وجود

... loading ...

وجود

قائداعظم بھارتیوں کو گاندھی، نہرو، آزاد سے بہتر جانتے تھے

پیر 02 مارچ 2020 قائداعظم بھارتیوں کو گاندھی، نہرو، آزاد سے بہتر جانتے تھے

تاریخ ہمیشہ حادثات سے بنتی ہے لیکن جہاں تک تقسیم ہند کا تعلق ہے تو یہ محض حادثے تک محدود نہیں بلکہ مسلسل اور انتھک جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا، قائداعظم محمد علی جناح، گاندھی، آزاد، نہرو کے ذکر میں کاش کا لفظ بار بار سنائی دیتا ہے کاش ایسا ہوتا، کاش یہ نہ ہوتا، کاش یہ ہوجاتا اور پاک و ہند میں یہ کاش بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ قائداعظم محمد علی جناح اپنے ہم عصر میں ہندوستانیوں کو سب سے بہتر جانتے تھے، وقت نے نہ صرف قائداعظم کو سچا ثابت کردیا بلکہ بہت سے نام نہاد دانشوروں کے منہ پہ بھی کالک مل دی، حسین حقانی و ہم خیال دانشوروں، صحافیوں اور بہت سے سیاستدانوں کے سارے ڈرامے تاویلیں دلیلیں بے معنی ہو کر رہ گئیں، آج نہ کسی دلیل کی ضرورت ہے نہ حوالوں کی، نہ تاریخ کے اوراق پلٹنے کی نہ ہی کتب خانوں کی خاک چاٹنے کی، یہ وقت اور حالات ثابت کررہے ہیں کہ نہ صرف دو قومی نظریہ درست تھا بلکہ نظریہ پاکستان کی اساس بھی یہی ہے،بھارتی دارلحکومت میں ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، املاک لٹیں صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں، نہ تو یہ پہلی بار ہے اور شاید نہ ہی آخری بار، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ شروع سے ہی متعصبانہ رویہ اپنایا جاتا رہا ہے، شروع سے ہی مسلمانوں سے نفرت اور اسلام مخالف نفرتوں کو اُبھارا جاتا آرہا ہے، ہندوتوا مائنڈسیٹ کے اصل چہرے کو بھانپ کر ہی قائداعظم یہ کہنے پہ مجبور ہوئے کہ ہندو مسلم دو علیحدہ قومیں ہیں۔

نہرو نے کہا تھا کہ ”There is two forces in India, British Imperialism & Indian Nationalism” جس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ نہیں تیسری قوت مسلمان بھی ہیں اور ہندو مسلم دو علیحدہ قومی اکائی ہیں اسی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا، آج اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی منقولہ یا معقولہ حوالے کے سہارے کی ضرورت نہیں بھارت کے داخلی حالات ثابت کررہے ہیں کہ ہندو مسلم دو علیحدہ قومیت ہیں، مسلمان بارہا خود کو ہندوستانی ثابت کرواتے آرہے ہیں بقول عمران پرتاپ گڑھی کہ ”بھارت دیش میں ہندوتوا والے مسلمانوں کو تسلیم نہیں کرتے انڈو پاک میچ ہو تو مسلمانوں کو وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے بارڈر پر کشیدگی ہو تو مسلمانوں کو مشکوکیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی انہوں نے عزم کیا کہ اب ان سے ہجرت نہیں ہونے والی، مرنا ہے تو لڑ کر مرینگے” ایک وقت تھا کہ قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے جس بنا پر آپ کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب ملا لیکن جلد ہی قائداعظم محمد علی جناح نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندو فطرتاً انتہا پسند ہے اور بھگوا راج کے خواب سجائے بیٹھا ہے شدھی و سنگھٹن کی تحریکیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جہاں سے ہندو مسلمانوں کے مابین خلیج بڑھتی چلی گئی اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح نے پھر بھی کوشش کی دہلی تجاویز اس ضمن میں اہم ہیں جسے گاندھی اور نہرو نے تو تسلیم کرلیا لیکن انتہا پسند ہندو عناصر سے ہضم نہ ہوا اور پھر 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ رویہ انتہائی مایوس کن رہا جن پر پیرپور رپورٹ، فضل حق رپورٹ اور شریف رپورٹ موجود ہیں اس کے بعد ہندو مسلم خلیج کو عبور کرنا قائداعظم محمد علی جناح کے لیے بھی ممکن نہ رہا، تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مقیم رہنے والے مسلمان آج تک اسی ناروا سلوک کا سامنا کرتے آرہے ہیں اور اب جب بھگوا راج نافذ ہوا ہی چاہتا ہے تو بھارت کے مسلمان یہ کہنے پہ مجبور ہیں قائداعظم محمد علی جناح ٹھیک تھے یہاں تک کہ بھارتی سیکیولر ہندو بھی کہنے پہ مجبور ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندو حضرات کو گاندھی اور نہرو سے زیادہ بہتر جانتے تھے، دوسری طرف پاکستان میں پروپیگنڈہ بریگیڈ کی ساری جھوٹی و من گھڑت تاویلیں ختم ہوگئیں کہ بھارتی حالات کو دیکھ کر بچہ بچہ کی زبان پر فیاض ہاشمی کا یہ نغمہ ہے کہ ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر