... loading ...
شبر زیدی بھی رخصت ہوئے! شاعر نے کہا تھا:جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا !! موصوف اقوال تو حضرت علیؓ اور مالک بن اشترکے سنایا کرتے، مگر عمل ، عمل !! تاریخ کا وہ چمکتا فقرہ ادھورا چھوڑتے ہیں، جس میں کہا گیا تھا : دل علیؓ کے ساتھ مگر تلواریں ۔۔۔۔ شبر زیدی میں کیا خوبی تھی، باتیں خوب بناتے تھے۔ اب اُنہیں رخصتی کا ایک آبرومندانہ جواز بھی چاہئے! ہر ایک کو درکا ر ہوتا ہے۔ نہیں بھائی، صرف بیماری نہیں۔ کوئی دن جائے گا کہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے ساتھ اُن کے اختلافات کی ایک کہانی منظرعام پر آئے گی۔ پھر موصوف کو اپنی دنیا میں واپس آنا ہے جہاں اُنہیں تاجر طبقوں کے غلط سلط ہندسوں کا بھار اُٹھانا ہے۔ جس ایف بی آر سے پلٹے ہیں اُنہیں اپنے گاہکوں کے لیے غچہ دینا ہے، چنانچہ وہ اپنی رخصتی کی کہانی میں تاجر طبقے کے ساتھ زیادتیوں کا تڑکا بھی لگائیں گے۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ آگے بھی دور دور تک کچھ بدلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
وزیراعظم عمران خان کی نگاہیں اُن پر پڑیں۔ پھر عمران خان نے وہی کیا جو وہ کرتے ہیں۔ ان کی خوب تعریفیں کیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں ایف بی آر میں تبدیلی کے نعرے کو حقیقت میں ڈھالنے کا راستا بتا دیا۔ ان کے ذریعے خزانہ بھر جانے کی نوید جاں فزا سنادی۔ یہ وہی صاحب تھے، جو شوکت خانم کے آڈٹ کا اپنی فرم کے ذریعے بوجھ اُٹھاتے تھے۔عمران خان نے کوئی ’’خوبی‘‘ تب پائی ہوگی۔مسئلہ صرف اتنا نہیں۔ کسی بھی شعبے میں عمران خان کی کوئی مہارت ثابت نہیں ہورہی۔ اور اُن کی ٹیم میں دور دور تک کوئی ایک بھی فرد ایسا دکھائی نہیںدیتا جو ہماری مایوسیوں کی تیرہ تر، دراز تراور محیط تر رات کو صبح آئندہ کا سورج دکھا سکے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ شبر زیدی نے رخصت چاہی جب آئی ایم ایف کا ایک وفد صرف دو دن بعد پاکستان پہنچا۔عالمی اداروں کے سازشی ٹولے دنیا کی ترقی پزیر اور تیسری دنیا کی معیشتوں کو انتہائی بے رحمی سے نشانا بناتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات اب اتنا مخفی نہیں رہا۔ جان پرکنز نے اپنی دومعرکتہ آلارا کتابوں ’’کنفیشن آف این اکنامک ہٹ مین‘‘ اور ’’دی سیکرٹ ہسٹری آف ڈی امریکن امپائر‘‘ میں راز فاش کردیے۔ یہ کتابیں ہمیں ملکی واقعات کو سمجھنے کا ایک درست تناظر فراہم کرتی ہیں۔ عالمی اداروں کے نشانے پر رہنے والے کسی بھی ملک میں اکنامک ہٹ مین یا اقتصادی غارت گر کیسے بروئے کار آتے ہیں؟یہ پیشہ ور افرادملکوں کو اُن کی اپنی معیشت کی طاقت سے کیسے محروم کرکے حاشیہ بردار رکھتے ہیں؟کیسے یہ غارت گر ملکوں کے منافع کا ستیاناس کرتے ہیں اور اسے عالمی اداروں کے کھاتوں میں منتقل کرتے ہیں؟اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یہ ہر چیز کرتے ہیں۔ اس کے لیے جعلی مالیاتی رپورٹیںتیار کی جاتی ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے مرضی کی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔اس میں استحصال کا ہر طریقہ رو اہوتا ہے۔ جنسی ترغیبات ، رشوت، یہاں تک کہ قتل وغارت گری کو بھی اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے جائز سمجھا جاتا ہے۔ جان پرکنز نے اپنی پہلی کتاب میں منکشف کیا ہے کہ ایکواڈور کے صدر رولڈوس اور پناما کے صدر عمر توری جوس کو خوفناک فضائی حادثے میں اس لیے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ کارپوریٹ ٹولے اور بینکنگ سربراہوں کے ساتھ اپنی حکومتوں کے گٹھ جوڑکے مخالف تھے۔ درحقیقت اپنی ہی ’’حکمت عملیوں‘‘ سے پیدا ہونے والی’’ خرابیوں ‘‘کو دور کرنے کے لیے یہ اپنے ہی ’’بندوں‘‘ کو اپنے زیرِ ہدف ملک میں تعینات کراتے ہیں۔ پھر ان’’ خرابیوں ‘‘کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے بہانے یہ نئی نئی ’’خرابیوں ‘‘ کی افزائش کرتے ہیں۔ اور معیشت کو ایک ایسے منحوس گرداب میں دھکیل دیتے ہیں، جہاں ہر معاشی تدبیر ایک دائرہ کاٹ کر اُسے واپس’’ قرضے ‘‘ کے حل پر دھکیلتی اور رقوم کو ایک ہاتھ سے دے کر واپس اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں نے اسی طرح ’’ہاتھ‘‘ کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی سب سے فاش غلطی یہ تھی کہ اُنہوں نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو قبول کیا۔ اُدھار لیے گئے یہ معاشی منیجرز درحقیقت جان پرکنز کے’’ اکنامک ہٹ مین‘‘ہیں۔ وزیراعظم پورا دن بے نتیجہ اجلاسوں میں کھپاتے ہیں، وہ پاکستان کے کسی بھی ماہر اقتصادیات کے ساتھ دس منٹ کی ایک نشست تو کر ہی سکتے تھے جو اُنہیں بتاتا کہ کس طرح عبدالحفیظ شیخ نے ماضی میں معیشت کو قرضوں کی دلدل میں خاموشی سے دھکیلا ہے۔ اسلام آباد میں کسی بھی بیوروکریٹ سے معلوم کیا جائے تو وہ بتاتا ہے کہ ملکی تعمیر کی کسی بھی پالیسی پر اُن کی توجہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ وہ ایک ’’مہمان اداکار‘‘ کے طور پر بروئے کار رہتے ہیں۔ اور صرف عالمی مفادات سے وابستہ معاشی دائروں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات وزیراعظم عمران خان کو اب بھی سمجھ نہیں آئی تو کب آئے گی؟گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر تو ایک قومی شرم کی طرح ملک میں آئے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ مصر سے بلائے گئے اس مہمان فنکار کی خود مصر میں’’ کارکردگی‘‘ پر بھی ایک نظر نہیں دوڑائی گئی کہ کس طرح موصوف نے وہاں افراطِ زر میں اضافہ کیا اور مقامی کرنسی کا بیڑہ غرق کیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئر مین ایف بی آر کی تعیناتیاں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو مقرر کرنے کے فوراً بعد عمل میں آئی تھیں۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ ان تینوں مناصب پر تقرریاں کرتے ہوئے پاکستان نے اپنے قومی وقار کا ذرا بھی لحاظ نہیں کیا۔ ان تینوں مناصب پر تعینات طارق باجوہ ، جہانزیب خان اور اسد عمر کو تب اُٹھا کر پھینکا گیا جب وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ایک حتمی دور میں داخل ہو رہے تھے۔ اچانک وزیر خزانہ کے منصب سے پہلے اسد عمر کو فارغ کیا گیا اور پھر باقی دومناصب پر بھی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ سوچ کا کسی عمل سے ہمارا کوئی علاقہ نہیں۔ بس الل ٹپ اقدامات اور عالمی اداروں کے احکامات پر ہمارا گزارا ہے۔ ریاست جتنا وقت پاکستانی شہریوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں خرچ کرتی ہے، اگر اس کا نصف بھی معاشی خودمختاری حاصل کرنے پر صرف کرے تو آئی ایم ایف کا وفد یوں دندناتا پھرے نہ پاکستان کو عبدالحفیظ شیخ اور باقر رضا جیسے لوگوں کو بھوگنا پڑے اور نہ ہی شبر زیدی ایسے لوگوں کے نام پر ’’چورن‘‘ بیچنے کی ضرورت پڑے۔ قومی ریاستوں میں سیاسی بحرانوں کی جڑیں اکثر معاشی ناہمواریوں کی زمین میں پیوست نکلتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معاشی خود کفالتی کے بغیر سیاسی آزادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔ پاکستان کو اپنے سیاسی ارادے کو بے قید کرنا ہے تو ایک معاشی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے موجودہ بندوبست تو ہر گز موزوں نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے پاس اپوزیشن کے ہنگام بیچنے کو چورن بہت تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ اُن کے پاس ایک ٹیم ہے۔ یادش بخیر ماضی گزیدگی کے باعث وہ دہراتے کہ کرکٹ میں اُن کی کامیابی دراصل ٹیم کی تشکیل میں اُن کی مہارت کا نتیجہ ہوتی۔ اب آشکار ہے ، سیاست میں اُن کی ناکامی ٹیم کی تشکیل میں ناکامی کے باعث ہے۔ معاشی حوالے سے اسد عمر کی ہی مثال لے لیجیے! تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہی عمران خان نے اگر کسی کانام بطور وزیر مشتہر کردیا تھا تو وہ اسد عمر ہی تھے۔ یہ اُن کی ناکامی تھی کہ وہ اسد عمر کی ناکامیوں اور سیاست میں آنے سے قبل مختلف اداروں میںاُن کی پیدا کردہ خرابیوں سے آگاہ نہیں تھے۔ پھر بھی بطور وزیرخزانہ ان کے نام کا اعلان بار بار کیا گیا ۔ عمران خان چند ماہ میں ہی اُن سے وزارت خزانہ کا استعفیٰ لینے پر مجبور ہوگئے۔ موصوف اپنے دورِ وزارت میں اپنا صدر نیشنل بینک لے کر آئے، مگر نیشنل بینک سے ہرروز سنائی جانے والی بدعنوانیوں کی آوازیں ختم نہیں ہو سکیں۔ ایک بوڑھے شخص کو صرف نوکری سے دلچسپی ہے، وہ تبدیلی کا جوش کیسے دکھا سکتے ہیں۔ چنانچہ ہر روز بینک کے اندر جاری بھدنامے عام ہوتے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ہر دعویٰ جھوٹا، ہر وعدہ کچا اور ہر کھلاڑی ناکام کیوں ہورہا ہے؟ شبر زیدی کی رخصتی نے اس سوال کو اور زیادہ بلند آہنگ کردیا ہے۔ وزیراعظم کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کے طویل دور میںوہ جو چورن بیچتے تھے، وہ اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ آگے کیا کریں گے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔