وجود

... loading ...

وجود

خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں,,,بات یہ ہے کہ (شعیب واجد)

جمعرات 26 دسمبر 2019 خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں,,,بات یہ ہے کہ (شعیب واجد)

ایسا اکثر خوابوں میں ہوتا ہے، جب لمحہ بہ لمحہ منظر بدل رہا ہوتا ہے،کبھی آپ اپنے بستر سے محو پرواز ہوجاتے ہیں، اور پھر آپ کسی کار میں اور پھر سائیکل پر اور پھر ہواؤں میں غوطے کھا رہے ہوتے ہیں، خواب جاری رہتا ہے لیکن منظر لمحہ بہ لمحہ بدل رہے ہوتے ہیں، پھر آپ اپنے اسکول کے دور میں پہنچے ہوتے ہیں تو کبھی آپ اافس کی طرف بار بار گھڑی دیکھ کر دوڑ لگا رہے ہوتے ہیں اور لیٹ ہونے کے خوف سے سوتے میں بھی آپ بے چینی محسوس کررہے ہوتے ہیں، اور اسی دوران اچانک منظر بدل جاتا ہے، اور آپ کسی سڑک پر بھاگ رہے ہوتے ہیں جہاں پیچھے بم دھماکہ ہوچکا ہوتا ہے اور اس کا گہرا دھواں آپ کا پیچھا کررہا ہوتا ہے۔منظر پھر بدلتا ہے اور آپ پرستان میں ہوتے ہیں جہاں آپ کو والہانہ انداز میں خوش آمدید کہا جارہا ہوتا ہے پریاں، پرندوں کی طرح ہوا میں آپ کے گرد ہالہ بنائے ہوتی ہیں اور وہیں پر آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

دوستو: ایسا خوابوں میں ہی ہوسکتا ہے جب منظر اس قدر تیزی سے بدلیں، کہ منظروں کے موضوع تک بدل جائیں۔ لیکن کیا کیجئے کہ مملکت خداد پاکستان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں منظرنامہ لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہے، اور آپ کسی ایک ماجرے پر ابھی پوری طرح حیران بھی نہیں ہوپاتے کہ دوسرا معاملہ سامنے آجاتا ہے جو پہلے معاملے پر ایسا غالب آتا ہے کہ لوگ پہلی بات ہی بھول جاتے ہیں۔یوں ایک کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا ، اور پھر لگتا ہے کہ جیسا یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن چکا ہے۔۔ بقول شاعر

خواب میں ہوں یا جاگ رہا ہوں
اس سمت کبھی اْس سمت بھاگ رہا ہوں

اسی طرح ماضی میں بھی جتنا پیچھے جاتے جائیں الگ الگ واقعات کے ورق الٹتے جاتے ہیں۔خیر ذیادہ دور کیا جانا ، پاناما معاملے سے ہی شروع کرلیں، کس قدر پیچ و خم آئے،اورآج بھی سیاست کا یہ دھارا ناگن کی طرح بل کھا رہا ہے۔صرف اس ایک معاملے سے ہی شاخ در شاخ کتنے معاملے وجود میں آچکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان قوم آخر اتنے مسائل ہونے کے باوجود سڑکوں پر کیوں نہیں آتی تو ، کبھی لگتا ہے کہ اس بات کا جواب بھی شاید وہ خواب ہی ہے ، کہ ہر لمحہ بدلتی صورتحال سے یہ قوم حیرانی کے سمندر سے باہر ہی نہیں نکل پارہی۔ حیرانی کے سمندر میں تلاطم اس قدر ہے کہ اس نکلنا مشکل ہورہا ہے، جیسے کوئی خواب جاری ہو اور محو خواب کو ادھر ادھرا اڑا لے جارہا ہو۔ اوروہ بے چارہ خود کو سنبھالے ، یا سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کی بات کرے۔

دو ماہ پہلے فرانس میں پٹرول مہنگا ہونے پر اس قدر بڑے میں مظاہرے ہوئے کہ ہم دفتر میں ان کی خبریں بنا بنا کر تھک گئے، پیرس میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے ، پیرس ہی کیا، فرانس کے دیگر شہروں میں بھی لوگ باہر نکلے، یوں لگا کہ پورا فرانس جیسے سڑکوں پر نکل آیا ہو۔ پیرس میں عوام کا جم غفیر اس قدر، کہ چاہیں تو تختہ الٹ کر ہی واپس جائیں ، لیکن چونکہ پٹرول سستا کرانے نکلے تھے اس لیے حد سے آگے نہیں بڑھے ، تمام تر زور اپنے اس مطالبے پر ہی لگایا جس کی منظوری کے لیے وہ باہر نکلے تھے، اورجس مسئلے کی وجہ سے انہیں زندگی میں کچھ مشکل محسوس ہوئی تھی۔ یعنی معمولی مہنگائی۔

شاید کسی مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کے لیے زہنوں کو کھلا ماحول ہی جب ملتا ہے، جب وہ مسائل کے سمندر میں غوطے نہ لگا رہے ہوں اور ایک کے بعد ایک مشکل انہیں نہ آن رہی ہو، شاید یوں ہی انہیں کسی مشکل پر غور کرنے، اسے سمجھنے اور اس پر احتجاج کرنے کے فیصلے کا موقع ملتا ہے۔ اسی پر شاید شاعر یوں بھی کہتا ہے

مجسم حیرت ہوں کیا کہوں
لفظ ڈھونڈوں یا کھوئے لمحے

ایک بار کچھ درد مند پاکستانیوں نے ایک محفل سجائی۔ سوچا گیا کہ عوام کو مسائل سے نکالنے کے لیے کون سااحتجاج کیا جائے۔غور ہوا کہ سب سے بڑا ایک مسئلہ کون سا ہے جس کو لیکر سڑکوں پر نکلا جائے؟ عمومی معاملات کے بجائے کسی ایک معاملے پر مکمل فوکس کی بات ہورہی تھی۔محفل میں ایک صاحب نے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا،وہیں پر سوال بھی اٹھ گئے کہ کس چیز کی مہنگائی؟ پیٹرول کی ، گیس کی ؟ یا بجلی کی ؟ یا پھر آلو ٹماٹر کی یا گوشت اوردال کی ؟ یا پھر روٹی کی یا کپڑے کی یا مکان کی ؟ یہ نہیں تو ٹرانسپورٹ کی یا دیگرزرائع موصلات کی۔ یوں اس محفل میں صرف مہنگائی جیسے ایک مسئلے میں دسیوں مسائل سامنے آگئے۔ اس موقع پر کسی نے کہا کہ مہنگامی کو عمومی طور پر مسئلہ مان کر احتجاج کیا جائے۔ جس پر یہ رائے آئی کہ عمومی نعرے میں وزن پیدا نہیں ہوتا۔ کسی ایک چیز پرفوکس کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یوں تعلیم کے شعبے سے متعلق احتجاج پر غور ہوا تو پتا چلا اس شعبے سے متعلق مسائل کی تعداد مہنگائی سے متعلق مسائل سے بھی ذیادہ ہے، ہیلتھ کے شعبے سے متعلق احتجاج پر بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہاں بھی مسائل کی تعداد کئی درجن سے کم نہیں ہے، کسی نے کہا امن و امان بڑا مسئلہ ہے اس پر احتجاج کیا جائے، تو مزید رائے سامنے آئیں کہ امن و امان میں کس جرم کو فوکس کیا جائے، اسٹریٹ کرائمز کو یا عام چوری ڈکیتیوں کو، یا جیب کترنے کو یا بھتہ گیری کو ، اغوا برائے تاوان کو یا شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کو یا پھر بچوں سے ذیادتی اور قتل کو۔ یوں گھمبیرمسائل سامنے آتے گئے ہر مسئلہ پہلے مسئلے بڑا محسوس ہوتا گیا۔ یوں بات کرپشن پر آئی، سیاسی جماعتوں کے مزاج پر آئی، دہشت گردی پر آئی ، مسائل پر مسائل سامنے آتے گئے، ان مسائل سے جڑیدسیوں دیگر مسائل بھی سامنے آتے گئے۔ یقین جانیں اس محفل کے ایک شریک کار کا کہنا ہے کہ ہم مسائل کے سمندر میں جیسے غوطے لگانے لگے تھے، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس ایک مسئلے کو لیکر احتجاج کیا جائے۔جیسے جیسے بحث آگے بڑھ رہی تھی شرکا الجھتے جارہے تھے اور بالکل کسی خواب کی طرح شاید وہ بھی اس وقت الجنھوں کے سمندر میں غوطے لگارہے تھے۔کچھ بے بسی سے سر بھی پیٹ رہے تھے۔

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

اس میٹنگ میں کیا طے پایا اس کو تو جانے دیجئے۔لیکن وہاں جو ہوا وہ اس قوم پر بھی شاید صادق آتا ہے کہ اس قدر تلاطم میں ہے کہ خود کو سنبھال نہیں پارہی اور ایسے میں وہ اپنے مسئلہ نمبر ایک کو پہچاننے کے بجائے خود کو سنبھالنے کی تگ و دو میں ہی ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس میں اب بہت تیزی آچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر