... loading ...
پاکستان کی سیاست ہمیشہ چوراہے پر پڑی رہتی ہے۔ اس میں کسبی کی حیا اور بے بسی کی وفا ہے۔اس منڈی کا مال منال جس کمتر اور کہتر سطح سے اُبھرتا ہے، اس کی ہر حیثیت کو مشکوک بنادیتا ہے۔چنانچہ سیاست دانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ساکھ کا رہتاہے۔ پاکستان میں اجتماعی سطح پر بندوبست کے لیے اُبھرنے والے تمام سیاسی وغیر سیاسی انتظامات دراصل اپنے بے ڈھنگے پن کے باعث بے وقار اور ناقابلِ اعتبار ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اپنی ڈیڑھ سالہ حکمران سیاست کے بعد اب ایک نئی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں، یہ بھاؤتاؤ کے ساتھ سیاسی انجینئرنگ کا جہاں ہے۔ یہ کھیل سے زیادہ کھلواڑ اور جوڑ توڑ سے زیادہ توڑ پھوڑ کا عمل ہے۔اس میں ساکھ سے زیادہ بساط کی حفاظت اور کردار سے زیادہ اہداف پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ہرگزرتے دن عمران خان اتحادی سیاست سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ اُنہیں سندھ سے ایم کیوایم اور پنجاب سے چودھری برادران کی شکل میں پریشانیاں لاحق ہیں۔ وہ بلوچستان کے بحران پر قابو پانے کے باوجود اتنا تو جان ہی گئے ہوں گے کہ بلوچستان میں بدگمانیاں جلدی ختم نہیں ہوتیںاوردیوارِ اقتدار کی اینٹیں وہاں جلدی اُدھرتی ہیں۔ دسمبر کے اواخر میں جہاں کہیں پر بھی ایک فیصلہ ضرور ہوگیا تھا کہ اب ’’ضمیر‘‘ کی آواز سننے والوں کا ایک گروہ تشکیل دیا جائے، جو اقتدار کی گاتی گنگناتی شاہراہ کو غیر ہموار نہ ہونے دے۔ چنانچہ پنجاب میں نون لیگ کے خلاف ایک مورچہ لگ گیا ہے ،اگرچہ یہ بھیگے پروں کی پرواز اور دھیمے سروں کی آواز ہے ، پھر بھی انجام جانے بغیر اس کا آغاز ہوچکا۔
اقتدار کی سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کا انحصار جس اتحادی سیاست کے رحم وکرم پر ہے، وہ کبھی محبت میں توحید کے قائل نہیں رہے۔کراچی کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر سیاست کرنے والی ایم کیوایم اب اپنے گلے کی حفاظت میں مصروف ہے۔ ایم کیوایم ’’بے قائد‘‘ ہو کر بے قاعدہ بھی ہوگئی ۔ مینڈکوں کو تولنے کا ناممکن کام کرنے والا اپنے ظلم کا حساب چکا رہا ہے۔ اس کے گلے کا نرخرہ اب ٹوٹ ٹاٹ چکا۔سننے والا کوئی نہیں۔ اِدھر ایم کیوایم بھی ایک ہنڈولے کی طرح اوپر نیچے ہورہی ہے۔ اُسے عندلیب کی طرح آہ وزاریاں کرنے کی’’ عیاشی‘‘ بھی میسر نہیں۔ یادش بخیر! ایک زمانہ تھا کہ نائن زیرو پر ہر مرکزی اقتدار کی بلائیں اتاری جاتیں۔ بے نظیر بھٹو کو اپنے اقتدار کا صدقہ یہیں آکر اُتارنا پڑا۔ نوازشریف کے اقتدار کو جب بھی بُری نظر لگتی، کالے بکرے یہیں پر کاٹے جاتے۔ نوے کی دہائی کی سیاست’’ چھانگامانگا‘‘ کے ساتھ’’ بوکاٹا ‘‘کی آوازوں سے جاری رہی۔ مگر اب وقت بدل چکا ہے۔ یہ تو پتہ نہیںکہ بدلا وقت پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر لائے گا یا نہیں، مگر یہ ہنڈولے کے اوپر نیچے ہونے کا سفاک لمحہ ہے۔ وزیر عمران خان کراچی آمد سے پہلے لاہور تشریف لے گئے تو ’’چودھری برادران‘‘ سے نہیں ملے۔ چودھری برادران طاقتوروں کا کھیل کھیلتے کھیلتے خود کو بھی طاقت ور سمجھنے لگے ہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں ، آدمی کو سانپ پال لینے چاہئے ،
غلط فہمی نہیں پالنی چاہئے۔ چودھری پرویز الٰہی کے متعلق خبر عام ہے کہ وہ خود بھی ’’ضمیر‘‘ کی آواز سننے والوں کی تلاش میںہیں۔ وہ چند ووٹوں پر کھڑی پنجاب حکومت کو اپنی ٹھوکر پر رکھنا چاہتے ہیں۔اسپیکر پنجاب اسمبلی کا دفتر ان سرگرمیوں میںصرف ہورہا ہے۔ اس خبر نے عمران خان کے کانوں سے دُھواں نکال دیا ہے۔ عمران خان پہلے سے ناراض بیٹھے تھے، وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میںچودھری برادران کے کردار پر شکوک رکھتے تھے۔ اب ستم بالائے ستم ہو چکا۔ متبادل کی تلاش جاری ہے۔ چنانچہ پنجاب اسمبلی میں ’’حریم زادہ‘‘ کی پھبتی سننے والا وزیرا طلاعات کسی پھنکی میں نہیں کہہ رہا کہ نون لیگ کے پچاس ارکان رابطے میں ہیں۔ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے بھی مشفقانہ اندازاپناتے ہوئے’’ افواہوں ‘‘کی حقیقت کھولی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے 36ارکان اسمبلی حکومت سے رابطے میں ہیں جن میں ایم پی ایز اور ایم این ایز شامل ہیں ۔ یہ ہندسہ اور ایم این ایز کا تڑکا ملک بھر کے اتحادیوں کو یہ نکتہ ’’تعلیم‘‘کرتا ہے کہ
لکد کوب حوادث کا تحمل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کی ناز اُٹھانے کی
عمران خان اب التفات ناز پر مرنے کی سادگی چھوڑنے پر تُلے ہیں۔ اُنہوں نے اتحادی جماعتوں کویہ پیغام خیبر پختونخوا میں خود اپنی ہی جماعت کے عاطف خان ، شہرام ترکئی اور محمد شکیل سے جان چھڑا کردیا ۔ پرویز خٹک نے اپنے مرغے سے بانگ دلا کر صبح کردی ہے۔ اب یہ شام غریباں میں مرثیہ خوانی کرتے ہیںاور عمران خان صبح وحشت کے مسافر ہیں۔عمران خان کے فیصلے کا پیغام واضح تھا۔ پھر وہ پنجاب کے دارالحکومت تشریف لے گئے تو چودھری برادران سے ملاقات نہ کرکے ناز نخرے نہ اُٹھانے کا فیصلہ بھی عریاںکردیا۔ اب کراچی کا رختِ سفر باندھا تو ایم کیوایم کہیں دور دور تک دکھائی نہ دی۔ایم کیوایم شکیل بدایونی کو یاد کرتی رہ گئی کہ
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی
عمران خان کے اس رویے سے یہ سوال تو جنم لیتا ہے کہ محض چند ووٹوں پر ٹکی حکومت اتحادیوں سے اتنی لاپروا کیونکر ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ حکومت اپنی طاقت کا راز جانتی ہے اور اپنا سکہ بٹھائے رکھنے کے لیے سیاسی منڈی میں رائج سکوں کو بھی پہچانتی ہے۔ پھر کیا مول تول ، بھاؤ تاؤ کا زمانہ آگیا۔ سیاسی انڈیکس اسی کا اشارہ کررہا ہے۔ سیاست دان ایک ایسی مخلوق ہے جنہیںبرائے فروخت کہنا اُن کی عزت افزائی محسوس ہوتا ہے۔ کسی نے کہا تھا: کچھ لوگ پارٹی کے لیے اصول چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ اصول کے لیے پارٹی چھوڑ جاتے ہیں‘‘۔ مگر پاکستان میں پارٹی چھوڑنے یا اُصول توڑنے کی وجوہات یہ دونوں نہیں ہوتیں،یہاں اس کی نسبت بے حیائی و بے وفائی کے جراثیم اور حرص وہوس کے مادی زہر سے ہوتی ہے۔دیکھیے داغ دہلوی کہاں یاد آیا
:
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایم کیوایم اور چودھری برادران کے رویے نے کھینچا تانی کا عمل تیز کردیا ہے۔ مگر یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی گھونٹ گھونٹ پینے والی نون لیگ اپنا حساب کتاب لے کر بیٹھی ہے۔ اور تلف پزیر(disposable )بوتل کی طرح سیاسی کردار رکھنے والے چودھری اس دفعہ کچھ زیادہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل کہاں ہوتا ہے۔ اتحادی تبدیل کرنے سے اقتدار کی شاہراہ کشادہ ہو تو چُوکتا کون ہے؟ چنانچہ بازی پلٹنے کی امید میں جتن دوسری طرف بھی خوب ہورہے ہیں۔ یہ چھانگا مانگا سیاست ہی ہے، مگر اس کی توجیہات انتہائی محترم الفاظ میں ملفوف کرکے پیش کی جانے والی ہیں۔ بس انتظار کیجیے!!سیاست کے جبر میں منڈی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ اقتدا ر کی للک بھی اس طرح کی اچھل کود کراتی ہے۔ اگر دوسری طرف کی قوتیں ناکام رہیںاور عمران خان اپنے حساب کتاب کو پورا کرپائے تو پھر چودھری برادران مرکزی اقتدار سے بھی بے دخل ہو جائیں گے، ایم کیوایم کی بالک ہٹ، تریاہت میں بدل جائے گی جس میں نہیں، ہاںجیسی ہی ہوتی ہے۔ دُم پہلے ہی چلی گئی تھی شاید چونچ بھی نہ رہے۔ کھیل کھیلنے والے ہر طرف نظریں دوڑا رہے ہیں دیکھتے ہیں کہاں کہاں اُٹھتی ہیں۔ اتحادی سیاست میں کمبل چُرانے کی مشق جاری رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔