... loading ...
یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا بلوچستان عوامی پارٹی (باپ )اپنی اصل میں ایک فکری و عوامی جماعت ہے یاالیکٹ ایبلز پر مشتمل سیاسی جتھہ ہے ۔ بہر حال اس جماعت کی بلوچستان کے اندر حکومت ہے۔ جولائی2018ء کے عام انتخابات میں ان سے منسلک 15افراد منتخب ہوئے،ما بعد شمولیتیں ہوئیں۔ اس طرح ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کی شراکت سے حکومت بنالی۔ جام کمال خان عالیانی بالاتفاق وزیراعلیٰ بنائے گئے ۔جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ حزب اختلاف اچھی خاصی مؤثر ہے ۔ تجربہ کار اور معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے والے لوگ اس کا حصہ ہیں۔ اس حکومت کو شاید حزب اختلاف سے کوئی تکلیف نہ ہو۔ کہ حزب اختلاف کا کام ہی اپنے فہم کے تحت حکومت کی ہر ُاس پالیسی پر گرفت کرنا ہوتاہے، جو ان کی دانست میں عوام اورو صوبے کے مفاد سے متصادم ہو۔ تجاویز دیتی ہے ، نقص و اغلاط کی نشاندہی کرتی ہے ۔گویا حزب ا ختلاف کی بجائے جام کمال کے لیے مشکلات اپنی ہی صفوں سے پیدا کی جارہی ہیں ۔ اندرون کی اس رسہ کشی اور ضرب کاری سے حکومت کی توجہ یقینا فرائض سے ہٹ کر اس تخریب کاری پر مرکوز رہتی ہو گی ۔ جس سے لا محالہ صوبے اور عوام کے مفاد کوزد پڑ رہا ہے ۔ بلوچستان عوامی پارٹی فی الواقع ایک فکری ،نظریاتی، عوامی جماعت ہوتی تو اندرون کی ان وارداتوں کا تدارک پارٹی آئین و روایات سے کردیا جاتا ۔ جام کمال فیصلوں اور اقدامات میں پوری طرح مختار ہوتے تو شاید وہ تخریب کا باب کب کا بند کرچکے ہوتے ۔کابینہ اور پارٹی فورم کی بجائے معاملات کہیں اور زیر بحث نہ لائے جاتے۔ گویا اس جماعت کی نکیل کئی ہاتھوں میں ہے ۔ اس بنا جام کمال خان کی مجبوریاں بھی سمجھ سے باہر نہ ہیں۔ دھونس اور دبائو کے یہ حربے اول روز سے استعمال کیے جارہے ہیں ۔
اس نزاع کی بنیاد حقیقی اور اصول کی بجائے گروہی اور شخصی مفاد پر ہے ۔انہدام و سبوتاژ کی سیاست ا سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کی جانب سے ہورہی ہے۔ انہیں شاید سرفراز ڈومکی کی بھی حمایت حاصل ہے ۔ جوجام کمال سے اختلاف کی بنا پر اگست 2019ء میں وزارت سے استعفا دے چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری بھی یقینا ان کے حامی ہوں گے۔ جن سے پہلے وزارت صحت کا قلمدان لیا گیا۔ اور اس کے ایک ہفتے بعد( 18دسمبر 2019ئ) کابینہ سے بھی برطرف کیاگیا۔دراصل عبدالقدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کا چسکا لگ چکا ہے۔اس لذت کے اسیر سردار اسلم بھوتانی اور جان جمالی بھی ہیں۔سُننے میں ہے طارق مگسی کی دلچسپیاں بھی آرہی ہیں ۔ قدوس بزنجو قاف لیگ میں تھے ، نواب زہری کے خلاف کھیل میں آگے آگے تھے۔تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ تیار کرلیا ۔ نواب زہری نے دبائو کے تحت نو جنوری 2018 ء میں منصب چھوڑ دیا ۔ جس کے بعدیہ شخص چھ ماہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ جام کمال خان اور بھوتانی خاندان یہ خاندان ضلع لسبیلہ میں سیاسی حریف ہیں۔ ’’باپ ‘‘بنانے والے طاقتور ہیں کہ جنہوں ا ن حریفوں کو ایک چھتری کے نیچے اکٹھا کر رکھا ہے۔ چناں چہ وقتاً فوقتاً ذرائع ابلاغ پر حکومتی جماعت میں اختلاف کا شور ُاٹھا یا جاتا ہے۔ اخبارات میں مختلف ملاقاتوں و دعو توں کی تصاویر چھپوائی جاتی ہیں ۔ دانستہ صوبے کا سیاسی ماحول ابتر پیش کرنے کوششیں کی جاتی ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو علیل ہوئے، 22دسمبر کو کو ئٹہ سول ہسپتال کے وی آئی پی روم میں داخل ہوئے۔ یعنی یہ لمحہ کو بھی جام کے خلاف استعمال کیا ۔کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہت بری ہے۔ حا لاں کہ سرکاری ہسپتالوں یہ درگت آج سے نہیں ہے۔ اور نہ ایسا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اس کی خبر نہ تھی۔ کہا کہ وہ کراچی یا کسی دوسرے بڑے شہر میں بھی علاج کراسکتے تھے ۔یہاں داخل ہونے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسپتال کے مسائل اُجاگر ہوں ۔ بہتر ہوتا کہ عبدالقدوس بزنجو اپنے آبائی ضلع آواران جو کہ ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے کے ضلعی سرکاری اسپتال سے علاج کراتے۔ اور وہاں کی حالت، ضروریات و مسائل طشت ازبام کرتے ۔
عبدالقدوس بزنجوکے والد عبدالمجید بزنجو بھی یہیں سے منتخب و اہم حکومتی عہدوں پر ر ہے ہیں ۔اور 2002ء سے (ماسوائے 2008ء کے ) عبدالقدوس بزنجوکامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر ر ہے ،صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ر ہے ۔اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ پیش ازیں بھی اہم عہدوں پر رہے ہیں ۔ اس لحاظ سے ان کا ضلع مثا لی ہو نا چاہیے۔یوں کسی پرتنقید و گرفت بھی جائز سمجھا جائے گی۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی جیسے آفت آگئی ہو ۔ سرکاری ہسپتالوں کی مشینری ، آلات اور عمارتوں کی مرمت کی مد میں 2کروڑ8لاکھ کے اضافی فنڈز کا اجراء اور ساتھ ایم ایس ، سیکریٹری صحت کو تادیب جیسے نمائشی اقدامات کی ٹھان لی۔ حالاں کہ سرکاری مشینری مستقیم و پہم چلتی ہے۔ چناں چہ 26دسمبر کو عبدالقدوس نے ویڈیو بیان جاری کیا۔ جس میں جھول کھاتے ہوئے جام کمال کی تعریف کے ساتھ ان پر وار کی کوشش بھی کی۔ کہتے ہیں کہ جام کمال برے شخص نہیں لیکن وہ اچھے وزیراعلیٰ ثابت نہ ہوسکے۔ لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کو عوام کی نمائندہ جماعت نہیں سمجھ رہے ہیں ، پارٹی کو صرف ایک شخص کی وجہ سے خراب ہونے نہیں د یں گے ۔ پھر کہتے ہیں کہ جام کمال کے پاس وژن ہے لیکن وہ کاموں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہے، نہ چیزوں کو بہتر کرسکے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے!! ۔ اگلے روز’’ باپ ‘‘کے صوبائی وزراء ظہور بلیدی(وزیر خزانہ )، سردار عبدالرحمان کھیتران ( وزیر خوراک ) ، سلیم کھوسہ ( وزیر ریونیو)اور ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے نیوز کانفرنس میں اس کا ایک پھسپھسا ساجواب دیا۔البتہ ان ورزاء نے اتنا ضرور کہا کہ اسپیکر خو د اسمبلی کے 147 سیشنز میں سے محض 17 میں ہی شریک ہوئے۔ ۔اصل میں ان افراد نے بلوچستان کو تماشا بنا رکھا ہے۔ صوبے اور اس کی ایک کروڑ بائیس لاکھ کی آبادی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ صوبے کے عوام حرص ،مفادات اور کھینچا تا نی کی سیاست کو انتہائی نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ عوام چاہتے ہیں کہ صوبے کے معزز ایوان کی توہین و تضحیک اور یہاں کی روایات و اقدار کا تماشا مزید نہ بنایا جائے۔یقینااس تخریبی و گندی سیاست کو رو کنے کی ذمے داری حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلا ف پر بھی عائد ہوتی ہے ۔اور سچ یہ بھی ہے کہ جام کمال، کردار، صلاحیتوں، انتظامی،علمی بلکہ ہر لحاظ سے ان خلل ڈالنے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔