... loading ...
دسمبر کا مہینہ لوگوں پر شاعری کی آمد بن کر آتا ہے۔جسے دیکھو شعر کہہ رہا ہوتا ہے جو لوگ شعر نہیں کہتے وہ دسمبر کو موج مستی یا پھر لحاف میں گھس کر انجوائے کرتے ہیں۔۔ یہ مہینہ گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کے لیے بھی بہت مشہور ہے۔شاید اسی لیے جناب شیخ رشید صاحب آٹے کی قلت وہ تاریخی جملہ کہہ گئے جو پورے ملک میں فلو کی طرح وائرل ہوگیا۔ جملہ تھا کہ نومبر دسمبر میں لوگ روٹیاں زیادہ کھاتے ہیں۔اس جملے پر بڑا طوفان مچا۔۔لوگوں نے شیخ صاحب کو صلواتیں سنائیں۔پڑھنے کی حد تک یہ بڑا ہی واہیات جملہ تھا۔ میں نے بھی پڑھا تو مجھے عجیب سا لگا، کسی نے اس جملے کو غریبوں کا مزاق اڑانے کے مترادف قراردیا۔ تو کسی نے اسے آٹا بحران پر بے حسی سے تعبیر کیا۔لیکن یہ جملہ جب میں نے ویڈیو میں سنا تو اس کا پیرایا مختلف نظر آیا، یعنی اس جملے میں بظاہر کسی کی تحقیر نہ تھی ، بلکہ ازراہ مذاق روانی میں کہا گیا تھا جسے صحافیوں سمیت حاضرین نے انجوائے بھی کیا۔تاہم جب اس جملے کو لکھ کر رپورٹ کیا گیا تو یہ کچھ کا کچھ بن گیا۔ یہاں ہمارا مقصد شیخ رشید کی ترجمانی نہیں، بلکہ یہ بھی بتانا ہے کہ میڈیا کس طرح الفاظ کا اصل ماخذ بتانے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔لیکن میڈیا کے کرتا دھرتا اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔
12 سال قبل ہم نے اپنے باسز کو تجویز دی کہ ٹکرز میں اسمائیلی ، سیڈ اور اینگری آئکن وغیرہ بھی ایڈ کردیئے جائیں تو جملے کی اصل کیفیت ناظرین پر ویڈیو کے بنا بھی آشکار ہوجائے۔ (کیونکہ ہر خبر کی ویڈیو دستیاب نہیں ہوتی)۔ مثال کے طور پر شیخ رشید کے ٹکر اور خبر کوسنجیدہ بیان کی صورت میں چلایا گیا، جس سے لوگوں کو تعجب ہوا۔ اگراس واقعے کی ویڈیو دستیاب نہ ہوتی تو لوگ یہی سوچتے رہ جاتے کہ کس قدر افسوسناک بیان تھا۔ایسے ٹکرز کے آگے لگا آئکن اس جملے کی کیفیت کی وضاحت کرسکتا ہے۔(یہ بات تو جملے کی کیفیت کی وضاحت سے متعلق میڈیا کی ذمہ داری کے حوالے سے تھی، رہی بات آٹا بحران کی، تو اس میں ایک فیصد بھی شک نہیں کہ یہ سراسر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔
خیر۔۔آئکنز والی اس تجویز کو ابھی ایک طرف رکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔ٹی وی تو اصل میں ویڈیو اور آڈیو کا نام ہے۔اس ویڈیو میں ایسی ایسی باتیں اور حرکتیں محفوظ ہوجاتی ہیں جو دنیا کی کسی ربڑ سے مٹائی نہیں جاسکتیں۔اور کسی ٹیکنالوجی سے اسے لوگوں کے دماغ یا میموری کارڈ سے غائب نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی ہی ایک حرکت وفاقی وزیر فیصل واوڈا سے بھی ہوگئی۔۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو کے دوران جوتا پیش کردیا۔ جوتا بھی ایک خاص ادارے کا تھا۔واوڈا کا خیال تھا کہ ان کی اس حرکت پر انہیں بہت ثواب ملے گا اور سیاست اوردنیا سدھر جائے گی، لیکن ان کا یہ دماغی فتورفوراً ہی رفع ہوگیا۔اپوزیشن نے تو واوڈا کو لفظوں کے جوتے لگائے ہی ، حکومت نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے واوڈا کے ٹی وی شوز میں 15 دن تک جانے پر پابندی لگادی۔ جبکہ پیمرا نے وہ ٹی وی شو 60 دن کے لیے بند کرکے اینکر کو بھی گھر بیٹھنے کا کہہ دیا۔ فیصل واوڈا جیسے لوگوں کو دیکھ وہ تاریخی جملہ کبھی کبھی سچ لگنے لگتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
موجودہ پارلیمانی جمہوریت کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں دولت مند طبقہ ہی الیکشن لڑنے کا سوچ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے صنعتکار، سابق بیورو کریٹس ، اور جاگیردار ہی میدان سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے صنعتکار اور سابق بیورو کریٹس وہ طبقہ ہیں جن میں سے بیشتر جب میدان سیاست میں آتے ہیں تو اپنے فائدے اور کاروبار کو ترقی دینے کے حوالے سے اقدامات کرتے ہیں۔ عوام سمجھتے ہیں کہ یہ نیک لوگ ملک کی ترقی کے لیے بے چین ہیں۔ ان لوگوں کے دور میں وائٹ کالر کرائنمز کو فروغ ملتا ہے۔ جبکہ الیکشن لڑنے والے تیسرے اور سب سے بڑے طبقے یعنی جاگیرداروں میں ہر چیز کو اپنی جاگیر سمجھنے کی خطرناک عادت اور شہریوں کو اپنا غلام سمجھنے کا ذہنی مرض بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔لہذا جب وہ حکومت میں آتے ہیں تو اختیارات کا اندھا دھند استعمال دیکھنے میں آتا ہے اور ہر طرح کی بدعنوانیوں کو فروغ ملتا ہے۔دیکھا یہ گیا ہے کہ جاگیر داری سے سیاست میں کوچ کرنے والوں کی اکثریت کے ذہنوں کو تعلیم بھی بدل نہیں پاتی اور وہ سیاست کو صرف اپنا پیشہ یا کئی کاروباروں میں سے ایک اور کاروبارسمجھتے ہیں۔اول الذکر دو طبقات کے لیے ہم نون لیگ اور پی ٹی آئی کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔جبکہ آخرالذکر طبقے کے لیے پیپلز پارٹی کی مثال موجود ہے۔
شاید اسی لیے اب بہت سے لوگ موجودہ پارلیمانی نطام جمہوریت کو سرے سے مٹا کر ملک میں صدارتی نظام اور متناسب راہے دہی سے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کی بات کررہے ہیں۔ان تجاویز کو ہمیشہ پڑھے لکھے طبقے میں مقبولیت ملتی ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے اس حوالے سے ا?ج تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا۔کیونکہ سیاسی جماعتوں کو ملک کا نظام بدلنے سے نہیں بلکہ سیاست میں کسی بھی طرح اِن رہنے سے دلچسپی ہے۔
خیر بات آٹے کی مہنگائی سے شروع ہوئی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سراسر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے۔کہ ملک میں آٹے کی قیمت میں لگ بھگ دس سے گیارہ روپے کا اضافہ ہوگیا۔میڈیا نے اس پر بہت شور مچایا۔ یہ ہمیں اچھا لگا، کیونکہ اس سے حکومت کو بھی ہوش آیا، لیکن بات پھر صحافتی اقدار کی آتی ہے۔میڈیا شاید یہ بتانے میں ناکام رہا کہ ملک میں آٹے کی قلت کا مسئلہ اتنا نہیں دیکھا گیا، آٹا بدستور دستیاب رہا، البتہ اس کے دام بڑھتے گئے۔دستیابی اس قدر تھی کہ آپ اگر ایک کی جگہ دس تھیلے بھی خریدنا چاہیں تو دکاندارکو کوئی عار نہ تھا۔ مسئلہ سارا بدانتظامی اور نااہلی کا بھی تھا،ایسے میں افواہوں کا بازار بھی مارکیٹ پر کسی چیز کی قلت سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے،میڈیا کو اس طرف بھی سوچنا ہوگا۔لیکن یہ سوچے گا کون؟ میڈیا تو اس وقت روزانہ کی بنیادوں پر اشوز کو نبٹانے کا نام رہ گیا ہے۔یہاں کام کرنے والے لوگ اڈیٹوریل کلرکی سے ذیادہ کچھ نہیں کررہے۔۔
آٹے کی مہنگائی کے مارے عوام کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اس سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصداضافہ ہوگا۔۔یہ اضافہ اس پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یکسانیت لانا مقصود ہے۔ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنا وہی مسئلہ بیان کردیا جو ہر عام آدمی کا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ تنخواہ میں ان کا گھر نہیں چل پاتا۔ تاجروں سے خطاب میں ان کا کہنا تھا انہوں نے اقتدار میں آکر فیکڑیاں نہیں بنائیں ،انہوں نے گھر کی سڑک اپنے پیسے سے بنائی، وزیر اعظم ہاؤس کے بجائیوہ اپنے گھر میں رہتے ہیں، اور جو تنخواہ انہیں ملتی ہے اس سے ان کے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا۔خیر اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں تنخواہ میں کسی کے گھر کا خرچہ نہیں چل سکتا۔ عمران خان نے کوئی فیکٹری نہیں لگائی۔۔یہ بات بھی ٹھیک ہی ہوگی۔لیکن ان کے دور حکومت میں ان کے ساتھیوں نے کیا بنایا، یہ ضرور سامنے آرہا ہے۔ساتھ ہی عمران خان ایماندار ہونے کے باوجود عوام کے لیے کیا ثابت ہوئے ہیں۔یہ بھی عوامی رائے عامہ میں واضح نظر آنے لگا ہے۔کپتان صاحب۔۔کچھ سوچنا تو پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔