وجود

... loading ...

وجود

افغان وحدت و استقلال کے امین(قسط3)

جمعرات 02 اپریل 2020 افغان وحدت و استقلال کے امین(قسط3)

نور محمد ترکئی سے اقتدار چھین لینے کے بعد حفیظ اللہ امین کے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی آئی۔ ان کے سامنے افغانستان کی خود مختاری کا سوال تھا۔ وہ بااختیار طور حکومت کرنے کے خواہاں تھے، خلق پارٹی کے برعکس ’’ملی جمہوری پارٹی افغانستان‘‘ کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی۔ انہی دنوں پاکستان سے وزیر خارجہ زین نورانی کی قیادت میں وفد کو کابل جانا تھا۔ جسے روکنے کے لیے ’’کے جی بی‘‘ نے پاکستان اور امریکی افواج کا افغانستان پر حملے کا ڈراما رچایا۔ یعنی حفیظ اللہ امین اور پاکستان کو قریب ہونے نہیں دیا گیا۔ بالآخر 28 دسمبر 1979ء کو (پاکستانی وفد کے جانے سے پہلے) روسی فوجیں براہ راست افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حفیظ اللہ امین کی رہاش گاہ تاج بیگ محل پر حملہ کیا۔ صدارتی محافظ دستوں کے چند گھنٹے مقابلے کے بعد حفیظ اللہ امین بیٹے، خاندان کے دوسرے افراد اور صدارتی محافظ دستے کی بڑی تعداد کے ساتھ قتل ہوئے۔ روسی طیارے اور ہیلی کاپٹر تاشقند کے ہوائی اڈے سے اْڑ کر صدارتی محل پر حملے میں شریک ہوئے۔ حملے کے وقت فضائی نگرانی کرتے رہے۔ روس کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ’’اولیانوفسکی‘‘ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’افغانستان فوج بھیج کر روس نے وہاں پشتون اکثریت کی ا?مریت ختم کرکے اقتدار اقلیت کے حوالے کردیا‘‘۔ کہا جاتا کہ روسی حاکمیت کے اندر ان اقوام کی محرومیاں ختم ہو جائیں گی۔ حفیظ اللہ امین کے قتل کے بعد ببرک کارمل جیسے مکار، بد خصلت، دروغ گو اور ضمیر و وطن فروش شخص صدر بنائے گئے۔ ببرک کارمل ماسکو کا اتنا وفادار تھا کہ اپنے بیٹے کا نام ’’واسخوف‘‘ رکھا۔ پرچم پارٹی کے ایک رہنما میر اکبر خیبر، جسے کے جی بی نے سردار دائود کے دور ہی میں قتل کردیا تھا نے ببرک کارمل بارے کہا تھا کہ یہ روس کا جاسوس ہے۔ چاہتا ہے کہ افغانستان کو ماسکو کی جھولی میں رکھ دے۔ میر اکبر خیبر نے سردار دائود کے خلاف فوجی بغاوت کی مخالفت بھی کی تھی۔ وہ پارلیمانی و سیاسی تحریک کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی سوچ کے حامل تھے۔

ببرک کارمل اور اس کی جماعت پرچم اسی طرح خلق پارٹی کے سربراہ نور محمد ترہ کئی کے ہم خیال کمیونسٹ افغانستان کو سوویت یونین کا سولہواں جمہوریہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ برملا کہتے کہ روس ایک بڑی طاقت اور ترقی یافتہ ملک ہے، الحاق سے افغانستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ گلبدین حکمت یار کے مطابق ڈاکٹر نجیب اللہ نے کابل یونیورسٹی میں اْن کے سامنے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ افغان واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ افغانستان کو ’’بخارا‘‘ طرز پر سوویت یونین کے تصرف میں د یے جانا تھا۔سرداردائود کے خلاف بغاوت کے بعد افغانستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں عوام نے احتجاج شروع کیا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سڑکوں پر نکل آئے۔ ساتھ افغان عوام نے مسلح مزاحمت بھی شروع کر دی۔ لرزہ بر اندام نور محمد ترہ کئی اور تب حفیظ اللہ امین نے اقتدار پر قبضہ کے اوائل ہی میں ماسکو سے فوجیں افغانستان میں داخل کرنے کی منتیں شروع کر دی تھیں۔ گْزاف وکذب گوئی کرتے کہ چار ہزار پاکستانی فوجی افغانی لباس میں اور چار ہزار ایرانی فوج ان کی حکومت کے خلاف لڑنے افغانستان میں داخل ہو چکی ہے۔ نور محمد ترہ کئی نے اپنی بارہا کی التجائوں میں یہ تجویز بھی دی کہ بے شک وسطی ایشیاء کی روسی فوجیں بھیجی جائیں۔ کہ افغان فوجی لباس میں ان پر گمان شمال کے افغان باشندوں کا ہوگا۔ یوں ماسکو پر فوجی مداخلت کا اعتراض نہ ہو سکے گا۔ کمیونسٹوں نے ایک دوسرے کو مارنے کے ساتھ انقلاب مخالفین کو بھی مارنا شروع کر دیا تھا۔ انقلاب کے محض تین دن کے اندر تین ہزار افراد قتل ہوئے۔ جبکہ نور محمد ترہ کئی اور خلقیوں کی بیس ماہ حکومت میں یہ تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ سنگ دلی، شقاوت کی بھیانک داستانیں رقم کر دیں۔ ہزاروں مخالفین کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ یہاں تک کہ چھ سو مخالفین کو یورال اور سائبیریا کے عقوبت خانوں میں بھیجا گیا۔

چودہ فروری 1979ء کو کابل میں تعینات امریکی سفیر ’’اڈولف ڈیوس‘‘ قتل ہوا۔ یہاں تک کہ ماسکو کو کہنا پڑا کہ کابل رجیم اپنا طریقہ کار بدل ڈالے۔ جس پر نور محمد ترہ کئی نے کہا کہ مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا، مارنا اور راستے سے ہٹانا استاد لینن ہی کی تعلیمات ہیں۔ببرک کارمل جب صدر بنے تو مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے نجی ملیشیائیں قائم کر دیں۔ ان میں رشید دوستم کی گلیم جم ملیشیائ، عصمت اللہ اچکزئی کی عصمت مسلم ملیشیاء اور نادری سید کی کیان ملیشیائیں ظلم اور مردم کشی میں بہت آگے گئیں۔ ان ملیشائوں کی وجہ سے روسیوں کے نکلنے کے بعد بھی امن کا خواب ادھورا رہ گیا۔ جیسے کہا گیا کہ ببرک کارمل اور اس کی جماعت پرچم اور چند خلقی افغانستان کی تقسیم کی سوچ رکھتے تھے۔ بعد ازاں حزب وحدت اور چند دوسری شخصیات بھی اس سوچ کی حامل ہوئیں۔ جمعیت اسلامی افغانستان کے کمانڈر احمد شاہ مسعود 1982ء ہی میں روسی فوج اور کے جی بی کے ساتھ باہمی مفادات کا معاہدہ کر چکے تھے۔ جس کی تفصیل افغانستان میں متعین روسی جنرل ’’باریس گراموف‘‘ اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ نیز 16 فروری 2004ء سابق روسی صدر میخائل گوباچوف نے بھی بی بی سی کو انٹریو میں کہا کہ ’’احمد شاہ مسعود نے سویت یونین کے لیے کام کیا، سالنگ درہ روسی فوجیوں کے لیے محفوظ بنایا۔ اور وہاں کسی کو روسی فوج اور ان کے مفادات پر حملے کی اجازت نہ دی‘‘۔ ببرک کارمل روسیوں کے نزدیک مزید حکومت کرنے کے اہل نہ رہے، تو اسے ہٹا کر ڈاکٹر نجیب اللہ کابل انتظامیہ کا سربراہ بنا لیے گئے۔ اْنہیںحالات ماسکو کے حق میں بہتر بنانے کا ٹاسک دیا گیا۔ ڈاکٹر نجیب نے کمیونسٹ فکر و عقیدے سے ظاہراً رجوع کر لیا۔ کابل کی ’’پل خشتی‘‘ جامع مسجد میں لوگوںکے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے۔ چونکہ لوگ خلق اور پرچم پارٹی سے بدظن یا نفرت کرتے تھے۔

چناں چہ ڈاکٹر نجیب نے بعد ازاں پرچم پارٹی کا نام بدل کر وطن پارٹی رکھ دیا۔ بہر حال ڈاکٹر نجیب بھی مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ببرک کار مل نے ڈاکٹر نجیب کے دور حکومت میں واپس آ کر افغانستان کی تقسیم کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ’’کے جی بی‘‘ نے احمد شاہ مسعود کی پشت پناہی کی۔ ہزارہ، تاجک اور ازبک کمانڈروں و جماعتوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا۔ جو شمالی اتحاد کے نام سے معروف ہو۔ یاد رہے کہ نئی دہلی اس قبیح کھیل میں پوری طرح شامل رہا۔ اس طرح ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت میں شمالی کے صوبوں، کابل اور چند متصل علاقے اپنے نفوذ میں رکھنے پر عمل در آمد شروع ہوا۔ فوجی قوت شمال کے اندر جمع کرنا شروع کردی۔ ماسکو معروضی حالات وحقائق سے آگاہ تھا، کہ ان کی افواج کے نکلنے کی صورت میں کا بل کی حکومت افغانستان پر کنٹرول کی اہلیت و سکت نہیں رکھتی۔ اور پھر فوج کے اندر اکثریت رکھنے والے پشتون افغان فوجی تقسیم یا کو ئی دوسر ا منصوبہ کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ ہی کے دور میں فیصلہ ہوا کہ اگر مجاہدین دوسرے صوبوں پر تسلط قائم کرتے ہیں تو اس صورت میں شمالی اتحاد کا مرکز ’’مزار‘‘ ہو گا۔ چناں چہ 1987ء (ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت) میں ماسکو کے تعاون سے، جسے روسی صدر میخائل گورباچوف کی حمایت حاصل تھی، شمال کے نو صوبوں پر مشتمل ’’فرعی‘‘ حکومت قائم کی گئی۔ کہ افغانستان کا شمال اپنے داخلی معاملات میں خود مختار ہو گا، باقی افغانستان سے الگ اپنا نظام قائم کریں گے۔ شمال کی یہ حکومت وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی سفارتی تعلقات استوار کرنے میں ا?زاد ہو گی۔ پرچم پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن نجیب اللہ مسیر اس کے لیے نگران بنائے گئے تھے۔ جسے اس احتمالی حکومت کے لیے افغان وزیر اعظم کا معاون بھی مقرر کیا گیا تھا۔ مزار شہر کے داخلے دروازے پر ’’بہ خراسان مستقل خوش آمدید‘‘ لکھا گیا۔ یہی الفاظ بعد میں سالنگ ٹنل کے اوپر نوشتہ کیے گئے۔ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ اس پورے منظر نامے میں خاموش تھے۔ ان وجوہات و خیانتوںکے پیش نظر ڈاکٹر نجیب حکومت کے وزیر دفاع جنرل ’’شاہ نواز تنئی‘‘ نے کابل رجیم کے خلاف فوجی بغاوت کی۔ یعنی اس فوجی بغاوت افغانستان کی تقسیم کی سازش کو ناکام بنانا تھا۔ البتہ جنرل تنئی کامیاب نہ ہوئے۔ جا کر حزب اسلامی سے مل گئے۔ جس کے بعد ڈاکٹر نجیب کی حکومت نے بغاوت کے الزام میں سپاہی سے جنرل رینک کے کئی پشتون افسران اور سپاہیوں کو موت کی سزائیں دیں۔ برطرفیاں ہوئیں۔ گویا سیکڑوں پشتون فوجی انتقام کا نشانہ بنائے گئے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ بدستور جہادی تنظیموں اور پاکستان مخالت موقف پر کھڑے رہے۔ انہیں اپنی جماعت پرچم، احمد شاہ مسعود اور رشید دوستم وغیرہ فرار ہونے نہیں دے رہے تھے۔ ڈاکٹر نجیب اپنے ارد گرد سازشی سیاست پوری طرح بھانپ گئے تھے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں امن معاہدے کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی۔ چناں چہ جنیوا معاہدے پر 1988میں دستخط ہو گئے۔ اس ناقص معاہد ے کو حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمتیار اور دوسری جہادی تنظیموں نے مسترد کر دیا تھا۔ یہ بھی واضح کر دیا تھاکہ جہادی تنظیموں نے پاکستان کو نمائندگی کا اختیار سرے سے دیا ہی نہیں۔(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر