۔ کینیا میں کورونا کے خوف سے 59؍ افراد نے حفظِ ماتقدم کے طور پر ڈیٹول پی لیا اور بغیر کورونا وائرس کے شکار ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ دنیا کے کچھ ممالک میں کورونا کے مریضوں نے اِسے کوئی عفریت سمجھ لیا اور خوف میں عمارتوں سے چھلانگیں لگا کر اپنی جانیں دے دیں۔ کراچی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ محمودآباد میں واقع کشمیر کالونی کے رہائشی سرفراز کو کسی نے کہا کہ وہ کرونا وائرس کا مریض ہے ، سرفراز کے ذہن میں یہ وہم بیٹھ گیا تھا اور وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا، اسے کوئی بیماری نہیں تھی، وہ صحت مند تھا۔ سرفراز پیٹرول پمپ پر گاڑیاں دھوتا تھا،اور روزانہ پانچ سو روپے کماتا تھا۔ کراچی میں ہونے والے لاک ڈائون کے بعد وہ بے روزگار ہوگیا ، اسے گھر کا کرایہ دینے کی بھی فکر تھی۔لاک ڈاؤن کے بعد کرایے کی فکر، گھریلو پریشانیاں اور بے روزگاری کے دھڑکے میں اُسے کورونا کے خوف نے آلیا، یہاں تک کہ اُس نے خود کشی کرلی۔ ابھی یہ طے ہونا ہے کہ یہ خود کشی ہمارے قومی شعور کے خلاف کوئی مقدمہ تو نہیں۔ درحقیقت خوف کا دھندا سب سے پُرانا، سب سے آزمودہ اور سب سے زیادہ سود افزا ہے۔
کورونا وائرس کا ہتھیار خوف کے تسلط کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جسے شعور کی ڈھال سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس ہم اس کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے تمام اقدامات خوف کی افزائش میں حصہ لے رہے ہیں اس طرح ہم بالواسطہ اس ہتھیار کو خود ہمارے خلاف استعمال ہونے کے لیے زیادہ موثر بنا رہے ہیں۔ یہ اللہ کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ جس میں بل گیٹس اور مائیکل بلومبرگ ایسے لوگ اپنے تمام وسائل کے ساتھ مچھر کے پروں جتنی بھی حیثیت نہیںرکھتے ۔ دنیا میںکوئی خوف ایسا نہیں جسے وہ باعث ِامن بنانے پر قادر نہ ہو، اُس نے اپنی عبادت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے سورہ ٔ قریش میں بشارت دی کہ وہی ہے جو ’’بھوک میںکھانااور خوف میں امن دیتا ہے‘‘۔اپنے خوف پر قابو پانے کا سب سے بہترین راستا خدا خوفی ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ رازوں کا راز پا گئے تھے، تب ہی تو دانائے راز سے ملقب ہوئے
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگر چہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزا ر سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ؒٓؒٓ