... loading ...
ملک میں تبدیلی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد کرپشن کہاں کھڑی ہے اس سوال کے جواب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کی جانب سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والی تازہ رپورٹ پیش کی جارہی ہے حالانکہ یہ رپورٹ بھی ابہام رکھنے کے باعث متنازعہ ہوچکی ہے ۔بہر کیف حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ اپوزیشن یہ موقف رکھتی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔معاملہ کچھ یوں یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کرپشن کی شرح اور معیار کوجانچنے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی مثالی میکنزم تو رکھتی نہیںہے ،لہذا ایسے اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر کسی قسم کی حتمی رائے قائم کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتاہے ۔ایسے میں کرپشن کی صورتحال جانچنے کے لیے ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں پر انحصار کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایک رپورٹر کسی بھی خبر کی تیاری میں جن مرحلوںسے گذرتا ہے اس سے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے کسی صورت نہیں گزر سکتے اور نہ ہی وہ ایک خبر یا ایشو کو کھنگالنے میں اتنا وقت سرف کرسکتے ہیں جو کہ ایک رپورٹر کرتا ہے ۔
بہر کیف سرکاری اداروں میں کرپشن کم ہوئی ہے یا نہیں اس حوالے سے بہت سے اداروں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن یہاں ملک کے دو اہم ترین اداروں میں ہونے والی کرپشن کی صورتحال پیش کی جارہی ہے جن میں سے ایک وفاقی وزارت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کا ذیلی ادارہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) ہے جبکہ دوسرا وفاقی وزارت برائے کامرس کا ذیلی ادارہ انٹیلیکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (آئی پی او ) ہے ۔ بلا شبہ یہ دونوں ادارے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیںکیونکہ ڈریپ وہ ادارہ ہے جو ادویات کے معیار کی جانچ کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوںکے تعین کی ذمہ دار ہے جبکہ آئی پی او وہ ادارہ ہے جو ٹریڈ مارکس اور کاپی رائٹس کے قوانین کے ذریعے کاروبار ی تحفظ کو یقینی بنانے کاپابند ہے ۔اس وقت دونوں اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ انھیں ایڈ ہاک ازم پر چلایا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں کرپشن کا تسلسل برقرار ہے جیسا کہ ڈریپ کی جانب سے 2019میں تین مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا جبکہ عوام دشمن اضافے پروزیر اعظم عمران خان اور نیب کے چیئر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جانب سے نوٹس بھی لیا گیا لیکن یہ معاملہ نوٹس سے آگے نہیں بڑھ سکا یہی وجہ ہے کہ غریب مریض آج بھی ادویات 200فیصد اضافے والی قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں ۔بہر کیف ڈریپ اور ڈرگ مافیا کا گٹھ جوڑآج بھی سلامت ہے ۔
اسی طرح آئی پی او کی صورتحال ہے جہاں کرپشن منظم انداز میں ہورہی ہے جس میں ٹریٖڈ مارکس اور کاپی رائٹس سرٹیفیکیٹس کی حامل کمپنیوں کے برانڈز کو متنازعہ بنانے کا عمل سر فہرست ہے۔ آئی پی او میں جاری اس سنگین کرپشن کی نشاندہی ہونے کے باوجود آئی پی او کے اعلیٰ حکام کرپٹ افسران کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔آئی پی او کی ٹریڈ مارکس رجسٹری اور کاپی رائٹس رجسٹری میں کرپشن اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ اب کرپٹ افسران کرپشن سے تائب ہونے کے باوجود اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے کیونکہ آئی پی او کی ان دونوں رجسٹریوں میں موجود ایجنٹس مافیا اس قدرطاقتور ہوچکی ہے کہ وہ افسران کو بلیک میل بھی کرنے لگی ہے ۔یہاں صرف دو اداروں کی صورتحال بیان کی گئی ہے جہاں کرپشن تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس کے خاتمے کے لیے حکومت اور متعلقہ ادارے کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومتی ترجیحات کیا ہوسکتی ہیں جبکہ وہ غریب مریض کو سستا علاج معالجہ اور تاجر کو کاروباری تحفظ دینے میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ تو بہت دور کی بات معلوم ہوتی ہے ۔
بہرکیف یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست ایک بار پھر قیاس آرئیوں اور چہ میگوئیوں کے مدار کے گرد گھومنے لگ پڑی ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں۔۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے کی بات ہے تو اس حوالے سے یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے کے لیے از خود کوئی کوشش نہیں کررہی ہیں اس کے لیے وہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مخصوص حالات کو ہی حکومت کے لیے کافی سمجھتے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو ریلیف دے پائے گی یا نہیں اس حوالے سے اب تک کی صورتحال انتہائی مایوس کن منظر پیش کررہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تبدیلی سرکار ایک ایسی مخلوط حکومت بن کر رہ گئی ہے جس سے اس کے اتحادی ہی نہیں بلکہ اس کی اپنی جماعت کے لوگ بھی ناراض ہوتے جارہے ہیں ۔ بہر کیف تبدیلی سرکار اندرونی طور پر بہت سے بحرانوں کا شکار ہے جس میں حکومت کی بقاء سر فہرست ہے ایسے میں یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہاہے کہ ایک ایسی حکومت جو صحیح معنوں میں اب تک اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے تو پھر ایسی حکومت سے عوام کو ریلیف ملنے اور کرپشن کے خاتمے کی توقع کیونکر کی جارہی ہے۔رہی بات حکومت کے قبل از وقت گھر جانے کی تو یہ کسی کے بھی بس میں نہیں ہے اس کا فیصلہ تو ہر صورت عوام نے ہی کرنا ہے جبکہ عوام تو اس وقت بھی ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے کہ تبدیلی سرکار اس کے ہاتھوں میں خوشحالی کا پیغام کب تک تھماتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔