... loading ...
جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے آخری ہفتہ میں عمران خان اپنے آبائی حلقہ این اے95 کے علاقہ داؤد خیل میں نگارِ وطن پر قربان ہونے والے میجر جنرل ثناء اللہ خان نیازی شہید کے گھر تشریف لانے والے تھے ۔ جہاں پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام تھا ۔ کپتان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر جنرل شہید کے چھوٹے بھائی امین اللہ خان اُمیدوار تھے ۔ اسٹیج پر مہمانِ خصوصی کی آمد سے قبل برطانیا سے آئے ہوئے عمران خان کے دوستوں کی آمد کا اعلان ہوا تو حاضرین کیا دیکھتے ہیں کہ صاحبزادہ جہانگیر چیکو اور انیل مسرت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ میانوالی میں مہمان نوازی کی اپنی ہی روایات ہیں جو قبائلی طرزِ معاشرت کے اثرات کی وجہ سے یہاں کی سماجی روایات کا حصہ ہیں ۔ عوامی جمِ غفیر نے مہمانوں کو اس انداز کے ساتھ خوش آمدید کہا کہ زبان پر بے اختیار یہ محاورہ آگیا کہ ’’ یہ میانوالی۔۔۔ یہ کچھی۔۔۔۔۔ واقعی پھُلاں دی پچھی ہے ‘‘ کچھی اس خطے کا پرانا نام ہے یعنی یہ واقعی پھولوں کی ٹوکری ہے۔۔ اس ٹوکری میں ہر رنگ اور خوشبو کے پھول ہیں ۔۔ اس سرزمین کا ایک اورخوشبو دار پھول عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی بھی اس جلسے میں موجود تھا ۔۔۔۔
ایک عظیم الشان عوامی اجتماع کو دیکھ کر انیل مُسرت اور ان کے ساتھی صاحبزادہ جہانگیر چیکو کی آنکھیں خوشی سے مسرور دکھائی دے رہی تھیں۔ انہیں بتایا گیاکہ یہ وہ تمام جمع ہیںجوعمران خان کی جدوجہد کے وہ ساتھی ہیں جو اپنے بڑوں اور روایتی سیاسی سماج کی مدد کے بغیر تنہادم اُس کے اُس سیاسی سفر پر روانہ ہوئے تھے جس کی کامیابی کے امکانات کو ناممکنات کے حصار سے نکالنا انتہائی مُشکل ہی نہیں نا ممکن نظر آتا تھا ۔ یہی وہ علاقہ جہاں کے لوگوں نے سب سے پہلے عمران خان کی آواز کے ساتھ اپنی للکار ملاتے ہوئے بار بار حکومتی باریاں لینے والی دونوں بڑی جماعتوں کو کہا تھا
’’ شب کو اُجالنے کا ہُنر ہم پہ چھوڑ دو
تُم تھک چُکے ہو یہ سفر ہم پہ چھوڑ دو
گُلزار ہم چراغ نہیں آفتاب ہیں
ہنگامہ طلوعِ سحر ہم پہ چھوڑ دو ۔۔
اگرچہ انیل مُسرت کپتان کی سیاسی جدوجہد کی کامیابی کے امکان کو خوشگوار حیرت سے دیکھنے والوں میںشامل تھا۔ لیکن ایک کاروباری شخصیت ہونے کی وجہ سے بخوبی جانتا تھا کہ زندگی کے شدید موسم ہزار درجہ ناگوار ہونے کے باوجود یہ احسان کر جاتے ہیں کہ انسان موسموں کی شدت کی وجہ سے نخلستانوں کے کھوج کی جدوجہد شرو ع کر دیتا ہے۔ عمران خان نے انیل مُسرت کو نخلستان اور نخلاب کی تلاش کے ثمرات کے رُخ کوانسانیت کی خدمت کی جانب موڑنے پر آمادہ کیا ۔ انیل مُسرت اور عمران خان کے تمام دوست شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر میں بروئے کار آئے اور آج تک یہ ادارے بے مثال کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں ۔۔ انیل ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے دامنِ وقت کو تھاما اور عمر بھر بیگار کاٹنے سے محفوظ رہے ۔ ورنہ زندگی کی جستجو کا رُخ اپنی ذات کی جانب موڑنے اور ثمرات اپنے خاندان تک محدود رکھنے والوں کی صورتحال آپ کے سامنے ہے ۔ حکومتوں کی تین تین باریاں لینے والے آج اپنے ملک میں اپنے ہی علاج کی سہولتوں سے مطمئن نہیں ۔
’’ نمل نالج سٹی ‘‘ خطہ پوٹھوہار کو چومتی، چہچہاتے پرندوں کا مسکن اور دور دیس سے آنے والی غافل کونجوں کی ڈاروں کی سرمائی پناہ گاہ ’’ نمل جھیل ‘‘ کے مغربی کنارے اور سالٹ رینج ( کوہستان نمک ) کے سب سے اونچے پہاڑ کی ڈھلوان پر عمران خان کا آباد کیا ہوا علم کا وہ شہر ہے جس کی ضیاء پاشیاں دُور دُور تک پھیل رہی ہیں ۔ اس شہر کی تعمیر میں انیل مُسرت اور عمران خان کے دیگر متمول دوستوں کا بہت اہم کردار ہے۔ دو ماہ قبل انیل مُسرت نے اپنے بیٹے کے نام پر قائم ’’ رافع مُسرت فاؤنڈیشن ‘‘ کے تعاون سے اس نالج سٹی میں دو سو بستروں کے جدید ہسپتال کے لیے بارہ ارب روپئے کی خطیر رقم مختص کرکے انسانیت کی عظیم خدمت سر انجام دی تھی ۔ اور یہیں انہوں نے بتایا تھا کہ میری عمران خان سے 2004 ء میںمُلاقات ہوئی اس عظیم لیجنڈ کی انسانیت کے لیے خدمات کا میں نہ صرف معترف ہوا بلکہ مجھے اس جانب متوجہ ہونے کی ترغیب بھی ملی ۔
انیل مُسرت نے میانوالی کا ہسپتال دو سال کے اندر مکمل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے پنجاب میں اسی نوعیت کے نو بڑے ہسپتال بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ ہسپتال پنجاب کے ہر ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں قائم کیے جائیں گے ۔ معلوم ہوا ہے کہ نمل نالج سٹی میں قائم کیے جانے والے ہسپتال کے نقشے انیل مسرت نے اپنے موجودہ دورہ پاکستان کے دوران طلب بھی کیے ہیں ۔ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں عمران خان کے بعد بُنیادی کردار علیمہ خانم کاہوگا۔ بلاشُبہ یہ عظیم خاتون بھی میانوالی کے اکرام اللہ خان نیازی مرحوم کے خانوادے کا وہ نصیبہ ہے جو اپنے خاندان کی سماجی روایات کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔ میانوالی میں اس ہسپتال کی سنگِ بنیاد کی تقریب میں تین ایسے معروف صحافی بھی موجود تھے جو ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہیں ۔ جس کے اور عمران خان کے درمیان گذشتہ سات آٹھ سالوں سے اختلافات چلے آ رہے ہیں ۔ یہ سب انیل مُسرت کے مہمان تھے ۔یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں جب نمل کالج کا افتتاح ہوا تو اُس کے وقت کے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ان کے مُسلم لیگی وزیر تعلیم احسن اقبال بھی مہمانوں میں شامل تھے جب کہ اس تقریب کی نظامت کے فرائض حامد میر نے انجام دیئے تھے ۔
لیکن اس مرتبہ یہاں انیل مُسرت کی جانب سے پاکستان کے سماجی شعبے میں سرمایہ کاری کے اعلان کے بعد ان کے خلاف مختلف محاذ سرگرم ہو گئے تھے ۔ یہ انیل مُسرت کی دشمنی سے زیادہ بُغضِ عمران تھا ۔ سوشل میڈیا اور اخبارات کی بعض تحریریں پڑھ کر ایسا لگتا تھا جیسے الفاظ سے اُن کے مفہوم بدگماں ہو گئے ہیں ۔۔ بے اعتباریوں کے مبروص موسموں نے سرمدی آنکھوں کے دائروں سے سارے منظر اُچک لیے ہیں ۔۔اور سورج کو سورج کہنے سے ڈرا جانے لگا ۔ اس میں کمال اُس ادبی اور صحافتی مافیا کا بھی تھا جسے گذشتہ دو عشروں کی حکومتوں کی جانب سے بے حساب نوازا جا تا رہا اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی نااہل ٹیم کی وجہ سے ان میں سے اکثریت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اور تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں ۔
کرتار پور راہدری کے ثمرات میں سے کیڑے تلاشنے کے کٹھن بیگار پر متعین ’’ ہجونامہ نویسوں‘‘ نے ایک مرتبہ پھر انیل مُسرت کو اپنے بُغضِ عمران کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی لیکن اس کی سماجی خدمات کے سامنے ٹہر نہ پائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے یہ تمام پروپیگنڈہ انسانیت کی خدمت کے ان کے جذبے کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس پر عمران خان کے دوستوں کو دیکھتے ہوئے اس انداز سے کپکپی طاری ہوجاتی ہے، جیسے ان کا ہاتھ برقی تاروں پر پڑ گیا ہو ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس ’’ اشرافیہ ‘‘ کو زرداری اور شریف خاندان کے ذاتی دوستوں سے کبھی کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوا چاہے وہ انڈین صنعتکار ہوں یا قطری شہزادے ۔۔۔ ان کے قلم خاموش اور زبانیں گُنگ ہی رہتی ہیں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔