وجود

... loading ...

وجود

افغان وحدت و استقلال کے امین(قسط4)

جمعرات 02 اپریل 2020 افغان وحدت و استقلال کے امین(قسط4)

15 فروری 1989ء روسی فوجیں جنیوا معاہدے کے تحت انتقال اقتدر کے بغیر افغانستان سے نکل گئیں۔ پاکستان کے پشاور اور راولپنڈی جیسے معاہدوں کے ذریعے پہلے دو ماہ صبغت اللہ مجددی، بعد ازاں چار ماہ کے لیے پروفیسر برہان الدین ربانی کو عبوری صدر بنایا گیا۔ چار ماہ کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی ربانی اقتدار سے الگ نہ ہوئے۔ پاکستان کو کابل اور شمال کے اندر تخریبی سیاست اور پکنے والی کھچڑی سے آگاہی نہ تھی۔ ان عبوری حکومتوں سے قبل ہی کابل ہتھیایا جا چکا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ وطن پارٹی اور ملک کی صدارت سے زبردستی الگ کر د یے گئے۔ یہ سب کارمل گروپ جسے ببرک کارمل کے بھائی محمود بریالئی، جنرل نبی عظیمی، جنرل بابا جان، رشید دوستم،جنرل مومن اور دوسرے جنرلوں و کمانڈروں نے کیا۔ پرچمی گروہ شمال کی ملیشیائوں بالخصوص رشید دوستم کی گلم جیم ملیشیاء نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو کابل سے نکلنے نہ دیا۔ ان ملیشیائوں کو ڈاکٹر نجیب ہی نے کابل میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔ میخائل گور باچوف کے بعد کی روسی حکومت نے افغانستان میں مداخلت جاری رکھی۔ پرچمی اور شمال کی سیاسی و عسکری گرہوں کو بدستور اسلحہ کی کیپ جاری رہی۔ ان دو عبوری حکومتوں میں نئی دہلی کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعد ایران کی جانب سے ان حلقوں کی اسلحہ و مالی مدد کی جاتی۔ شمال پر مشتمل الگ وحدت کی پزیرائی تہران کی جانب سے بھی ہوتی رہی۔ افغانستان میں صورتحال مزید پیچیدہ و کشیدہ ہوتی گئی۔ کمیونسٹ دوبارہ کابل کے اندر طاقتور بنائے گئے۔ ملک سے نکلنے کا موقع نہ پاکر ڈاکٹر نجیب اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ڈاکٹر نجیب اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بینن سیوان پلان قبول کر چکے تھے۔ جس کے تحت 1992ء کے اپریل کے آخر میں اختیار پندرہ افراد پر مشتمل کمیشن کو دیا جاتا۔ جس کے بعد 45دنوں بعد 150مجاہد کمانڈروں اور با اثر افغان رہنمائوں کے درمیان اقوام متحدہ کی نگرانی میں جنیوا یا انقرہ میں اجلاس ہوتا۔ جہاں انتقال اقتدار یا وقتی حکومت کا فیصلہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اٹھارہ مارچ کو تسلیم کیا تھا کہ وہ کمیشن بننے کے بعد صدارت سے الگ ہو جائیں گے۔

نجیب اللہ کی اس آمادگی کے بعد انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ گویا ہٹ گئی۔ لیکن اس سے قبل ہی پرچمیوں، رشید دوستم وغیر کی جانب سے ڈاکٹر نجیب اقتدار سے بیدخل کر دیے گئے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لیتے ہی بینن سوان کو فون پر صورتحال سے آگاہ کر دیا، اْن سے فوراً کابل پہنچنے کی درخواست کی۔ ’’بینن سیوان‘‘ اسلام آباد کے دورے پر تھے۔ جہاں سے وہ بلا تاخیر کابل پہنچ گئے۔ مگر کابل ائر پورٹ پر رشید دوستم اور پرچمی فورسز نے اْنہیں جہاز سے اْترنے نہ دیا۔ ان گروہوں نے امن منصوبے کو ناکام بنایا۔یہ بات درست نہیں کہ جہادی تنظیمیں اقتدار کے لیے لڑ پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی انخلا سے پہلے کابل پر قبضے کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر نجیب بھی اقتدار سے چمٹے رہے۔ صبغت اللہ مجددی نمائشی صدر تھے، جبکہ عبوری صدر پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کی تقسیم اور شمال کے علاقوں میں پشتون مخالف رحجان و تعصبات اْبھارنے کے کھیل کا حصہ تھے۔ چونکہ افغانستان میں مرکزیت نہ رہی۔ اس لحاظ سے ان تخریبی منصوبوں کی کامیابی یقینی اور آسان دکھائی دینے لگی۔ گلبدین حکمت یار بالخصوص اس گندے کھیل کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے۔ کمیونسٹ باقیات ربانی کی جمعیت اسلامی، احمد شاہ مسعود، رشید دوستم اور حزب وحدت وغیرہ نے یک جا ہو کر درحقیقت حزب اسلامی کے خلاف بند باندھ لیا۔ حزب اسلامی کوکابل میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ احمد شاہ مسعود کے عساکر تو جہاد کے شروع کے سال میں روسی فوج کے ساتھ ملک کر حزب اسلامی کے خلاف لڑتے۔ افغانستان کی تقسیم کی منصوبہ بندیوں کے بارے میں کئی افغان رہنما، تجزیہ کار، دانشور اور مورخین لکھ چکے ہیں، جو بہت بھیانک ہے۔ انتشار اور طوائف الملوکی کے ایام میں افغانستان کے علاقے مزار کے مقام پر مارچ 1992ء میں نوروز کے دن جب مزار شریف میں جھنڈا بلند کرنے کی خانقائی رسم ادا کی جا رہی تھی عین اس دوران ایک اہم اجلاس بھی منعقد تھا۔ جس میں پرچم پارٹی کے جنرل نبی عظیمی، پروفیسر برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی کے رہنما اور کمانڈر احمد شاہ مسعود، گلم جیم ملیشیاء کے سربراہ رشید دوستم، حزب وحدت اسلامی کے سربراہ عبدالعلی مزاری، ایران کے جاسوسی کے ادارے کا ایک افسر نجفی اور وسطی ایشیاء کے ملک کے ازبکستان کے ایک سیاسی رہنما ’’ازار خان بیگ‘‘ شریک تھے۔ یہ ازبک رہنما وسطی ایشیاء اور افغانستان کے ازبکوں کے اتحاد کے لیے سرگرم تھا۔ اس اکٹھ میں ڈاکٹر نجیب اللہ کو مزید معاملات سے الگ کر نے پر بات ہوئی۔ نیز سیاسی و انتظامی کمیٹیاں بھی بنائی گئیں۔

سیاسی کمیٹی میں احمد شاہ مسعود، ببر ک کارمل کا بھائی محمود بریالئی، اکرم پیگیر، علامہ عبدالعلی مزاری اور چند دیگر جبکہ انتظامی کمیٹی 32جنرلوں پر مشتمل تھی۔ جن میں افغان پرچم پارٹی یعنی سابق کمیونسٹ باقیات کے جنرل نبی عظیمی، جنرل آصف دلاور، جنرل رشید دوستم، جنرل مومن، جعفر نادری، جنرل قسیم فہیم اور دوسرے شال تھے۔ فیصلہ ہوا کہ سیاسی کمیٹی کے سربراہ احمد شاہ مسعود اور انتظامی کمیٹی کے سربراہ جنرل نبی عظیمی ہوں گے۔ طے ہوا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے ہٹائے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں نئی حکومت بنائی جائے گی۔ 22مارچ کو ایک اور اجلاس میں ڈاکٹر نجیب کی جگہ احمد شاہ مسعود صدر، عبدالعلی مزاری وزیر اعظم اور رشید دوستم کو وزیر دفاع بنانے کا فیصلہ ہوا۔ دراصل فارسی بولنے والوں کی یہ مجوزہ حکومت ملک کی تقسیم کی طرف پیش رفت کی سعی تھی۔بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو کچھ کابل کے اندر اور باہر ہو رہا تھا اس کے بعد جنیوا معاہدہ سے امید لگانا لاعلمی و نری حماقت تھی۔ گلبدین حکمتیار یہی سمجھاتے رہے جو پاکستان کے اہل دانش و ارباب اقتدار کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی جانب سے عبوری حکومتوں کی تشکیل کی مشق کی، ناسمجھی اور مداخلت تھی۔ ان حالات کی کوکھ سے افغانستان کے اندر متحدہ تاجکستان اور جمہوریہ ہزارستان اور افغانستان کا نام خراسان رکھنے کی آوازیں اْٹھیں۔ جیسے پچھلی سطور میں لکھا گیا ڈاکٹر نجیب کی حکومت میں ’’مزار‘‘ کے داخلی راستے اور ’’سالنگ ٹنل‘‘ پر ’’بہ خراسان مستقل خوش آمدید‘‘ کے بورڈ آویزاں کیے گئے۔ بعد کے دنوں میں ہزارستان جمہوریت کا نقشہ منظر عام پر آیا۔ 1997میں جب طالبان کی حکومت تھی تو اْستاد محمد محقق نے بی بی سی کو انٹرویو میں افغانستان کو سات صوبوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ کنفیڈریشن کی باتیں ہونے لگیں۔ طالبان دور میں روس اور ازبکستان نے افغانستان کے شمالی صوبے طالبان عملداری سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ بلکہ طالبان کے مقابلے میں برہان الدین ربانی کی حکومت کو روس، ازبکستان، تاجکستان، ایران اور بھارت سے پیسہ اور اسلحہ دیا جاتا۔ 1996ء میں طالبان نے روسی طیارہ قندھار ہوائی اڈے پر اْترنے پر مجبو رکیا۔ یہ طیارہ اسلحہ سے لدا ہوا تھا، جو شمال کے عسکری گروہوں کو پہنچایا جانا تھا۔ 25اگست 1992کو لاس اینجلس ٹائم نے ایشیاء کے حوالے سے نقشہ شائع کیا۔ جسے امریکی یونیورسٹیوں کے جغرافیہ دانوں اور امریکی وازت خارجہ کے دو نمائندوں نے بنایا تھا۔ نقشے میں افغانستان کے شمال کے بعض علاقے وسطی ایشیاء کے تاجکستان اور ازبکستان کے ساتھ دکھائے گئے تھے۔ جبکہ پاکستان اور افغانستان کے پشتون حصوں کو ایک ملک دکھایا گیا۔ اس نقشے میں افغانستان کے لیے خراسان کا نام تجویز کیا گیا تھا۔(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر