... loading ...
دوستو،عورتوں کے عالمی دن کے اگلے روز ہمارے دوست معروف ڈرامہ رائٹر ابن آس نے زبردست قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ۔۔شکر ہے،ایک دن کی عورتوں کاایک دن ختم ہو گیا۔۔اب سارے دن باقی عورتوں کے اور ان کے مردوں کے۔۔لیٹس انجوائے۔۔عورتوںکے حوالے سے گزشتہ سال ایک متنازع نعرہ بڑا وائرل ہوا تھا کہ۔۔اپنا کھانا خود گرم کرو۔۔ اس پر ہمارے دوست ابوبکر کا کہنا ہے کہ۔۔بیٹی نے عورت مارچ سے واپس آ کر اپنے وکیل باپ سے پوچھا۔۔بابا آپ تو قانون کے ماہر ہیں، آپ کیاکہتے ہیں کہ عورتیں کیوں مجبور ہیں کہ مردوں کے لیے کھانا تیار کریں؟۔۔باپ نے بڑی بردباری اور تحمل مزاجی سے جواب دیا۔۔ اس لیے کہ معاہدہ جنیوا کے تحت قرار پایا ہے کہ قیدیوں کو کھانا کھلایا جائے۔عورت مارچ کے بعد اب مردوں کی باری ہے۔۔ اس کے لیے یکم مئی تک انتظار کریں۔۔ چلو تب تک انجوائے کرتے ہیں۔۔لیٹس انجوائے۔۔
باباجی بھوربن کے فائیواسٹار ہوٹل میں ٹھہرے۔۔جب چیک آؤٹ کرنے لگے تو بل اداکرکے سامان کا جائزہ لیا تو گھبراکر ہوٹل کے ’’خان صاحب‘‘ ملازم سے کہا۔۔ ارے بھائی، ذرا بھاگ کر روم نمبر 112 میںدیکھ کر آنا کہیںمیں اپنا چشمہ اور گھڑی تو نہیںبھول آیا۔ جلدی کرو میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ ۔خان صاحب دوڑ کر گئے اور واپس آکر ہانپتے ہانپتے بولا’’ ہاں جی سر ! آپ کی دونوںچیزیں کمرے میںہی پڑی ہیں۔ ‘‘۔۔باباجی کو شادی پر قدآدم وال کلاک تحفہ میںملا تھا۔۔ ایسے وال کلاک اب نایاب ہی ہوگئے ہیں،جی ہاں۔۔ شاید آپ میں سے کسی کے گھر ہو، ایسا وال کلاک۔۔ہمارے گھر میں تھا، ہر گھنٹے پر ٹن ، ٹن کراپنے ہونے کا احساس دلاتا تھا۔۔ اس وال کلاک میں جتنے بجتے تھے یہ اتنی ہی بار ٹن،ٹن کرتا تھا۔۔ بارہ بجنے پر بارہ دفعہ بجتا تھا۔۔ تو ہم بتارہے تھے، باباجی کو تحفے میں ملنے والا قدآدم وال کلاک خراب ہوگیا، تو وہ اسے مرمت کرانے کے لیے کندھے پر رکھ کر بازار کو چل دیے۔ راستے میں ایک موڑ سے مڑتے ہوئے ایک خان صاحب سے ٹکرائے تو وال کلاک خان صاحب کے سرپر لگا۔ ۔خان صاحب نے وال کلاک کے ٹکرانے پرباباجی کو غصیلی نظروں سے دیکھا اور کہا۔۔اوئے یارا۔۔ تم باقی لوگوں کی طرح چھوٹی گھڑی کیوںنہیںپہنتے ؟
باباجی کی بیوی قد آدم شیشے کے سامنے کھڑی اپنا سراپا دیکھ کرباباجی سے غمناک انداز میں مخاطب ہوئی۔۔مجھ پر بڑھاپے کے آثار طاری ہورہے ہیں۔موٹی بھی بہت ہوگئی ہوں۔۔بالوں میں سفیدی آرہی ہے۔۔چہرے پر بھی جھریاں نظر آرہی ہیں۔۔میں دن بدن بھدی ہوتی جارہی ہوں۔۔ڈارلنگ۔ پلیز میرے بارے میں کوئی ’’مثبت تبصرہ کرو‘‘ تاکہ میری مایوسی دور ہو۔۔باباجی نے ایک نظر اپنی زوجہ ماجدہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بڑے ہی سردلہجے میں کہا۔۔بیگم ما شاء اللہ تمہاری قریب کی نظر ابھی بھی بہت اچھی ہے۔۔باباجی کی اپنی زوجہ ماجدہ سے کبھی ہم نے بنتے نہیں دیکھی،جب دیکھا آپس میں نوک جوک ہی دیکھی۔۔ دونوں کس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔۔ میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔۔باباجی نے کہا۔سب کو میرا سلام کہنا۔۔بیگم صاحبہ دانت پیستے ہوئے غرائی۔۔ تم تو مجھ سے جان ہی چھڑانے کے لیے بیٹھے ہوتے ہو۔۔کچھ روزبعد بیگم نے پھر سے کہہ دیا۔۔ میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ ۔اس بار باباجی کا موڈ خوشگوار تھا،بولے۔۔ آج ادھر ہی رہو میرے ساتھ، کسی اور دن چلی جانا۔ ۔بیگم صاحبہ پھر ناراض ، کہنے لگیں۔۔ تم تو بس مجھے ہر وقت اسی گھر میں قید ہی رکھنا چاہتے ہو۔ ۔اس بات کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا، بیگم صاحبہ کو پھر میکے کی یاد ستائی، کہنے لگیں۔۔ میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ باباجی نے پچھلے دوتجربات کی روشنی میں ڈپلومیٹک جواب دیا، جیسے تمہیں اچھا لگے۔ ۔بیگم صاحبہ پھر روٹھ گئیں،کہا۔۔ تو گویا میرا ہونا نہ ہونا تمارے لیے ایک برابر ہے،میری تو کوئی قیمت بھی نہیں ہے اس گھر میں۔۔اگلے ہی ماہ بیگم صاحبہ پھرلاڈ بھرے اندازمیں بولیں۔۔ میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ ۔باباجی اس بار چوکنا تھے، کہنے لگے۔۔ کہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں؟بیگم صاحبہ نے اس بار بھی انہیں کھری کھری سنادی۔۔ یعنی میں میکے اس لیے جا رہی ہوں کہ میری آپ سے وہاں پر ملاقات طے ہے؟ مجھے کچھ آرام چاہیئے، اس لیے اْدھر جا رہی ہوں۔۔یعنی ان سارے واقعات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوگئی کہ۔۔ہر علم، ہر عالم، بشر، جن، بھوت، نباتات اور ساری جمادات ابھی تک کوئی ایسا جواب ڈھونڈنے سے قاصر ہیں جس سے بیوی راضی ہو جائے۔۔
ایک شخص کسی میراثی سے قرضہ واپس لینے کے لیے اس کے پِنڈ گیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ میراثی سڑک کے کنارے پودے لگا رہا ہے۔ اس نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟؟ میراثی بولا۔۔ کیکر کے پودے لگا رہا ہوں کیوں کہ اس سڑک پہ کپاس سے لدی ٹرالیاں گذرتی ہیں اور جب یہ کیکر بڑے ہوں گے تو جو کپاس ان کے کانٹوں میں اٹک جایا کرے گی میں وہ بیچ بیچ کر تمہارا قرضہ چْکا دوں گا۔وہ شخص میراثی کی بات سن کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔اسے ہنستے دیکھ کر میراثی بولا ۔۔رقماں تردِیاں ویخ کے کِنج دندِیاں نِکلیاں نیں۔(ترجمہ:ڈوبی رقم ملتی دیکھ کیسے دانت نکل رہے ہیں)۔۔واقعہ کی دُم: کپتان فرماتے ہیں۔۔ہم یہاں بیری کے درخت لگائیں گے جو سات سال میں بڑے ہونگے پھر ان پر شہد کی مکھیاں چھوڑیں گے اور پھر شہد ایکسپورٹ کریں گے۔۔باتیں باباجی کی ہورہی تھیں، درمیان میں اچانک میراثی آن ٹپکا۔۔تو ہم بتارہے تھے کہ باباجی ایک بار حبیب بینک پلازہ کی پندرھویں منزل پر کسی کام سے گئے۔۔کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکر انہوں نے جیب سے اپنا بٹوا نکالا اور سوکا نوٹ نکالنے ہی لگے تھے کہ وہ ہاتھ سے چھوٹ گیا اور نیچے کی طرف اڑان بھردی۔۔ باباجی بجلی کی سی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے اور گارڈ سے پوچھا یہاں میرا سو کا نوٹ گرا کہاں گیا ؟؟گارڈ بولا۔۔باباجی آپ جلدی نیچے آ گئے ،وہ دیکھیں نوٹ تو ابھی چوتھے فلور پر آ رہا ہے۔۔۔
ایک انگریز کو بچپن سے ہی یہ خوف تھا کہ جب وہ سوتا ہے تو اس کے بیڈ کے نیچے کوئی ہوتا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد اس کا یہ خوف دور نہ ہوا۔۔بڑی سوچ بچار کے بعد وہ ایک ماہر نفسیات کے پاس گیا اور اسے اپنا مسئلہ بتایا کہ کوئی حل بتائیں، نہیں تو میں اس خوف سے پاگل ہو جاؤنگا۔۔ماہر نفسیات نے اسے کہا کہ مجھ سے علاج کروا لو، ایک سال میں تمہارا یہ مسئلہ گارنٹی کے ساتھ حل ہو جائے گا۔۔ بس ہفتے میں تین دن تمہیں آنا ہو گا میرے پاس۔۔انگریز نے پوچھا اور آپ کی فیس کتنی ہو گی۔۔ماہرنفسیات نے جواب دیا۔۔ دوسوڈالر فی وزٹ۔۔انگریزبولا۔۔چلیں میں سوچ کر بتاتاہوں۔۔پھر کوئی ایک سال بعد اس گورے اور ماہر نفسیات کی کسی فنکشن پر ملاقات ہوئی تو ماہر نفسیات نے پوچھا کہ تم آئے نہیں میرے پاس۔۔گورے نے جواب دیا۔۔ میرا وہ مسئلہ میرے ایک پاکستانی دوست نے صرف ایک بریانی کی پلیٹ اور ایک بوتل پر دور کرا دیا اور آپ کی فیس کے پیسے بچا کر میں نے گاڑی بھی خرید لی ہے۔۔ماہر نفسیات نے بڑی حیرانی سے پوچھا۔۔ بھئی اس نے ایسا کیا علاج بتایا مجھے بھی بتاؤ پلیز۔۔گورے نے کہا۔۔ پاکستانی دوست نے مشورہ دیا کہ بیڈ بیچ دو اور فرش پر گدا ڈال کر سویا کرو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔