... loading ...
مائیکل ملکن 1980ء کی دہائی میں امریکا کی مالیاتی مارکیٹ میں ’’لالچ اچھی بات ہے۔‘‘کا معروف استعارہ بن کر ابھرا تھا‘ جو اپنے عہد میں وائٹ کالر کرائم کا اہم ترین مجرم سمجھا جاتا تھا۔ صدرٹرمپ نے اسے معافی دیکر دو طرح کا پیغام دیا ہے‘ اول جب بات انصاف کی ہو تو دولت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔دوم‘ یہ کہ وائٹ کالر کرائم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘جہاں تک قانون کی حکمرانی اور اس دعوے کا تعلق ہے کہ کوئی خواہ کتنا ہی طاقتور یا دولت مند کیوں نہ ہو قانون سے بالا تر نہیں ہوتا‘ٹرمپ حکومت میں دونوں پہلے ہی زبوں حالی کے شکار نظر آتے ہیں۔اب ‘کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں پوری تاریخ ہی ازسر نو لکھنی پڑے‘ اس لیے ہمیں اس بات پرضرور سوچنا چاہیے‘ جو 21نومبر 1990ء کو جج کمبا ووڈ نے ملکن کو سازش اور فراڈ کے الزام میں سزا سناتے ہوئے کہی تھی ’’ جب مالیاتی مارکیٹ میں آپ جیسے اختیارات رکھنے والا انسان ‘جو ملک کے اہم ترین انوسٹمنٹ بینکنگ ہائوسز کے سربراہ کی حیثیت سے بار بارسکیورٹیز اور ٹیکس کے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی سازش میں ملوث ہوگا ‘تاکہ وہ اپنے لیے اور اپنے امیر ترین موکلین کی خاطر مزید اختیارات اور دولت حاصل کرنے کے لیے سازشیں کرسکے اور ایسے مالیاتی جرائم کا مرتکب ہوگا ‘جن کا سراغ لگا نا بہت مشکل کام ہے تواسے خصوصی قید کی سزا سنانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ دوسروں پر بھی اس سزا کا خوف پیدا ہو ‘‘۔جج نے مزید لکھا کہ مسٹر ملکن جو Drexel Burnham Lambertمیں سینئر ایگزیکٹو تھا ’’ایسے جرائم میں ملوث رہا ہے ‘جو سخت سزا کے متقاضی ہیں۔ ‘‘ مسٹرملکن‘ جسے انتہائی ماہر اور مہنگے وکلاء کی معاونت حاصل تھی‘ نے زیادہ سنگین الزامات والے کیسز کا سامنا کرنے کی بجائے اعترافِ جرم میں ہی عافیت جانی۔بعد میں سنائی جانیوالی کئی کہانیوں کے برعکس اس کیخلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ‘کیونکہ وہ کئی بڑے بڑے معاہدوں کا حصہ رہ چکا تھا۔اس پر ا س لیے فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی‘ کیونکہ سیونگزاور لون انڈسٹری بری طرح تباہ ہو چکی تھی(اگرچہ ملکن کی جنک بانڈز کی ڈیلنگ نے بعض اداروں کی بربادی میں براہِ راست اپنا کر دار ادا کیا تھا)اس پر ا س لیے بھی الزام نہیں لگایا گیا تھا‘ کیونکہ اس کے کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں ہونے والی کساد بازاری نے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کر دیا تھا۔جج نے اسے سزا سناتے ہوئے لکھا تھا ’’شاید اس پر یہ فرد جرم اس لیے عائدکی گئی تھی‘ تا کہ ہماری مالیاتی مارکیٹس جہاں وہ لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ جو زیادہ امیر نہیں ہوتے‘ انہیں ان خفیہ حربوں اور چالوں سے آزاد کرایا جا سکے۔‘‘ جب ملکن کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی تو وہ کمرہ عدالت کے باہر ہی بے ہوش ہو گیا۔
ملکن کی قانون شکنی کا سلسلہ اعتراف جرم اور قید کی سزا کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوا۔اس کی سزا پوری ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے کہ پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہونے پر اسے رہا کر دیا گیا‘ مگر اس پر عمر بھر کے لیے کسی قسم کی ڈیل کرنے کی پابندی عائد کر دی گئی۔یہ پابندی بھی اسے 1996ء میں اپنے دوست اور پرانے موکل ٹیڈ ٹرنر کی طرف سے CNNکی 7.5ارب ڈالرز میں ٹائم وارنر کو فروخت کرنے کے لیے مذاکرات سے نہ روک سکی ‘جس کے لیے ملکن نے پچاس ملین ڈالرز فیس وصول کی تھی۔اس نے اپنے ایک اور ارب پتی دوست Ronald O Perelmanکے لیے بھی کام کیا تھا۔ 1998ء میں ملکن سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی شکایت ختم کرانے کے لیے 47ملین ڈالر ادا کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا ‘کیونکہ اس نے پابندی کی خلاف ورزی کی تھی۔اس نے خو دپر لگنے والے اس الزام کا کبھی اعتراف کیا نہ اس کی تردید کی۔اس کی رہائی کے بعد حکومت نے اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے فوجداری تحقیقات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا۔ملکن کے دولت مند اور مقتدر دوست سال ہا سال سے اس کی طرف سے معافی کا مطالبہ کر رہے تھے ‘مگر ڈونلڈٹرمپ کے الیکشن تک اس معافی کے دور دور تک بھی آثار نظر نہ آئے؛حتیٰ کہ صدربل کلنٹن جنہیں بطور صدر ٹیکس ادائیگی کی خلاف ورزی کرنے والے مارک رچ کی بدنام زمانہ سرگرمیوں کو معاف کرنے کا جواز مل گیا تھا‘انہوں نے بھی ملکن کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا۔جب تک منگل کے دن ڈونلد ٹرمپ کی طرف سے اسے معافی نہیں دی گئی‘ مجھے ا س با ت کی امید تھی کہ میں ملکن کے بارے میں آخری بار لکھوں گا۔ وہ میری کتاب Den of Thievesکا ایک اہم کردار تھا‘ جس میں ملکن اور اس کے شریک جرم دوست Ivan Boeskyکے عروج و زوال کی کہانی بیان کی گئی ہے۔(بوئیسکی ہی وہ شخص تھا‘جس نے ملکن کو ان جرائم میں ملوث کیا اور پھر حکومت کے ساتھ بھی اس نے پورا تعاون کیا تھا۔اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ڈونلد ٹرمپ اسے بھی معاف کر دیں گے)۔
1991ء میں میری کتاب شائع ہونے کے بعد ملکن کے ایک سابق وکیل مائیکل آرم سٹرانگ نے میرے ‘میرے ریسرچ اسسٹنٹ اور میرے پبلشر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تھا ‘جس میں اس نے ہتک عزت پر 35ملین ڈالر ز ہرجانے کا دعویٰ کر دیا تھا اور اس مقدمے کے سارے اخراجات ملکن اور اس کے بھائی نے برداشت کیے تھے۔(دس سال کی طویل مقدمے بازی کے بعد آخر کار ہم یہ مقدمہ جیت گئے تھے)۔میں نے ایک مرتبہ پھر جب ہمارا یہ کیس زیر التوا تھا‘ مسٹر ملکن کے بارے میں ’’نیو یارکر‘‘ میں ایک آرٹیکل لکھا‘ جس میں اس کے جیل میں جانے کے بعد ڈیل کرنے کو موضوع بنایا گیا تھا۔ یوں لگتا ہے کہ ا س کے بعد سے ملکن اپنی اربوں ڈالر کی دولت سمیٹنے میں مصروف ہے؛ حالانکہ اس نے اس میں سے 600ملین ڈالرز جرمانہ بھی ادا کیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ خیراتی سرگرمیوں کی مدد سے اپنی شہرت کی بحالی میں بھی مصروف ہے ‘جس میں اسے دیگر کئی رپورٹرز کا تعاون بھی حاصل ہے۔1998ء کی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت اوراسے دوبارہ جیل بھیجنے کی دھمکی کار گر ثابت ہوئی ہے اور جہاں تک میرا علم ہے۔ اب ‘ملکن دوسروں کے لیے ڈیل میکنگ سے گریز کرتا ہے۔اچھے کاموں کی وجہ سے ایک متاثر کن ریکارڈ رکھنے پر وہ کریڈٹ کا مستحق ہے۔ڈونلڈٹرمپ کی طرح ملکن نے بھی یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے وہارٹن اسکول سے بزنس سٹڈیز میں ڈگری لی تھی ‘مگر نیو یارک کی اشرافیہ نے اسے بری طرح مسترد کر دیا تھا۔ملکن کے ابتدائی کلائنٹس ایسے کارپوریٹ ریڈرز Corporate Raidersتھے ‘جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی فرموں Goldman Sachs یاMorgan Stanleyکے زیر عتاب تھے۔مسٹر ملکن اور ا س کی جنک بانڈز کرنے کی دھاک اور مہارت کو تخریبی فورسز کے طور پر دیکھا جاتا تھا‘ جو کہ وال ا سٹریٹ والوں اور کارپوریٹ امریکا کے لیے ایک خطرہ تھیں‘ بالکل جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں آکر سب کچھ الٹ پلٹ ڈالا ہے؛بلا شبہ ملکن کو سال ہا سال تک تحقیقات اور بری پبلسٹی کے دلدل میں گھسیٹا گیاتھا۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب اسے ڈونلڈٹرمپ کے مشہور و معروف وکیل ایلن ڈرشو وٹز کے طور پر پیش کیا گیا‘ ( جس نے ایک مرتبہ نیو یارک ٹائمز کے ایک اشتہار میں مجھے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا) ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل روڈلف جولیانی نے ملکن کے حوالے سے حیران کن پینترے بدلے ہیں۔ایک موقع پر وہ ملکن کے خلاف سب سے بڑے مدعی تھے اور دوسرے موقع پر وہ ملکن کے سب سے بڑے حامی اوراسے معافی دلوانے کی وکالت کر رہے تھے۔ایک متمول اور بارسوخ شخص ہونے کے باوجود ایک مغلوب اور ہارے ہوئے ملکن نے اپنے بارے میں بڑی کامیابی سے یہ تاثر پیدا کیا کہ وہ در حقیقت میڈیا اور وال سٹریٹ کی ایسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب ہیں ‘جو ان کی دولت اور کامیابیوں سے حسد کرتے ہیں۔گو کہ ا ن کا یہ موقف کسی ٹھوس بنیاد پر استوار نہیں ہے‘ مگر اس کے درست ہونے پر اب صدارتی مہر ثبت ہو چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔