... loading ...
’’کیا آپ یقین کریں گے کہ صرف شتر مرغ کا انڈا ہی پاکستان کے سارے قرضے اُتارسکتا ہے‘‘۔ ہال میں میں راجہ طاہر لطیف کے اِس جملہ کے گونجنے کی دیر تھی کہ وہاں بیٹھا ہوا ہر شخص ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ، سوائے مجھ جیسے اکا ،دکا سست ترین افراد کے جو ابھی تک اِسی شش وپنچ میں ہی مبتلا تھے کہ آیا راجہ طاہر لطیف نے شتر مرغ کا انڈا ہی کہا ہے یا کچھ اور ، کہ جسے شاید ہم پوری طرح سے سُن نہ سکیں ہوں۔ لیکن جب راجہ طاہر لطیف نے چند ثانیہ کی معنی خیز خاموشی کے بعد دوسری بار بھی یہ ہی جملہ دہرایا تو پھر آخر کار ہمیں بھی ساری سستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی اپنی نشستوں پر سیدھا ہوکر بیٹھنا ہی پڑا، تاکہ معلوم ہوسکے کہ راجہ طاہر لطیف کیسے صرف شتر مرغ کے انڈے سے پاکستان کا سارا قرضہ اُتارنے کا عجیب و غریب قسم کا دعویٰ کر سکتے ہیں ۔
راجہ طاہر لطیف کو میں 1998 سے جانتاہوں اور یقینا ہماری مختصر سی زندگی میں اِتنا وقت کسی کو بھی پرکھنے اور سمجھنے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی جن چند لوگوں نے اپنے تخلیقی طرزِ عمل اور منفرد ہنرمندی سے مجھے بے حد متاثر کیا ہے اُن میں راجہ طاہر لطیف کا نام سرِفہرست ہے۔ راجہ طاہر لطیف مکمل طور پر ایک عملی انسان ہیں ، کسی بھی آئیڈیے یا خیال کی عملی صورت گری کرنا اِن کے لیے کبھی بھی مشکل نہیں رہا ۔ایسا ہی ایک خیال پاکستان میں شتر مرغ کی فارمنگ کا بھی تھا ، جسے دو دہائیوں قبل جب راجہ طاہر لطیف کی زبان سے پہلی بار سناتھا تو ذرہ برابر بھی یقین نہیں تھا کہ اِسے عملی جامہ پہنانا بھی ممکن ہوسکتا ہے۔مگر آج جب کہ ہم چند دوست پاکستان آسٹرچ کمپنی کے ایک بڑے سے پر ہجوم ہال میں بیٹھ کر شتر مرغ فارمنگ کے ایک بین الاقوامی معیار کے ادارہ کی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے کی کہانی خود اُن کی ہی زبانی سُن رہے تھے تو یقین مانئے راجہ طاہر لطیف کی عملیت پسندی کی خداد داد صلاحیت پر رہ رہ کر رشک آرہا تھا۔
شتر مرغ د نیا میں پایا جانے والا سب سے بڑا پرندہ ہے جو اُڑ نہیں سکتا ،لیکن یہ ہی پرندہ اگر چاہے تو کسی بھی ملک کی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک اُڑا کر لے جاسکتاہے مگر کیسے؟ یہ جاننے کے لیے سب سے پہلے آپ کو شتر مرغ فارمنگ کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہئے ۔ شتر مرغ فارمنگ کا آغاز آج سے 150 سال پہلے جنوبی افریقہ میں ہوا۔ پہلے پہل شتر مرغ فارمنگ محض ،پروں کے حصول اور گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کی جاتی تھی ۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ،ویسے ویسے دنیا بھر میں شتر مرغ کی فارمنگ میں بھی جدت آنے لگی اور آج کل شتر مرغ کے صرف پراور گوشت ہی نہیں بلکہ اُس کے وجود کا ہر حصہ انسان اپنے متنوع تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال میں لا رہا ہے ۔ جیسے شتر مرغ کے انڈوں کے خول سے مختلف طرح کی انٹریئر ڈیکوریشن کی اشیاء بنائی جاتی ہیں جبکہ شتر مرغ کی کھال کا بنا ہوئے چمڑا،انتہائی قیمتی قسم کی گھریلو مصنوعات بنانے میں استعمال ہوتاہے۔ اس کے علاوہ شتر مرغ کی چربی سے طبی تجربہ گاہوں میں ایک خاص طرح کا آئل بھی تیار کیا جاتا ہے ،جسے مختلف انسانی امراض میں شفایابی کے لیے استعمال کیا جاتاہے ۔چونکہ اِن تمام مصنوعات کے اصل صارف ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے ہیں ،اس لیے شتر مرغ کی فارمنگ کو دنیا بھر میں ایک بے حد مفید اور منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔
شتر مرغ فارمنگ کی اِس بیش بہا تجارتی افادیت کی وجہ سے دنیا کے کم وبیش 100 ممالک میں شتر مرغ کی فارمنگ کی جارہی ہے ۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں شتر مرغ کے گوشت کی قیمت 20 سے 25 یورو فی کلو گرام ہے ۔جبکہ ایک شتر مرغ سے اوسطاً 70 کلوگرام گوشت باآسانی حاصل ہوجاتا ہے ۔شتر مرغ کے چمڑے کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 25 سے 30 ڈالر فی اسکوائر فٹ ہے ۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق شتر مرغ فارمنگ میں جنوبی افریقہ سرفہرست ہے اور شتر مرغ کی عالمی مارکیٹ میں اِس کا حصہ 75 فیصد تک بنتا ہے ۔ جنوبی افریقہ میں سالانہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ شتر مرغ ذبح کیے جاتے ہیں اور اِن کا گوشت ،چمڑا ،پر اور انڈے کے خول زیادہ تر یورپی ممالک کو برآمد کردیئے جاتے ہیں ۔ شتر مرغ کے بڑے خریدار جرمنی ، بلجیم ،فرانس ، ہالینڈ، اور سوئزرلینڈ ہیں ۔اس کے علاوہ ایشیا میں شتر مرغ کی فارمنگ میں ایران کا مقام سب سے نمایا ں ہے۔
جیسا کہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستانی سرزمین کو لائیو اسٹاک کے لیے دنیا بھر میں ایک مثالی جگہ کا درجہ حاصل ہے ۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے ہماری زیادہ تر لائیو اسٹاک ہماری اپنی ضروریات تو بحسن و خوبی پوری کرتی ہیں لیکن زرمبادلہ کمانے میں ہماری لائیو اسٹاک کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اِس تفاوت کو دور کرنے کے لیے پاکستان میں کمرشل شتر مرغ فارمنگ کو فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ شتر مرغ کا گوشت ،کھال ،انڈے ،چربی وغیر ہ کو دنیا بھر میں انتہائی مہنگے داموں باآسانی بیچا جاسکتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ2016 میں حکومت ِ پنجاب نے پاکستان آسٹرچ کمپنی کے ساتھ مل کر باقاعدہ سرکاری سطح پر شتر مرغ کی فارمنگ کے ایک عظیم الشان منصوبہ کا آغاز بھی کیا تھا۔ جس کے تحت حکومت پنجاب، شتر مرغ کی فارمنگ کا آغاز کرنے والوں کو خصوصی سبسڈی فراہم کرتی تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے شتر مرغ کی فارمنگ کے لیے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ سرکاری فارمز بھی بنانا شروع کردیئے تھے ۔ مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ بہت تھوڑے عرصے ہی جاری رہ سکا اور اِس منصوبہ کو بھی سیاسی کشمکش اور پرخاش کی نظرِ بد لگ گئی۔ کیونکہ اِس منصوبہ کے اصل روحِ روں سابق سیکریٹری لائیو اسٹاک پنجاب صادق نسیم تھے اور اِن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تھا ۔لہٰذا پنجاب میں تحریک انصاف کی قائم ہونے والی نئی حکومت نے یہ سوچے سمجھے بغیر کے پاکستان میں شترمرغ کی فارمنگ پاکستانی معیشت کو کس قدر زرِ مبادلہ کما کر دے سکتی ہے ۔ فوری طور پر یہ منصوبہ بند کرنے کا حکم نامہ جاری کر کے وطنِ عزیز میں شتر مرغ فارمنگ کے مستقبل کو ایک بار پھر سے تاریکی کے گہرے اندھیروں کی جانب دھکیل دیا۔
بہرحال سرکاری سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد بھی راجہ طاہر لطیف تن تنہا پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کے فروغ کے لیے پوری تن دہی کے ساتھ مصروف عمل رہے ہیں اور اَب تک صرف پنجاب بھر میں 100 سے زائد بین الاقوامی معیار کے شتر مرغ فارم قائم کرواچکے ہیں ۔ لیکن یہ سب کے سب فارمز اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی حیثیت میں قائم کیے گئے ہیں اور اِن فارمز سے بہت سے ممالک جیسے قازقستان ، تاجکستان اور ترکمانستان جیسے ممالک میں شتر مرغ کا گوشت ،پر ،کھال، چربی وغیرہ برآمد بھی کیا جارہاہے ۔ مگربغیر سرکاری اعانت کے شتر مرغ فارمنگ کے اِس منصوبہ کا دائرہ کار پورے پاکستان میں کسی صورت نہیں پھیلایا جاسکتا۔ اِس لیے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے گزارش وہ اپنے وژن کے مطابق جس طرح گائے ،بھینس،بکری، دیسی مرغی وغیرہ دیہی آباد ی کو کاروباری خود کفالت کی مد میں فراہم کررہے ،بالکل عین اسی طریق پر شتر مرغ کی فارمنگ کی سمت بھی خصوصی توجہ فرمائی جائے تاکہ پاکستان کی لائیو اسٹاک ملکی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے کثیر زرِ مبادلہ کمانے کا باعث بھی بن سکے۔ اگر ایساممکن ہوجائے تو بلاشبہ شتر مرغ کے انڈے مسقتبل میں پاکستانی معیشت کے لیے سونے کے انڈے قرار پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔