... loading ...
متحدہ قومی موومنٹ کی تبدیلی سرکار سے علیحدگی کی دھمکی کس قدر کار گر ہوگی اس کا اندازہ فوری طور پر تو نہیں لگایا جاسکتا لیکن اس سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو اپنے’’ سیاسی قد ‘‘کا اندازہ ضرور ہوگیا ہوگا کہ ان کی حکومت اپنے پائوں پر نہیں بلکہ اتحادی جماعتوں بالخصوص ایم کیو ایم کے کاندھوں پر کھڑی ہے ۔متحدہ کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے گذشتہ روز کی جانے والی پُر ہجوم پریس کانفرنس میں تبدیلی سرکار کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہیں جبکہ ان کی جانب سے ایک بار پھر انتخابات میں دھاندلی ہونے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے جو کہ حکومت مخالف جماعتوں کا ایک واضح موقف ہے جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم کی انتخابی نشستوں پر کٹ لگا ہے اور پی ٹی آئی کو اپ سیٹ کامیابی ملی ہے ۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر متحدہ کے تحفظات دور کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے ایک وفد نے وفاقی وزیر اسد عمر کی قیادت میں ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطے شروع کردیئے ہیں یعنی کراچی کی سیاست میں ایک نئے’’ رحمان ملک‘‘ کا ظہور ہونے جارہا ہے ۔بہر کیف ایم کیو ایم اور تبدیلی سرکار کے درمیان روٹھنے اور منانے کا سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا جیسا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم یہی کرتی آئی ہے ۔سیاسی اتحاد ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ اتحادحکومت کی تشکیل کے لیے ہو تو وہ انتہائی نازک ہوتے ہیں ،جیسا کہ اس وقت تبدیلی سرکار اور ایم کیو ایم کے اتحاد کا معاملہ ہے ۔اس سے پہلے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حکومتی اتحاد کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کی جائے یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت سازی میں کن شرائط پر ساتھ دیا ہے ۔
پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک 9نکاتی معاہدہ 3اگست 2018کو ہوا تھا جس پر دونوں فریقین کے دستخط بھی موجود ہیں ۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین وزیر اعظم عمران خان کی نجی رہائشگاہ بنی گالہ میں ہونے والے اس معاہدے میں دونوں فریقین کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ کراچی آپریشن کا ازسر نو جائزہ لیا جائے گا ،حکومتی عہدوں پر شفاف تقرریاں کی جائینگی ،محصول چنگی نظام کے خاتمے کے بعد شہروں کو ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا ،شہری حکومت (کراچی)کو وفاق سے فی الفور فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ،پولیس کے نظام میں اصلاحات لائی جائے گی ، حیدر آباد میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی اور انتخابی حلقوں میں الیکشن آڈٹ کرایا جائے گا ۔یہ تھے وہ 9نکات جو ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کے باعث بنے لیکن گذشتہ ڈیڑھ برس سے زائد کا عرصہ گذرجانے کے باوجود تبدیلی سرکار کسی ایک نکتہ پر بھی عملدرآمد نہیں کرسکی ہے جبکہ کاروبار حکومت محض یقین دہانیوں پر چلایا جارہا ہے ۔ بلا شبہ کراچی کی سیاست ملکی سیاست پر براہ راست اثر انداز ہوتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ1988سے ایم کیو ایم کو ملکی سیاست میں ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے جس کا بر ملا اظہار عملی طور پر ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے کیا جاچکاہے ۔
بہر کیف عام انتخابات 2018میں کراچی سے پی ٹی آئی کی غیر معمولی کامیابی کسی بڑے سیاسی معجزے سے کم نہیں ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے کراچی اور اس کی عوام کی فلاح بہبود کے لیے کچھ نہ کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کراچی میں انتخابی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کراچی پر غیر معمولی توجہ دیتی اور خود کو ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر پیش کرتی لیکن بد قسمتی سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا وژ ن یہاں بھی سطحی نوعیت کا ثابت ہوا اور وہ اس امر کا ادراک ہی نہیں کرسکی کہ ایم کیو ایم اور اس کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اگر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو اس صورت میں ایم کیو ایم سے زیادہ خود پی ٹی آئی کو اس کا سیاسی فائدہ ہوگاجو کراچی کی سیاست میں پی ٹی آئی کو حقیقی کردار دینے کی ضمانت بن سکتا ہے ۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو محض ایک سیاسی معاہدے کے طور پردیکھ رہی ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی سیاسی ناکامی ہے ۔بہر کیف سیاست کیا ہوتی ہے اس کا مظاہرہ پچھلے دنوںپیپلز پارٹی کے نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دیکھا گیا ہے جو اس بات کو پہلے سے ہی بھانپ گئے تھے کہ پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ہچکچہاٹ کا شکار ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جانب سے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دیدی گئی جس پر ایم کیو ایم کے حلقوں میں مشاورتی عمل شروع ہوگیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم کراچی کے وسیع تر مفاد میں کیا قدم اٹھاتی ہے ۔
جہاں تک کراچی میں ایم کیو ایم کو اپنی ماضی کی طرح کی پوزیشن برقرار رکھنے کا معاملہ درپیش ہے تو اسے فوری طور کسی حتمی فیصلہ کی جانب بڑھنا ہوگا کیونکہ لٹکے ہوئے فیصلے نہ صر ف کراچی بلکہ خود ایم کیو ایم کے لیے بھی نقصان دہ ہونگے ۔جہاں تک پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے معاہدے کا تعلق ہے تو یہ ایک اچھا اور قابل تعریف معاہدہ ہے لیکن یہ ایک غیر فطری معاہدہ بھی ہے جو دو مختلف سوچ اور نظریات کی حامل جماعتوں کے درمیان ہوا ہے جس کا انجام یہی ہونا ہے جو اس کا ہونے جارہا ہے ۔آخر میں پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہوں کہ کراچی اور اس کے عوام کی فلاح بہبود کے لیے آخر کسی معاہدے کی ضرورت کیوں کر پیش آتی ہے اور کب تک کراچی کو معاہدوں کی بھینٹ چھڑایا جاتا رہے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔