... loading ...
جھارکھنڈ کے انتخابی نتائج کے دوسرے روز 24 دسمبر کو کئی اخبارات میں دو نقشے شائع کیے گئے ۔ 2018ء میں بی جے پی کا ہندوستان کی 29 ریاستوں میں سے 21 میں اقتدار تھا۔ 2019ء کے ختم ہوتے ہوتے یہ تعداد گھٹ کر 15 ہوگئی۔ 2018ء میں بی جے پی کی 69.2 فی صد آبادی اور ملک کے 76.5 فی صد علاقے پر حکمرانی تھی۔ ختم 2019ء تک یہ اعداد گھٹ کر 42.5 فی صد (آبادی) اور 34.6 فی صد (علاقہ) ہوگئے ۔ بڑی ریاستوں(بیس یا زیادہ لوک سبھا نشستوں کی حامل) میں سے بی جے پی کا صرف تین میں پارٹی چیف منسٹر ہے ۔کرناٹک، گجرات اور اترپردیش۔ تین دیگر بڑی ریاستیں …آندھرا پردیش، بہار اور ٹاملناڈو… این ڈی اے کی طرف ہیں، لیکن کب تک وہ یونہی رہیں گے ، غیریقینی امر ہے ۔
پہلا اقدام تین طلاق کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا بل رہا۔ نہ کانگریس اور نا ہی دیگر پارٹیوں نے تین طلاق کو ممنوع قرار دینے کی مخالفت کی۔ وہ صرف اس فقرہ کے خلاف رہے جو شوہر کو جیل بھیجتا ہے ۔پھر بھی وہ مباحث کے اختتام پر اس طرح پیش کیے گئے جیسے کہ غلط اور بُرے عمل کی حمایت کی گئی۔ اگلا اقدام بے رحمانہ این آر سی عمل کا آسام میں نفاذ رہا جس نے 19,06,657 افراد کو ’غیرشہری ‘یا ’بے مملکت ‘لوگ بنا دیا۔ 5 اگست کو بی جے پی نے دستورِ ہند پر عدیم النظیر حملہ چھیڑتے ہوئے وادیٔ کشمیر کے 7.5 ملین افراد کو غیرمعینہ محاصرے میں ڈال دیا، ریاست جموں و کشمیر کے ٹکڑے کردیے اور اسے تین خطوں کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں تک گھٹا دیا۔ قطعی حملہ جمہوریہ کے بنیادی صفات پر شہریت (ترمیمی) بل یا سی اے بی کی منظوری کے ذریعے کیا، جسے 72 گھنٹوں کے اندربقیہ مرحلوں کی تکمیل کے ساتھ قانون بنا دیا گیا۔
مزاحمت کا آغاز
یہ حرکتیں جمہوری طور پر منتخب لیڈروں کی نہیں ہوسکتیں ، یہ دھماکے اور دباؤ ڈالنے کی حرکتیں ہیں۔ لغت میں ’bullying‘ کی تعریف یوں ہے کہ جبر و استبداد سے کام لینا یا تنگ کرنے اور ستانے کی دھمکی دینا، جارحانہ طور پر غلبہ حاصل کرنا یا ڈرانا و دھمکانا ہے ۔ ایسی حرکتیں کرنے والے مشورہ پر کان نہیں دھرتے ، وہ برعکس رائے کو تسلیم نہیں کرتے ، وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے ، اور وہ کبھی غلط نہیں ہوتے ۔ ڈرانے دھمکانے والے تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب آپ خود کو ڈرانے دھمکانے کا موقع دیں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ این ڈی اے II کے ابتدائی چھ ماہ میں اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ یہی کچھ پیش آیا ہے ۔
مزاحمت کے ابتدائی اشارے مغربی بنگال میں دیکھنے میں آئے ۔ ممتا بنرجی نے اسی طرح کا عمل کیا جیسا اُن کو بی جے پی کی طرف سے سامنا کرنا پڑا تھا۔ مزید ڈھٹائی کے ساتھ مزاحمت کی قیادت مسٹر شرد پوار نے مہاراشٹرا کے الیکشن میں کی۔ نتائج کے بعد جب مسٹر پوار نے مزاحمت اور سیاسی ہنرمندی کے امتزاج سے کام لیا، تب انھوں نے بی جے پی کو پہلی بڑی شکست سے دوچار کیا۔ ان ہی دنوں سی اے بی کو پارلیمنٹ سے بلا کی تیزی سے گزار دیا گیا اور ملک بھر میں طلبہ کے احتجاج پھوٹ پڑے ۔ مہاراشٹرا کی کامیابی اور مخالف سی اے بی احتجاجوں نے بلاشبہ جھارکھنڈ کے انتخابات میں جے ایم ایم اور کانگریس کے سیاسی ورکرز کو نئی توانائی بخشی۔ اندرون پندرہواڑہ (12 تا 24 دسمبر) قوم کو اپنی اصل مل گئی اور وہ ڈرانے دھمکانے والوں کے مقابل اُٹھ کھڑی ہوئی۔
ملک یہاں سے کدھر کی طرف بڑھے گا؟ مسٹر مودی کے پاس 4 سال 5 ماہ کی میعاد باقی ہے ۔ لہٰذا، دہلی میں قیادت کی تبدیلی کی توقع کرنا دانشمندی نہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ ممکن ہے کہ عوام کی مزاحمت مسٹر مودی کو اپنی روش بدلنے پر مجبور کرسکتی ہے ، مگر مجھے تحفظات ہیں۔میری رائے میں مسٹر مودی کو جو چیز روش بدلنے پر مجبور کرے گی وہ بعض ریاستی مقننہ جات کیلئے انتخابات کے نتائج ہوں گے ، جہاں 2020ء اور 2021ء میں چناؤ ہونے ہیں ۔(2022ء اور 2023ء کے انتخابات کو فی الحال خارج رکھتے ہیں)۔ آنے والے دو سال میں مقررہ ریاستی اسمبلی انتخابات کا شیڈول یوں ہے :
2020ء … دہلی (جنوری ۔ فروری)۔بہار (اکتوبر۔ نومبر)
2021ء … جموں و کشمیر (فروری۔ مارچ)۔آسام، کیرالا، پڈوچیری، ٹاملناڈو اور مغربی بنگال (اپریل۔ مئی)
مذکورہ فہرست کی ہر ریاست میں بی جے پی قابل شکست ہے ۔ مسٹر امیت شاہ نے ایسا وہم پیدا کردیا ہے کہ بی جے پی ناقابل شکست پولیٹیکل مشین ہے ۔ بے شک، بی جے پی کی اپنی طاقتیں ہیں جن کو پیسہ کی طاقت سے تقویت حاصل ہے ، لیکن یہ بھی تمام سیاسی پارٹیوں کے معمول کی کمزوریوں سے متاثر ہے جیسے گروپ ازم، ناراضگیاں، پارٹی امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑنا، اور جن ریاستوں میں وہ برسراقتدار پارٹی ہے ، وہاں مخالف حکومت عنصر کا پایا جانا۔ گزشتہ دو ماہ میں بی جے پی ہریانہ میں کمزور پڑی، مہاراشٹرا میں اقتدار تک پہنچتے پہنچتے رہ گئی اور جھارکھنڈ میں شکست کھاگئی۔ اس کامیابی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے بشرطیکہ غیربی جے پی پارٹیاں الیکشن والی ہر ریاست میں طاقتور ترین پارٹی کا ساتھ دیں۔ مثال کے طور پر اس کا مطلب ہوگا کہ آسام، کیرالا اور پڈوچیری میں کانگریس، ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے کو غیربی جے پی پارٹیوں کی حمایت ملنا چاہئے ۔ بہار اور مغربی بنگال کیلئے ریاست کی حد تک مخصوص مفاہمت و اتحاد طے کرنا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں بی جے پی کی مذکورہ ریاستوں میں کہیں بھی جیت یقینی نہیں ہے ۔قطعی مقصد لوک سبھا الیکشن 2024ء ہے ۔ ہندو راشٹرا کو بڑھاوا دینے کی روش کو 2024ء سے پہلے پہلے ضرور روک دینا چاہئے ۔ اور ہندوستان کے دستور کو 2024ء تک ضرور بچا لینا چاہئے جیسا
کہ ابراہم لنکن نے امریکا میں 1865ء میں کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔