... loading ...
بھارتی صدر کی جانب سے متنازع شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارت کی متعدد ریاستوں میں فسادات پھیل گئے ہیں۔مشرقی ریاستوں کے ہندؤں کے علاوہ اب بھارتی مسلمان بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت دہلی میں واقع مسلمانوں کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہزاروں طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کے ساتھ ساتھ بھارتی پارلیمنٹ کی جانب مارچ بھی کیا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے علی گڑھ میں بھی انٹر نیٹ سروس بند کردی گئی ہے۔ آسام میں بھی صورتحال مختلف نہیں، وہاں بھی ہزاروں افراد نے اس متنازع بل کے خلاف بھوک ہڑتال کردی ہے جبکہ مغربی بنگال میں مسلمانوں نے مرکزی شاہراہ بند کردی جس کی وجہ سے وہاں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاع ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر سے اضافی فوجی دستے بلانے پڑے ہیں جبکہ آسام میں مزید ہزاروں فوجی تعینات کردیے گئے ہیں۔کانگریس سمیت تقریبا تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کردی ہے۔اطلاعات کے مطابق صرف آسام ریاست میں بھارتی حکومت نے 26کے قریب فوجی کمپنیاں تعینات کردی ہے جبکہ مزید فوج بھی یہاں بھجوانے کی اطلاعات ہیں۔
کیرالہ، پنجاب، چھتیس گڑھ،مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی ریاستوں نے متنازع بل کو نافذ کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ بھارتی وفاقی وزارت داخلہ نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ یہ قانون تمام بھارت میں نافذ ہوگا۔تفصیلات کے مطابق لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظوری کے بعد بھارتی صدر رام ناتھ کووند متنازع شہریت ترمیمی بل پر دسخط کردیئے بھارتی آئین کے مطابق اس کے بعد یہ قانون بن چکا ہے تفصیلات کے مطابق بھار ت نے 1955ء میں شہریت کا قانون متعارف کرایا تھا جس میں بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی ترامیم بھی کی گئیںتھیں لیکن حالیہ ترمیم میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندؤں ، سکھوں ، بودھوں، جین مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کو تو شہریت دینے کی منظوری دی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو اس سے یکسر محروم کردیا گیا ہے۔ بھارتی آئین کے مطابق بھارت میں گیارہ برس گزار لینے والا شخص شہریت کے حصول کا اہل ہوجاتا ہے۔ نئے قانون کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے کسی بھی شخص کے لئے یہ مدت کم کرکے پانچ سال کردی گئی ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارت نے آسام ریاست میں نیشنل رجسٹرڈ آف سیٹیزن(NRC) کیا جس کے مطابق یہ معلوم کرنا مقصود تھا کہ ریاست آسام کے شہری کون ہیں۔جب ان کی نشاندہی کرائی گئی تو اس میں سے بیس لاکھ کے قریب مسلمان اور ہندو شہریت کی فہرست سے باہر ہوگئے اس میں اکثریت ہندؤں کی بتائی جاتی ہے اس لیے اس شہریت ترمیمی بل کے مطابق یہاں کے ہندؤں کو تو شہریت دے دی جائے گی لیکن برسوں سے آباد مسلمانوں کو محض نامکمل دستاویزات کی وجہ سے شہریت سے محروم کرکے انہیں کیمپوں میں رکھنے کا منصوبہ ہے بھارت میں ہی موجود بہت سے تجزیہ کاروں نے واضح اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اس بل کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جائے گا۔
یہ سارا کھیل بھارت کس وقت کھیل رہا ہے اور دنیا اور خطے کے حالات کس طرف جارہے ہیں اس کا پہلے جائزہ لیتے ہیں ۔موجودہ دنیا کے حالت کے تناظر میں اگر بھارتی انتہا پسند ہندو رہنمائوں کی حالیہ ہندوتوا پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ موجودہ شکل میں بھارتی جغرافیہ کے دن گنے جاچکے ہیں ۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی رام راج سرکار نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ خود اپنی آگ میں جلنے کے مترادف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی بھارتی حیوانیت اپنی شکل کمال کو پہنچ چکی ہے جس نے بھارتی اقتصادیات کو تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے، دوسری جانب شہریت کے متنازع ترمیمی بل نے پورے بھارت میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویش مسلمانوں کے بعد سکھوں میں پائی جاتی ہے جو گولڈن ٹیمپل کی تباہی کی شکل میں ہندو توا کا بھیانک چہرہ دیکھ چکے ہیں اس کے بعد اندرگاندھی کے قتل کے بعد مشرقی پنجاب میں جس طرح سکھوں کا قتل عام کیا گیا تھا وہ اسے آج تک بھول نہیں پائے ہیں۔
سکھوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ مسلمانوں کے بعد سکھوں کو بھی یا تو سکھ مذہب ترک کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا یا پھر ان کی شہریت پر سوال اٹھا دیے جائیں گے اس لیے حالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اس صورتحال میں بھارت کی مشرقی ریاستوں میں گوریلا جنگ کا آغاز ہوسکتا ہے جو مائو گوریلوں کی طرز پر ہوگا ۔دوسری جانب بنگلہ دیش میں بھی اس متنازع ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے لاکھوں بنگالی مسلمانوں نے اس کے خلاف مظاہرے بھی کیے ہیں جس کی وجہ سے بنگلہ دیش پر بھارت کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے ضمن میں نظرثانی کے لیے دبائو بڑھ سکتا ہے۔ بھارتی مشرقی ریاستوں کی پٹی جو بنگلہ دیش کو عبور کرکے میانمار (برما) تک دراز ہوجاتی ہے کسی وقت بھی مسلم تشخص کے تحفظ کی علامت بن کر ایک بڑی گوریلا جنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ میانمار کے حوالے سے خبریں بھی آئی ہیں کہ وہاں کے روہنگیا مسلمانوں نے اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ اور بدھ اور میانمار حکومت کے مظالم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کی نوجوان نسل کسی طور بھی آسانی کے ساتھ میانمارمیں اپنے علاقوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ دوسری جانب افغانستان ہے جہاں امریکا کی گردن پوری طرح افغان طالبان کے شکنجے میں آچکی ہے خطے میں بھارت کا بہت بڑا سہارا افغانستان میں امریکا کی موجودگی ہے لیکن امریکا کے اپنے پائوں وہاں سے بری طرح اکھڑ چکے ہیں۔ امریکا کا خیال تھا کہ وہ مذاکرات کی لال بتی کے پیچھے طالبان کو لگاکر لمبا وقت حاصل کرلیں گے اور عارضی جنگ بندی کی آڑ میں کابل میں امریکی ساختہ انتظامیہ کے قدم مضبوط کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن افغان طالبان اسے اس قسم کی کوئی بھی سہولت دینے کے لئے تیار نہیں ،ان کا موقف ہے کہ اگر امریکا دنیاکو دکھاوے کے لیے مذاکرات ہی کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے لیکن افغانستان میں جنگ بندی کسی طور منظور نہیں پہلے بھی امریکا نے اسی قسم کی چال چلتے ہوئے بلیک واٹر کے افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کی تھی لیکن طالبان نے شمالی افغانستان کی جانب سے حملے کرتے ہوئے کابل کی جانب زبردست پیش قدمی کی تھی اور بلیک واٹر کے مقامی کمانڈر کے ساتھ ساتھ بہت سے اس دہشت گرد تنظیم کے ارکان کو ہلاک کردیا تھا جس سے بوکھلا کر ٹرمپ نے مذاکرات بند کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد امریکیوں کو احساس ہوا کہ مذاکرات میں تعطل کا فائدہ طالبان کو ہوگا جبکہ سارا نقصان امریکیوں کے حصے میں آئے گا، اس لیے انہوں دوبارہ افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنا شروع کردی جس کے نتیجے میں اب دوحہ میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا دور شروع ہوا تھا لیکن افغان طالبان نے پھر سابقہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے اس مرتبہ افغانستان میں امریکا کے سب سے مضبوط فوجی اڈے بگرام کو حملے سے ہلا کر رکھ دیا جس کی وجہ سے امریکیوں نے عارضی طور پر پھر مذاکرات میں تعطل پیدا کردیا ہے، اس لیے دنیا کو اب واضح پیغام جاچکا ہے کہ امریکا افغانستان میں جتنا چالاک بننے کی کوشش کرے گا اتنا ہی نقصان اٹھائے گا۔
خطے میں اس وقت یہ حالات ہیں جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر ہندوتواکا بھوت سوار ہوا ہے اور وہ کام جو بیرونی قوتیں بھارت کے خلاف نہ کرسکیں اب مودی کے ہاتھوں ہونے جارہا ہے۔ ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ بھارت تاریخ میں کبھی متحد نہیں رہا، اکھنڈ بھارت کا نعرہ محض ایک فریب تھا ۔بے شک یہاں بہت سی ہندو ریاستیں بھی تھیں لیکن یہ کبھی ایک نہ ہوسکی تھیںمحض آبادی میں کثرت کی بنیاد پر پورے بھارت اور اس سے باہر کی حدود پر دعویٰ بے بنیاد تھا۔ بھارت نے جس انداز میں بحیرہ عرب سے خلیج ملاکا تک بھارتی مفادات کے تناظر میں سیکورٹی زون بنانے کی کوشش کی ہے اس سے اندازا یہی ہوتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بری طرح ناکام ہونے جارہاہے۔ اس قسم کے خواب دیکھنے سے پہلے داخلی طور پر استحکام انتہائی ضروری ہے لیکن برہمن اشرافیہ جس انداز میں کروڑوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ کسی طور بھی اسے مستحکم نہیں رہنے دے گی۔ آگے چل کر بھارت جس قسم کے حالات سے دوچار ہونے جارہا ہے اس میں وہ ایک کیا کئی کشمیر بھول جائے گا۔ معاشی طور پر بھارت تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوچکا ہے اس کی بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہورہے ہیں بھاری انڈسٹری بند ہورہی ہے ۔ غیر ملکی سرمایہ کار سرمایے کے عدم تحفظ کی وجہ سے پہلے ہی بھاگ رہے ہیں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جنہوں نے بھارت میں مراکز تشکیل دے کر ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی مارکیٹ پر راج کرنے کے خواب دیکھے تھے وہ ہندوتوا کے نظریے کے سامنے چکنا چور ہوچکے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں اب پاکستان کیا کرے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ وطن عزیز میں تیزی کے ساتھ استحکام کی صورتحال پیدا کی جائے مضبوط ملکی معیشت اور داخلی استحکام کے لیے سخت فیصلے کیے جائیں۔ ملک دشمن قوتیں وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہوں بین الاقوامی دبائو کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں آہنی ہاتھوں سے کچل دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور اس کے گرد واقع ممالک میں ویسی ہی صورتحال پیدا کی جائے جو نائن الیون کے واقعے سے پہلے تھی میانمار کے مسلمانوں سے لیکر بھارت کی مشرقی ریاستوں کے مسلمانوں کو اعانت کا یقین دلایا جائے اگر بھارت ہندوتوا کے نام پر عجیب وغریب قوانین بناسکتا ہے تو پاکستان بھی اسلام کے تشخص کو برقرار رکھنے کا اعلان کرکے بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا سکتا ہے۔ اگر پاکستان یا دیگر مسلمان قوتیں بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو یہ یقین دلاتے کہ بھارتی بنیا ان کے خلاف کیا کارروائی کرسکتا ہے تو اس کام کو مکمل کرتے کرتے کئی برس اور بے شمار سرمایہ صرف ہوسکتا تھا لیکن اب یہ کام خود بھارتی برہمن اشرافیہ کی سوچ نے کردیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بھارت کو دفاعی پوزیشن میں لانا اب زیادہ مشکل نہیں ہوگا ۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کھیل برہمن اسٹیبلشمنٹ نے کھیلا ہے وہ خود اس کے گلے پڑنے والا ہے شمال میں مقبوضہ کشمیر مسلمان پہلے ہی بھارت کے ساتھ نبرد آزما ہیں، مشرقی پنجاب کے سکھ بھارت سے جلد علیحدگی کا اعلان کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں جلد از جلد زرداری اور نواز شریف جیسے ڈرامے ختم کرکے یہاں پر نظام کی تبدیلی کے لیے کام کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے سندھ اور پنجاب میں حالات داخلی طور پر جس طرف جارہے ہیں اور ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان تنازعات نے جس طرح حکومتی انتظامی صلاحتوں کا پول کھولا ہے اس میں اب نظام کی تبدیلی کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے اس لئے جمہوریت کے نام پر ملک کو لوٹنے والوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ریاست سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اس لیے ریاستی اداروں کو اس میں تماشائی بننے کی بجائے عملی قدم اٹھانا ہوں گے تاکہ بکھرتے ہوئے بھارت سے آسانی کے ساتھ نمٹا جاسکے۔ اگر ہم اب جنگ نہیں لڑیں گے تو جنگ ہم پر مسلط کی جائے گی دونوں صورتوں میں ریاست کو مضبوط اقدامات کرنا ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔