... loading ...
میں احسان اللہ احسان کے فرار ہونے پر اتنا حیران نہیں ہوا، جتنا لوگوں کی حیرانی نے مجھے حیران کیا۔ اس معاملے کی حقیقت توجلد سامنے آجائے گی۔لیکن پھراس معاملے پر قبل وقت ہوئے بے تحاشہ تبصروں کو کیا نام دیا جائے گا۔شاید انہیں پھرمٹی پاؤ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے گا۔لیکن الزامات اورشکوک کے دھندلکے کے پاردیکھنے کے لیے کچھ حقیقتوں کا ادراک بھی بہت ضروری ہے۔اور اس معاملے سے جڑی تین حقیقتیں ایسی ہیں ، جن کے بارے میں پہلے جاننا بے حد ضروری ہے،قبل اس کے، کہ آپ اس پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوشش کریں۔۔
چلیں پہلے اس آڈیو پیغام کا جائزہ لے لیں ، جس میں مبینہ احسان اللہ احسان اپنے فرار کا دعویٰ کررہا ہے۔تاحال آزاد ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ مذکورہ پیغام میں موجود آواز احسان اللہ احسان کی ہے یا نہیں۔تاہم سوشل میڈیا پر شئیر کیے گئے،اس آڈیو کے بارے میں کچھ لوگ اس آڈیو کی تحقیق میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کررہے،اورہلے جلے بغیرمان رہے ہیں کہ یہ احسان اللہ احسان ہی ہے۔خیر احسان اللہ احسان کے مبینہ آڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے بعد اس نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا تھا۔مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ اس نے تین برسوں تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن اس کے باوجود ان کو اور ان کے بیوی بچوں کو رہائی نہیں مل سکی۔اس لیے وہ اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوا۔اور 11 جنوری کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
تو یہ تھی وہ پہلی حقیقت اور وہ آڈیو کلپ جس پر بھی ماضی میں سوشل میڈیا پر ‘‘لاکھوں تجزیہ کاروں’’ نے اپنی ماہرانہ رائے دینا شروع کی۔دوسری بات یہ ہے کہ احسان اللہ احسان سنگین جرائم کا ملزم ہے، اس کے فرار کے حوالے سے ابھی تک واضح سرکاری ردعمل تو سامنے نہیں آیا۔ تاہم مقامی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے سرکاری موقف ضرور پیش کیا ہے، جس کے مطابق ‘‘ احسان اللہ احسان ایک حساس آپریشن کے دوران فرار ہوا، اسے اپنے جرائم کی سزا ملنا تھی۔ احسان اللہ احسان نے2017 میں رضاکارانہ طور پر خود کو انٹیلی جنس اداروں کے حوالے کیا، احسان اللہ احسان نے سرنڈر کرنے سے قبل ہی حساس معلومات فراہم کرنا شروع کردی تھیں۔ابتدائی تفتیش کے بعد احسان اللہ احسان نے 26 اپریل 2017 کو اعترافی بیان دیا جس میں اس نے اپنے ہینڈلرز اور سہولت کاروں کو بینقاب کیا تھا۔تفتیش کے دوران احسان اللہ احسان کی معلومات پر سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے کئی نیٹ ورک توڑے اور بہت سے دہشت گردوں کوپکڑا گیا۔آپریشنز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ان اہم معلومات کا حصول ضروری تھا، اور ان حاصل کردہ معلومات کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف کچھ آپریشنز تاحال جاری ہیں ’’۔
ذرائع کے حوالے سے اس سرکاری بیان کے بعد اس معاملے سے جڑی تیسری بڑی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے تین سال ماضی میں چلتے ہیں، جانتے ہیں احسان اللہ احسان نے اپریل 2017 کے بیان میں کیا کہا تھا۔احسان اللہ احسان نیاس بیان میں اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کررہا تھا،اس اعترافی بیان کی ویڈیو میں اس نے اپنا اصلی نام لیاقت علی بتایا تھااور کہا تھاکہ اس کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔احسان اللہ احسان کے مطابق اس نے زمانہ طالب علمی ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وہ بعد میں تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کا ترجمان بن گیا تھا۔ویڈیو بیان میں احسان اللہ احسان نے طالبان کے ساتھ اپنے دس سال کے تجربے کی بنیاد پر صاف کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان اسلام کے نام پر لوگوں کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے۔ طالبان رہنما خود اپنے نعروں اور دعوؤں پر پورا نہیں اترتے۔اس نے اعتراف کیا تھا تحریک طالبان پاکستان کے زریعے افغان خفیہ ادارہ این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسی ‘را’ پاکستان میں دہشت گردی کے اہداف مقرر کرتے ہیں۔اس دہشت گردی کے بدلے ٹی ٹی پی کو معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔
احسان اللہ احسان کے اس انٹرویو کے الفاظ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اب بدلا ہوا انسان تھا جو اپنے ماضی کے برعکس کوئی کردار ادا کرنا چاہتا تھا۔چنانچہ ایسے معاملے پرتبصرے کم اور محدود پیرائے کے متقاضی تھے۔لیکن اس وقت بھی اس سارے معاملے پراحساس ذمہ داری کو پرے رکھ کر زیادہ تبصرے کیے گئے تھے۔اس معاملے میں ایک اور تازہ پیش رفت یہ ہے کہ پیر دس فروری کے روزسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے وزراتِ داخلہ سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرارکی تفصیلات 3 دن میں طلب کرلی ہیں۔کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے یہ تفصیلات نون لیگی سینیٹرجاوید عباسی کیتوجہ دلاؤ نوٹس پرطلب کی ہیں۔احسان اللہ احسان کے فرار کے معاملے پرسرکاری موقف جلد سامنے آنے کی امید ہے۔ذمہ دارانہ روئیے کا تقاضہ ہے کہ صورتحال واضح ہونے تک اس بارے میں بیان بازیوں سے گریز کیا جائے۔غلط فہمیوں کا پھیلانا اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔