... loading ...
دوستو،آج سے پورا سال پوری قوم ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘‘ میں لگی رہے گی۔۔کچھ لوگ آج سے شروع ہونے والے سال کو بیس سو بیس بولیں گے تو کچھ کا اصرار ہوگا کہ اسے دوہزار بیس کہا جائے۔۔لیکن جب بیوی کو اہلیہ،زوجہ یا وائف کہا جائے تو اس سے بیوی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اس کی خصوصیات اورــ’’کمین یات‘‘ اپنی جگہ بہرحال برقرار ہی رہیں گی، یہی حال رواں سال کا ہوگا،اسے جس نام سے بھی پکاریں گے اسے وہی رہنا ہے جو یہ ہے۔۔ ہر نیا سال ۔۔(اب اسے ’’ہرنیا‘‘ نہ پڑھ لینا)نئی امنگوں اور نئی امیدوںکے ساتھ آتا ہے لیکن جاتے جاتے مایوسیاں دے جاتا ہے۔۔ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ سورج اپنی اوٹ میں کتنی خوشیاں، خوشخبریاں اور بری خبریں لے کر طلوع ہوگا لیکن خدائے رب ذوالجلال سے یہی دعا ہے کہ آنے والا یہ نیا سال دنیا کے لیے امن و آشتی اور انسانوں کے لیے خوشحالی کا پیغام لے کر آئے۔ اس نئے سال سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ خدا کرے یہ سال ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں بیوی کا ذکر کیا کہ اس کے کئی نام ہوتے ہیں۔۔ہمارے کسی زندہ دل دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا کہ۔۔ بیویوں کی تعداد کا اس کے ناموں کے حروف کی تعداد سے ہی اشارہ ملتا ہے۔بیگم میں چار حروف۔۔ب،ی،گ،م۔۔بیوی میں چار حروف، ب،ی،و،ی۔۔زوجہ میں چار حروف۔۔ز ،و ، ج ،ہ۔۔پشتو میں بیگم کو ’’ناوی‘‘ کہتے ہیں ناوی میں بھی چار حروف۔۔ن،ا،و ، ی۔۔نسائ(عربی) میںچارحروف ن،س،ا،ئ۔۔بڈھی(پنجابی) میں چارحروف۔۔ب،ڈ،ھ،ی۔۔وائف (انگریزی) میں چار حروف و،ا،ئ،ف۔۔حتیٰ کہ ان سب ناموں سے بننے والی دلہن میں بھی چار حروف د،ل،ہ،ن۔۔ان سب ناموں کے حروف کی تعداد سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ بیویاں چار ہی ہوں۔۔ہماری دعا ہے کہ اس نئے سال میں اللہ تعالی سب مسلمانوں کو چارچار شادیاں کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔۔
پپو ہمارے لنگوٹیا فرینڈ ہیں، میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ہمارے احباب کو اچھی طرح سے علم ہے کہ پپو میں کیا کیا خوبیاں ہیں ۔۔ میڈیا انڈسٹری کے لیے ’’پپو‘‘ کسی دہشت گرد سے کم نہیں، لیکن درحقیقت پپو ایک بے ضرر سے انسان اور ہمارا بچپن کا دوست ہے، پپو کا کراچی کے مضافاتی علاقے کورنگی میں پان کا کیبن ہے جہاں ہم روز رات کو بیٹھک لگاتے ہیں ، یہ بیٹھک باباجی اور ہمارے پیارے دوست کے علاوہ ہوتی ہے ، پپو کے ساتھ بیٹھک ہمیشہ اس کے پان کے کیبن پر ہی لگتی ہے،جہاں پپو کی ’’پرمغز‘‘باتوں سے دماغ کی دہی بننا لازم ہوجاتی ہے۔۔گزشتہ روز پپو سے ایک ماہ بعد کیبن پر ملاقات ہوئی،اس ایک ماہ میں ہم ہی مصروف رہے خاندان میں کچھ شادیاں تھیں جنہیں نمٹانے میں ٹائم لگ گیا،کراچی میں شادیاں رات دس بجے کے بعد شروع ہوتی ہیں اور رات دو سے تین بجے تک جاری رہتی ہیں اس کے بعد گھر واپس آتے آتے نماز فجر کاوقت ہوجاتا ہے۔۔تو بات ہورہی تھی ،پپو سے ملاقات جب بھی ہوتی ہے پپو کی بانچھیں کھل جاتی ہیں کیوں کہ انہیں ایک شاندار سامع میسر آجاتاہے جو ان کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہتا ہے۔۔انہوں نے فوری ملباری کی چائے کا آرڈر دیا۔۔باتوں کا سلسلہ شروع ہوا، ہم نے جب کہا کہ یہ سال بھی بس ایک دو روز کا مہمان ہے تو کہنے لگے۔۔آنے والے نئے سال کی وجہ سے میں ایک بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟؟ کہنے لگے۔۔ نئے سال کو سال نو کہتے ہیں؟ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔پپو پھر گویا ہوئے۔۔عمران بھائی میرے ایک دوست کی مارچ میں شادی ہے ،وہ جس بچی(لڑکی) سے شادی کررہا ہے وہ نوبھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔۔یہ کہہ کر اس نے ملباری سے آنے والی چائے کا کپ ہماری طرف بڑھایا۔۔اور بسکٹ کا ایک پیکٹ بھی برہنہ کرکے ہمیں پیش کیا۔۔پھر پپو بھائی؟؟ نوبھائیوں کی اکلوتی بہن سے اگر آپ کا دوست شادی کررہا ہے تو آپ کس طرح مصیبت میں پھنس گئے؟؟ ہماری سوئی اپنی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔۔وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔پرابلم بس اتنی سی ہے کہ جب میں مارچ میں اس کی شادی میں شرکت کرونگا تو کیا اپنے دوست کو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں۔۔۔’’سالے نو مبارک ‘‘۔۔
ایک سردار جی اپنی محبوبہ کے گھر گئے، دستک دی، ان کی محبوبہ نے اندر سے سوال کیا، کون؟؟ سردار جی کے لبوں پر مسکراہٹ آئی، مونچھوں پر تاؤ دے کر کہا، میں۔۔محبوبہ پہچان نہ سکی، پھر سوال کرڈالا۔۔ میں کون؟ سردارجی برجستہ بولے۔۔ لے دس ! کملی توں گلابو ہور کون۔۔جب انہی سردار جی کو کسی نے بتایا کہ ۔۔باہر تمھارا دوست تمھارے بھائی کو مار رہا ہے،سردار جلدی سے باہر گیا، تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور بولا ۔۔ایسے ہی چکر لگوا دیا وہ میرا دوست نہیں ہے۔۔ ہر کوئی سردار جی کی طرح معصوم نہیں ہوتا، خاتون خانہ نے جب کہا کہ ، میں نے گدھوں پر ریسرچ کی ہے وہ اپنی گدھی کے سوا کسی دوسری گدھی کو دیکھتا تک نہیں۔۔۔۔شوہرنے بیگم کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا، پاگل اسی لیے تو اسے گدھا کہتے ہیں۔۔۔ایک جگہ پولیس میں بھرتیاں ہورہی تھیں، ایک امیدوار سے افسر نے پوچھا۔۔۔۔مجمع کو منتشر کرنا ہو تو کیا کرو گے۔۔۔۔امیدوار نے کہا، میں چندہ جمع کرنا شروع کر دوں گا۔۔۔
باباجی نے پیشگوئی کی ہے کہ ملک میں رواں سال بھی جمہوریت ہی رہنی ہے۔۔ساتھ ہی انہوں نے جمہوریت کو منہ بھربھر کر سنابھی دی۔۔ ہم نے بھی جب ان کی باتیں سنیں تو اتفاق کیے بغیر نہ رہ سکے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں جمہوریت کے خلاف سازش ہیں۔۔باباجی دانت بھینچ کر فرمارہے تھے۔۔پہلے لوگ کنویں کا میلاکچیلا پانی پی کر بھی سوسال سے زیادہ جیا کرتے تھے، اب یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ’’آر او‘‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خالص و شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال کی عمر میں بوڑھے ہورہے ہیں۔۔ پہلے کے تیل میں کھاکربڑھاپے میں محنت ہوجاتی تھی اب ڈبل ، ٹرپل فلٹر تیل، اولیوآئل، کولیسٹرول فری اور پتہ نہیں کیاکیاقسم کے تیل کھاکر بھی جوانی میں ہانپ رہے ہوتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے؟؟؟پہلے کوئی ڈلی والانمک کھاکر بھی بیمار نہیں ہوتا تھا،اب جب کہ جمہوریت ہے تو آیوڈین والا نمک کھاکربھی لوبلڈپریشر اور ہائی بلڈپریشر کے ہزاروں مریض گھوم رہے ہیں۔۔پہلے نیم،ببول،کوئلے،نمک سے دانت چمکاتے تھے اور بڑھاپے تک اصلی دانتوں کے ساتھ خوراکیں کھاتے تھے، اب جمہوریت ہے تو ہر فلیور،ہرنسل،ہرطرح کا ٹوتھ پیسٹ جس پر دنیا کے سارے دندان سازوں کا اتفاق بھی ہوتا ہے، لیکن دانت ٹوتھ پیسٹ سے اتفاق نہیں کرتے،اور ان کا آپس کا اتفاق ایک ایک کرکے ختم ہوجاتا ہے۔۔پہلے نبض پکڑتے ہی کسی بھی بیماری کو پکڑ لیا جاتا تھا، اب جمہوریت ہے تو ہرطرح کی جدید مشینری کے باوجود مرض پکڑائی نہیں دیتا۔۔پہلے آٹھ، دس بچے پیدا کرنے والی مائیں بھی اسی نوے سال کی عمرتک اپنے کھیتوں میں کام کرتی تھیں، اب جمہوریت ہے تو پہلے مہینے سے ڈاکٹرز کی آبزرویشن میں ہونے، گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے والی نازک خواتین کے بچے پھر آپریشن سے ہورہے ہیں، کیا اسی دن کے لیے جمہوریت کو برداشت کیا تھا؟؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بڑی بڑی باتیں تو بچہ بھی کرتا ہے… انسان تب سمجھدار ہوتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سمجھ سکے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔