وجود

... loading ...

وجود

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

جمعرات 26 مارچ 2020 ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

کرونا وائرس ، ہائے کرونا وائرس!!!
سوا ہزار برس ہوتے ہیں۔ اسی دنیا کو بائبل کی ایک پیش گوئی ستا رہی تھی۔ عیسائی رہنماؤں نے مقدس مگر محرّف کتاب کے مطالعے کے بعد یہ اعلان کردیاتھا کہ دنیا کا خاتمہ اٹل ہے۔ دنیا اس اندیشے سے دوچار ہوگئی کہ ٹھیک ایک ہزار عیسوی میں آسمانی طاقت دنیا کو تہ وبالا کردے گی۔ سواہزار برس ہوتے ہیں، دنیا اب اس خطرے سے دوچار ہے کہ اسے خود انسان کہیں اپنے ہاتھوں تباہ نہ کردیں۔ یہ خطرہ زمانۂ مستقبل کے کسی امکان میں نہیں درحقیقت زمانہ ٔ حال میں ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ انسان کرونا وائرس سے نمٹتے ہوئے اب بھی ٹھیک اسی ڈھنگ پر زندگی کرتا ہے جس ڈھنگ نے اُسے کرونا وائرس سے دوچار کیا۔

الامان والحفیظ!انسان ،انسان کے ہاتھوں تباہ ہو چکا۔ یوں لگتا ہے کہ صدائے کن ، اپنی فیکون حالت میں بھی تاحال اسباب وعلل کے رشتے کے ساتھ مسلسل انکشاف سے گزر رہی ہے۔انسانی اعمال بناؤ بگاڑ کی دنیا اپنے لیے خود تخلیق کررہے ہیں۔ اسباب وعلل کے عمل کا اس سے ایک نامیاتی رشتہ ہے۔

کرونا وائرس ہائے کرونا وائرس!!!
ترقی کی معراج پر جب انسان خدا کو خدا حافظ کہہ چکا ، انسان، انسان کے ہاتھوں تباہی کے خدشے سے دوچار ہے۔ جدید دور کے انسان کا اصل کرونا وائرس اس کے سوچنے کا ڈھنگ ہے۔ انسان کا اپنے ماحول اور کرۂ ارض پر مکمل گرفت کا دعویٰ سب سے زیادہ کھوکھلا ہے۔ حوادث گاہے اسے لگام دیتے ہیں۔ مگر انسان کا عقل پر ناز اُسے پھر ایک دائرے میں گھما کر عاجز حالت میں چھوڑدیتا ہے۔ امریکی سائنس دان ایڈسکڈ مور کی چیخ اُس کے ساتھی سائنس دانوں نے بھی نہیں سنی:انسان خود کو درپیش معاملے سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر معاملہ فطرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔سائنسدان کی بات پھر بھی ادھوری رہتی ہے، اُس فلسفی پال ہنری تھائرے ، ڈی ہولباخ سے رجوع کرنا پڑے گا،جس کی کتاب ’’دی سسٹم آف نیچر‘‘کا مطالعہ کائنات کے اسرار ورموز پر غور کرتے ہوئے فلسفے کے کسی بھی طالب علم کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے:
’’انسان کے غموں کا سرچشمہ فطرت سے اس کی لاعلمی ہے‘‘۔
حادثات گاہے تاریخ کی چٹکی ہوتے ہیں۔بیماریاں انسانوں کو فطرت کی تنبیہ ہے۔ کا ش ہم غور کرتے!اے کاش ہم غور کرسکتے!! افسوس انسانی دانش کا تعصب اس موقع پر بھی اُبکائیاں لے رہا ہے، خلطِ مبحث کے ساتھ بندے کو خدا سے بغاوت پر اُکسایا جارہا ہے۔ عجز کے اس لمحہ پر کچھ متکبر ذہن سوال اُٹھا رہے ہیں کہ’’ کورونا وائرس‘‘ نے محرف مذاہب اور محفوظ عقیدے کے درمیان خطِ امتیاز کو روند دیا، جیسے یہ کوئی امتیاز ہی نہ ہو۔ مندروں کے خاموش ناقوس ، عبادت گزاروں سے خالی کلیسائیں ، راشٹریہ کے بھونکتے سیوکوں کی لگام پاتی زبانیں اور مسجدوں میں رسم اذاں کے بعد خالی صفیں اُنہیں ایک جیسے واقعات لگتے ہیں۔ اُن کی زہر افشاں زبانوں سے باربار ، بتکرار، بصداِصرار یہ کہا جارہا ہے کہ ایک وائرس نے رنگ، نسل کا امتیازاور مذاہب کی کشمکش کو تاراج کرکے اُنہیں ایک صف میں کھڑا کردیا۔یہ خدائی اسکیم سے نکلنے کا موقف ہے،یہ بے خدا سماج کی تخلیق کے لیے آوارہ زبانوں کا آوازہ ہے۔ سوچنے کا یہی ڈھنگ تو انسان پر حملہ آور اصل کورونا وائرس ہے۔

سوال یہ ہے کہ آج کی دنیا کس نے متشکل کی، اس کے اصلِ علم، مزاجِ علم اور محیط ِ علم کا کون ذمہ دار ہے،دنیا کو سمیٹ کر ایک عالمی گاؤں میں بدلنے کا دعویٰ کس کا ہے، چاند پر قدم رکھ کر اِ تراتا کون ہے، خلائے بسیط پر قدرت کا اعلان کس نے کیا، ہزاروں فٹ کی بلندی سے زمین پر رینگتے کیڑے کو اپنی ڈیجیٹل آنکھوں سے دیکھنے کا مدعی کون ہے، دنیا کے اربوں انسانوں کی حرکات کو اپنے کمپیوٹر کی اسکرین پر ٹٹولنے کی صلاحیت کس نے پانے کا اعلان کیا، اربوں سال کی زندگی کا سراغ پاکر ابتدائے آفرینش کے قرآنی مقدمے کو جھٹلانے پر مُصر کون رہتا ہے، اصلِ انواع کی کھوج میںنظریۂ ارتقا کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اپنی ٹیڑھی زبانوں سے انسان کی بزرگی کا شرف کون چھینتا ہے،

کیا یہ تم نہیں ہو؟اگر یہ تم ہو، تو پھر یہ تم ہی بتاؤ کورونا وائرس کیا ہے؟
اگر سائنس تمہارا مذہب، ایجادات تمہارا عقیدہ ، انسان، تمہاری تجربہ گاہ، زمانہ تمہاری گزرگاہ اور عقل تمہاری سجدہ گاہ ہے تو کورونا وائرس تمہارے خلاف فطرت کا مقدمہ ہے۔ اپنی سائنس سے پو چھ کر بتاؤ فطرت کے یہ واقعات تمہاری سجائی دنیا کو ویران کیوں کردیتے ہیں؟ہر صدی دو صدی بعد کوئی آفت تمہاری ترقی پر حملہ آور کیوں ہوتی ہے؟ایک بیماری پر تمہاری فتح دوسری بیماری کو تخلیق کیوں کردیتی ہے؟

ذرا بتاؤ،چودہویں صدی میں کالی موت نے ساڑھے سات کروڑ انسانوں کو کیوں نگل لیا ؟ چلو، تب تم زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے، اب تو ہو، انیسویں صدی میں تم برطانیا میں اعلان کررہے تھے کہ انسان نے ترقی کی معراج پالی،ہر ایجاد ہونے والی چیز ایجاد ہوگئی، اس قدرتِ کاملہ کے اعلان کے بعد انیسویں صدی میں پھر انفلوئنزا کی عالمگیر وبا نے چار کروڑ انسان کیسے اُچک لیے؟اچھا تمہیں ایڈز کے مرض پر اہلِ تقویٰ کی دُکان نظر آتی ہے، ادویہ ساز اداروں کی حرص میںزمین تک لٹکتی زبانیں اورلالچ سے ٹپکتی رالیں دکھائی نہیں پڑتیں، تو پھر یہ تو بتاؤ کہ اس مرض سے مرنے والے تین کروڑ سے زائد لوگوں کی موت کا سائنس نے اپنی عاجزی کے ساتھ تماشا کیوں دیکھا؟
ترقی اگر انسانی عقیدہ بنے گا تو وبا اس پر فطرت کی تنبیہہ ہوگی۔زلزلے، قحط ایسی زندگیوں کو چاٹتے رہیںگے۔ اللہ کی بنائی ہوئی دنیا اُس کی ہی اسکیم پر چلے گی، اُس نے انسان کو مادی ہی نہیں اخلاقی وجود بھی بخشا ،چنانچہ ترقی کو الہامی تعلیمات کی چھتری میں رکھا تاکہ دونوں میں توازن اُسے خوبصورت اور محفوظ بنائے رکھے۔ اسے ایک دوسرے کی بغاوت پر اُکسانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اصل مقدمہ عبادت گاہوں کی خاموشی نہیں بلکہ آج کی جدید دنیا کی ویرانی ہے۔ خدائی اسکیم سے نکل کر سائنس کی اسکیم کے آگے خود کو سرینڈر کرنے والے بتائیں کہ اُن کے ہاں کون سی رونقیں قائم ہیں۔کیا وہاں کورونا شادیانے بجا رہا ہے، کیا وہ سائنسدانوں سے دلہنیں لینے کے لیے ’’ڈولی سجا کر رکھنا‘‘ کی ڈفلی بجارہا ہے۔کیا عالمی معاشی نظام کا وہ گلیارہ ،وال اسٹریٹ ویران نہیں۔کیا ترقی کو سجانے والی عالمی بازار گونگے نہیں ہوگئے۔ دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج دھچکے میں نہیں۔ دنیا کا سب سے طاقت ور انسان وہائٹ ہاؤس میں بے چین کیوں ہے؟ پیوٹن اپنے شہریوں کو اپنی طاقت کے بجائے شیروں سے کیوں ڈرا رہا ہے۔ سائنس کی معمل گاہیں اونگھ کیوں رہی ہیں۔بھائیو! سمجھو یہ لاک ڈاؤن انسانی بستیوںپر نہیں اُترا، یہ ترقی کے خلاف لاگو ہوا ہے۔ اس نے ایجادات پر ناز کرتی عقلوں کو شکار کیا ہے۔ دیکھیے حضرت علامہ اقبالؒ بھی یادداشت میں کب اُجاگر ہوتے ہیں

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم وپیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع وضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

انسان کااصل دشمن کرونا وائرس نہیں اس کے سوچنے کا ڈھنگ ہے۔ سوا ہزار برس ہوتے ہیں دنیا کو بائبل کی ایک پیش گوئی ستار ہی تھی کہ آسمانی قوت اس رجے پجے جہان کو کہیں ختم نہ کردے۔ سواہزا برس ہوتے ہیں ، دنیا اب اس خطرے سے دوچار ہے کہ اسے خود انسان کہیں اپنے ہاتھوں تباہ نہ کردیں۔ کرونا وائرس انسان کے ذہن میں لگ چکا ہے اوراس پر صدیاں بیت چکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر