... loading ...
29فروری 2020ء کا دن دنیا کی سیاسی تاریخ میں اہم بن چکا ہے۔ اس دن عالمی طاقت ریاست ہائے متحدہ امریکا نے حریت پسند افغان عوام کی سرزمین پر مزید اپنا فوجی و سیاسی قبضہ ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سجائی گئی۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک کے نمائندے اس اہم وتاریخی تقریب میں شریک تھے۔ امریکا کی طرف سے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور طالبان کی جانب سے تحریک کے نائب امیر، قطر سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے دستخط کیے۔ پیش ازیں زلمے خلیل زاد، ملا عبدالغنی برادر اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تقریب سے خطاب کیا۔ افغانستان سمیت دنیا بھر میں مقیم افغان باشندوں میں اس امن معاہدے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ کابل انتظامیہ، نئی دہلی، افغانستان اور پاکستان میں پراکسیز پر گویا سکتہ طاری ہوا، ان کا سکون غارت ہوا ہے۔ چار مارچ 2020 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور قطر میں موجود طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کے درمیان آدھے گھنٹے سے زائد ٹیلی فونک بات چیت ہوئی۔ امریکی صدر یہ اظہار کرچکے ہیں کہ طالبان مضبوط اعصاب و ارادے کے لوگ ہیں اور یہ اپنی سرزمین کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ اظہار اعتراف ہے کہ امریکا افغانوں کی سرزمین پر قابض ہے۔ اور یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ طالبان وطن کے دفاع کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔یہ معاہدہ ایسے وقتوں میں ہوا ہے کہ جب افغانستان کے اندر ایک بار پھر جغرافیائی، نسلی اور اشتراک زبان کی بنیاد پر الگ شناخت کی غلیظ سیاست ہو رہی ہے۔ یعنی افغانستان کی تقسیم کی مکروہ خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی شرمناک کوششیں ہو رہی ہیں۔ افغانستان کے اندر صدارتی انتخابات گزشتہ سال 28 ستمبر 2019 کو ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتیجہ حیرت انگیز طور پر تاخیر کا شکار ہوا۔ یعنی18 فروری 2020ء کو اشرف غنی کوکامیاب قرار دیا گیا۔ جس کے بعد بطور صدر ان کا نوٹیفکیشن 23فروری 2020ء کو جاری ہوا۔ نوٹیفکیشن سے قبل ہی عبداللہ عبداللہ نے نتائج مسترد کر دیے۔ بعدازاں نوٹیفکیشن بھی مسترد کر دیا۔ یہی عمل عبداللہ عبداللہ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں دہرا چکے ہیں۔ جب اشرف غنی صدر منتخب کیے گئے، مگر صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے انہیں صدر ماننے سے انکار کر تے ہوئے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو کابل جانا پڑا۔ اور قضیہ کا حل عبداللہ عبداللہ کو افغانستان کا چیف ایگزیکٹو بنا کر نکالا۔ اس طرح ملک کے بیک وقت دو حکمران بن گئے۔ کسی بھی عالمی فورم پر افغانستان کی نمائندگی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کرتے، افغان نشستیں دو مختص کی جاتیں۔
چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دراصل امریکا کے کہنے پر تخلیق کیا گیا۔ چناںچہ اب کی بار پھر عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کو آنکھیں دکھائی ہیں۔ اول تو مذکوہ معاہدے کے پیش نظر افغان صدر کی حلف برداری کی تقریب ملتوی کی گئی ہے۔ دوم عبداللہ عبداللہ نے نتیجہ مسترد کرتے ہوئے متوازی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے مرحلے میں صوبہ سرپل کے لیے رشید دوستم، جوزجان کے لیے عبدالحئی حیات، سمنگان کے لیے محمد آصف عظیمی نیز مزید تین صوبوں کے گورنروں کا تقرر کردیا۔ یعنی چھ صوبوں میں اپنے گورنر تعینات کردیے۔ اس پر مستزاد 9 مارچ 2020ء کو ارگ میں جب اشرف غنی اپنی صدارت کا حلف اٹھا رہے تھے، تو عین اس لمحے کابل کے اندر عبداللہ عبداللہ کی رہائش گاہ میں بھی حلف برداری کی بڑی تقریب منعقد ہوئی۔ جہاں عبداللہ عبداللہ نے بہ حیثیت افغان صدر پشتو زبان میں حلف اٹھا لیا۔ گویا کٹھ پتلیوں نے افغانستان کو تماشا بنائے رکھا ہے اور بہت ہی انوکھی تاریخ رقم کردی۔ اشرف غنی کی تقریب میں گلبدین حکمت یار اور سابق صدر حامد کرزئی نے شرکت نہ کی۔ قرب و سعادت حاصل کرنے پاکستان سے پشتون خوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی میں اے این پی کے اصغر اچکزئی، غلام احمد بلور، افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر، پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ، علی وزیر پہنچ گئے۔ خبروں کے مطابق آخر الذکر دو صاحبان افغان فوجی ہیلی کاپٹر میں فورسز کے تحفظ میں کابل لے جائے گئے!! قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی بھی مدعو تھے۔افغانستان کے اندر علاقائیت، قومیت اور زبان کی بنیاد پر تفریق و سیاست کا کھیل نیا ہرگز نہیں ہے۔ ماضی کے اندر کئی نظیر موجود ہیں۔ سوویت یونین عملاً ان تعصبات کو اپنے مقصد کے لیے اْبھار چکا ہے۔ ظاہر شاہ کے دور میں افغانستان اور سوویت یونین کے تعلقات میں گہرائی آئی۔
چناںچہ اْس زمانے میں روس نے افغان بیورو کریسی، فوج اور فضائیہ میں اثر رسوخ پیدا کر لیا۔ ظاہر شاہ کے پاکستان کے دورے کے موقع پر فوجی حکمران فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے انہیں روسی نفوذ اور اس کے خطرات کی جانب توجہ دلائی۔ ظاہر شاہ کو اس گمبھیر صورتحال کا پوری طرح ادراک تھا۔ شاہ نے جنرل ایوب سے فقط اتنا کہا کہ ہم نے تعلیم کے حصول کی خاطر نوجوانوں کو روس بھیجا اور وہ وہاں سے کمیونسٹ بن کر آگئے۔ شاہ خاندان کے اندر سردار دائود خان سے خاص کر خوفزدہ تھے۔ سردار دائو 1953 سے 1963 تک افغانستان کے وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ دفاع کی اہم وزارت کا قلمدان بھی پاس رہا۔ انہیں اقتدار کی خواہش دامن گیر تھی۔ جس کے لیے انہیں ماسکو کی حمایت اور تعاون درکار تھا۔ سردار دائود نے اپنے ارد گرد افغان کمیونسٹ اکٹھے کر لیے۔ ماسکو کے دبائو پر ظاہر شاہ نے ا?ئین میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت کے لیے ترمیم کردی۔ جس کے بعد یکم جنوری 1964ء افغانستان میں کمیونسٹ گروہ نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت نے آزادانہ اشتراکی افکار اور درپردہ فوج کے اندر کام شروع کر دیا، اقتدار کے ایوانوں میں گھْس گئے۔ سردار دائود گویا تب ان کی رہبری کرتے تھے۔ ماسکو اور کمیونسٹ گروہ کے تعاون سے سردائود نے 1973ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ کمیونسٹوں کو کابینہ میں شامل کیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کْھل کھیلنے لگی۔ بہت جلد یہ جماعت کئی دھڑوں میں تقسیم ہوئی۔ جن میں پرچم اور خلق دھڑ ے نے اپنا وجود باقی رکھا۔ ان کے تمام اخراجات و ضروریات ماسکو پوری کرتا تھا۔ سردار دائود کمیونسٹ نہ تھے، مارکسسٹوں نے جلد اْن کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کردیے۔ مارکسسٹوں کے ارادے واضح ہوئے تو دائود نے انہیں کابینہ سے فارغ کر دیا۔ تاہم سردار دائود ان پر پوری طرح غلبہ پا نہ سکے۔ افغانستان کے اندر سردار دائود کی مخالفت میں اضافہ کی وجہ کمیونسٹ ہی تھے۔ اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈائون نے دائود کو مزید تنہا کر دیا۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔