وجود

... loading ...

وجود

عمل کے قلاش
( ماجرا۔۔ محمد طاہر)

بدھ 25 دسمبر 2019 عمل کے قلاش<br> ( ماجرا۔۔ محمد طاہر)

یہ عہد الفاظ کے خراچوں اور عمل کے قلاشوں کا ہے۔عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے جو فیصلے کیے، اس نے پاکستان کی جدید تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ تخلیق کیا۔طیب اردوان نے جب کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی دھمکی کے باعث کوالالمپور کانفرنس سے دستبردار ہوا تو اس کے پیچھے تاریخی شعور کا ایک وفور بھی تھا۔کبھی روس کے زار نکولس اول نے سلطنت عثمانیہ کے لیے ’’مردِ بیمار‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی،تاریخ کے بہاؤ میں ترکی ایک تہذیب کا وارث ہے، تہذیبوں میں زندگی کرنے والی ریاستیں اپنی بیماریوں سے نجات پالیتی ہیں۔ یورپ کا مردِ بیمار اب صحت یاب ہے۔ مگر پاکستان ، یہ وزیراعظم عمران خان کی مدینہ کی ریاست، الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!

معلوم نہیں، طیب اردوان کو عظیم الشان سلیمان عالی شان کے وہ الفاظ یاد رہے ہوں گے، جو اُنہوں نے فرانسس اول کے قاصد ژان دے لافورے کو کہے تھے، جب فرانسس سلطنت عثمانیہ کو اپنے مقاصد کے تحت چار لس کے خلاف جنوبی اٹلی پر حملے میں ملوث کرنا چاہتا تھا۔ اتنا ہی نہیں وہ سلطنت سے مالی امداد کا بھی خواہش مند تھا، اس کے عوض اُس نے مختلف ترغیبات دیں اور وعدے کیے۔جسے صرف شک کی نظر سے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ تب ، تب سلیمان عالی شان نے دے لافورے سے کہا

میں اُس پر کیسے اعتبار کروں؟ وہ جو کر نہیں پاتا اس سے زیادہ کا وعدہ کرتا ہے‘‘۔

عمران خان ، ہائے عمران خان کے وعدے! طیب اردوان نے پاکستان سے تعلق کی وضع داری کو دھیان میں رکھا جو ملائیشیا کانفرنس سے دستبرداری کو سعودی عرب کی دھمکی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے زیادہ بوجھ وہاں منتقل کردیا مگر تب اُن کے ذہن میں سلیمان عالی شان کے لافورے کو کہے ہوئے الفاظ کے ساتھ عمران خان کے وعدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کے الفاظ ضرور گونجے ہوں گے۔ یقین نہیں آتا کہ کوئی شخص اپنے الفاظ کو بے توقیر کرکے خود اپنے ہی خلاف سینہ تان کر اس طرح کھڑا ہوسکتا ہے۔عمران خان اپنی پوری حزب اختلاف کی سیاست میں جن دو رہنماؤں کی باربار تحسین کرتے رہے وہ ترکی کے صدر اور ملائیشیا کے یہی وزیراعظم تھے۔ اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے بعد وہ ان دونوں رہنماؤں کے ساتھ امتِ مسلمہ کا موقف دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک ٹیلی ویژن لانے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔ باقی دونوں رہنماؤں نے اپنے اس منصوبے کے حوالے سے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ مگر عمران خان نے ڈھم ڈھم بجتی ڈھول کی طرح اس منصوبے کو پیٹنا شروع کردیا۔ ایک سطحی آدمی کی طرح جو اپنے قد سے بلند خیال کے سحر میں خود بھی گرفتار ہوجاتا ہے۔ عمران خان نے یہی سمجھا کہ وہ امت مسلمہ کے مسلمہ لیڈر بن کر اُبھررہے ہیں۔ مگر وہ پہلے ہی قدم پر ٹھوکر کھا کر گرے۔

پاکستانی سیاست میں تضادات کی تخلیق اور یوٹرن لے کر بعض طاقت ور حلقوں کی چھتر سایہ میں اپنے خلاف آوازوں کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے، مگر عالمی سطح پر یہی انداز برتنا نادانی سے بڑھ کر ہے۔ عمران خان انتہائی سطحی ذہن کے ساتھ بڑی بڑی باتیں کرنے کے عادی ہو چکے ۔ وہ عرب وعجم مسلم دنیا کے تاریخی تنازعات سے لاعلم ہیں۔ وہ خود عرب دنیا کے قبائلی مزاج سے بھی آگاہ نہیں یہاں تک کہ وہ جس ولی عہد کی پاکستان میں ڈرائیونگ کرتے رہے، اُن کے بھی مزاج آشنا نہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک میں کیا ’’تبدیلیاں‘‘ لارہے ہیں اور اس کے اثرات سے بچنے کے لیے وہ اپنا عالمی مقام کیسارکھنا چاہتے ہیں ، اس کی نزاکتیں اُنہیں کس قسم کے اقدامات اُٹھا نے پر مجبور کررہی ہیں؟ اس کا ایک مطالعہ ہماری خارجہ حکمت عملی کے لیے یوں بھی ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کی حقیقی مجبوریوں کا ادراک بھی کرنے سے قاصر رہے جو ایک ’’بھکاری‘‘ کی نفسیات سے بروئے کار آتے ہوئے اُسے سعودی عرب کے آگے لاچار رکھتا ہے۔ پھر امریکا کی تحویل میں خود کو رکھنے اور دیکھنے کی غلامی جیسی عادت نے ہمیں کیا سے کیا بنادیا ہے ۔چنانچہ امریکا اپنے بعض معاملات کو سعودی عرب کے ذریعے پاکستان میں جس طرح منظم کرتا ہے، اُس کی تاریخ بھی بھیانک طور پر ہمیں حاشیے میں ڈالے رکھتی ہے۔ اگرچہ ہم عالم اسلام کے ایک ممتاز ملک کے طور پر خود کو ایک زعم باطل میں بھی مبتلا رکھے ہوئے ہیں۔ یہ امر ہمیشہ سے ناقابل فہم رہا کہ ہمارے اتنے غلط تصورات کی تشکیل کا منبع کیا ہے؟

 

سعودی عرب سے پاکستان معاشی مسائل کے حل میں ہمیشہ مدد کا طالب رہتا ہے۔پھر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ دینے والا لینے والے کی پرواکرے۔ گزشتہ چند ماہ کے تجربات کافی تھے کہ عمران خان معاملات کا فہم حاصل کرتے۔وہ اقوام متحدہ میں جس مصنوعی آن بان کا مظاہرہ کر آئے تھے، وہاں وہ سعودی ولی عہد کے ذاتی جہاز میں گئے تھے۔ نیویارک میں اُن کی سرگرمیوں پر سعودی ناپسندیدگی کا اظہار اُن کی طیارے سے واپسی کے دوران اچانک ’’خرابی‘‘ سے ظاہر ہوا ۔ چنانچہ فضا سے جہاز کو واپس موڑ کر اُنہیں ہتک آمیز انداز میں ایک عام جہاز سے واپس ہانکا گیا تھا۔ اس رسوائی کا ٹھیک اندازا لگایا گیا نہ چرچا کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے 5اگست کے بعد کے کشمیر پر مسلم ممالک کے کردار سے مایوسی ظاہر کی، یہاں تک کہ ایک موقع پر کہا کہ وہ بھارت سے وابستہ معاشی مفادات کو اہمیت دے رہے ہیں۔یہ اشارہ سعودی عرب کی بھی جانب تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے اپنے ممالک میں بھارتی وزیراعظم کا غیر معمولی استقبال کیا۔یہ ممالک دوائے دل تو ہمیں بیچتے رہے، مگر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے دکانِ تجارت بھارت میں بڑھاتے گئے۔ ثابت کیا کہ مسلم امہ کا تصور تجارتی مفادات کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس سے بڑھ کر معاملہ یہاں تک پہنچا کہ سعودی وامارتی وفد نے پاکستان آکر یہ باور کرایا کہ کشمیر مسئلے کو مسلم امہ کا مسئلہ باور نہ کرایا جائے۔ پاکستان کے لیے کشمیر زندگی موت کا مسئلہ ہے، وطن عزیز نے اپنے قیام کے بعد سے آج تک دنیا سے جتنے روابط رکھے ، اس کا تناظر یہی رہا۔ داخلی طور پر دفاعی اہداف کا پس منظر بھی کشمیر رہا۔ بدقسمتی سے جب امتحان ہوا تو پاکستان کے علاقائی و عالمی مراسم اس معاملے میں ٹھس نکلے۔ پاکستان بے بسی کی تصویر بنارہا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس پر نہ صرف چپ سادھے رکھی بلکہ اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں بالواسطہ رکھا۔ اس حوالے سے یہ تاثر تقویت پکڑتا رہا کہ دونوں ممالک اس ضمن میں امریکی نقشے کے تحت بروئے کار ہیں اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر عملاً دے دیا گیا ہے، اس کے بعد جو کچھ ہورہا ہے وہ پالیسی نہیں ،پالیسی کی ایک اداکاری ہے۔

 

یہ تاثر بے وزن نہیں کیونکہ پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حمایت اور بھارت کی مذمت کرنے والے مسلم ممالک کے بجائے اُن ممالک کو اہمیت دی جو مسئلہ کشمیر پرنفاق کا مظاہرہ کرتے رہے اور بھارت کے ساتھ اپنے معاشی مفادات وابستہ رکھے۔ درحقیقت اس پہلو سے پاکستان بھی ان ہی ممالک جیسا ثابت ہوا۔ جس نے اپنے معاشی مفادات کو مسئلہ کشمیر سے زیادہ اہمیت دی۔ اب دیکھیے! کشمیر پر مسلم ممالک میں ترکی اور ملائیشیا ہی پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ ایف اے ٹی ایف پر بھی ان ہی دو ممالک نے پاکستان کی خم ٹھونک کر حمایت کی۔ لیکن پاکستان نے بھارت کو ترجیح دینے والے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب خود کو جھکائے رکھا۔یہاں تک کہ کوالالمپور کانفرنس میں خود کو شرکت سے روک کر اپنی رسوائی کا سامان بھی کیا۔یہ رسوائی ہمہ گیر ہے۔ کیونکہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے اس عدم شرکت کو سعودی عرب کا دباؤ قرار دے کر بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے جو عذر پیش کیا وہ ترکی کے صدر کی زبان سے جاری ہوا۔ جس کی سعودی عرب کو تردید کرنا پڑی۔ اب پاکستان ایک طرف سعودی عرب اور دوسری طرف اپنے حامی ممالک ترکی اور ملائیشیا دونوں کے نزدیک قابل اعتبار نہیں رہا۔ اس ہمہ گیر رسوائی کا محرک کوئی اور نہیں صرف اور صرف نااہلی ہے۔ پاکستان میں جیسی سیاست اندرون ملک جاری ہے، ویسا رویہ ممالک کے درمیان روابط میں روا نہیں رکھا جاسکتا۔ ہمارے لیے سب سے بڑا سوال یہ نہیں کہ ہمار ے حامی کون سے ممالک ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم خود اپنے کتنے حامی ہیں؟الفاظ کے خراچ اور عمل کے قلاش تہی دامن ہی رہیں گے، اس کا جواب صرف کردار سے ملے گاجووزیراعظم عمران خان کے پاس بالکل نہیں۔بدقسمتی تو یہ ہے کہ طاقت ورحلقے اس تہی دامنی پر خوش بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر