وجود

... loading ...

وجود

جسٹن ٹروڈو کی جیت یا مودی سرکارکی ہار؟
(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

پیر 04 نومبر 2019 جسٹن ٹروڈو کی جیت یا مودی سرکارکی ہار؟ <BR>(سیاسی زائچہ..راؤ محمد شاہد اقبال)

کینیڈاکے حالیہ انتخابات میں ایک بار پھر سے جسٹن ٹروڈوکی جماعت لبرل پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یعنی اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو مسلسل دوسری بار کینیڈا کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں ۔عالمی ذرائع ابلاغ میں جسٹن ٹروڈو کی اِس جیت کو ایک مشکل ترین اور غیرمعمولی انتخابی فتح کے طور پرپیش کیا جارہاہے کیونکہ کینیڈا کی انتخابی تاریخ میں یہ پہلی بار ہورہا تھا کہ جب کئی بیرونی ممالک خاص طور پر امریکا اور بھارت جسٹن ٹروڈو کو ہرانے کے لیے مختلف حیلے بہانوں سے انتخابات میں براہ راست مداخلت کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ اپنے مذموم مقصد کے حصول کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے سی آئی اے سے ساز باز کرکے جسٹن ٹروڈو کی کردار کشی کرنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم بھی چلائی تھی ۔کردار کشی کی اِس مہم کو انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کے لیے ایک چیلنج کہا جارہا تھا اور ہوا بھی ایسا ہی یعنی اس مہم کی وجہ سے ٹروڈو کی جماعت کو گزشتہ الیکشن میں جیتی گئیں اپنی کئی نشستوں پر ہا ر کا مزاچکھنا پڑا لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جسٹن ٹروڈو بمشکل ہی سہی بہرحال حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ انتخابی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔

اَ ب آپ سوچ رہے ہوں گے بھارت کیوں چاہتا تھا کہ جسٹن ٹروڈوانتخابات میں شکست سے دوچار ہوجائیں تو عرض یہ ہے کہ جسٹن ٹروڈو کو بھارت کی برسرِ اقتدار جماعت بی جے پی انتہائی ناپسندیدہ شخصیت سمجھتی ہے ۔ بھارت میں ہندو توا کے پرچارک سوچتے ہیں کہ جسٹن ٹروڈو خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک کے زبردست حامی ہیں اور سکھوں کو کینیڈا میں ایک بڑی سیاسی قوت بنانے میں بھی جسٹن ٹروڈو کا ہی سب بڑا کردار ہے ۔ دلیل کے طور پر اُن کا ایک بیان بھی اکثر بھارت ذرائع ابلاغ پر بار بار دہرایا جاتا ہے ۔جسٹن ٹروڈو نے 2015 میں کینیڈا کے ایک مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انہوں نے اپنی کابینہ میں جتنی تعداد میں سکھوں کو جگہ دی ہوئی ہے ،اتنی جگہ تو سکھوں کو ہندوستان کی کابینہ میں بھی حاصل نہیں ہے ‘‘۔جسٹن ٹروڈو کے اِس بیان کی سچائی کا اندازہ کنیڈین حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ پارلیمانی رپورٹ میں پیش کیے گئے جائزہ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ 2015 میں ہندوستانی نژاد 19 افراد کو کینیڈا کے ہاؤس آف کامنز میں منتخب کیا گیا تھا ۔اِن میں 17 کا تعلق جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی سے تھا اور یہ سب کے سب سکھ تھے ۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ جسٹن ٹرڈو نے جب اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تھی تو اِس میں چار سکھ وزراء کو بھی شامل کیا گیا تھا ،جس میں ایک وزیر ہرجیت سجن کو تو وزارتِ دفاع جیسی اہم ترین وزارت سونپ دی گئی تھی۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جب سے کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو برسرِ اقتدار آئے ہیں ،تب سے بھارت میں چلنے والی خالصتان کی علیحدگی پسند تحریک میں تیزی آئی ہے ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب فروری 2019 میں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنے سات روزہ سرکاری دورے پر بھارت گئے تھے تو نریندر مودی کی حکومت نے انہیں نظر انداز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور جب مسٹر ٹروڈو اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ دہلی ائیرپورٹ پر پہنچے تو انہیں ایک جونیئر وزیر کے ذریعے خوش آمدید کہا گیا اور جب جسٹن ٹردوڈو تاج محل کی سیاحت کے لیے آگرہ پہنچے تو ان کے پروٹوکول کے لیے ایک مجسٹریٹ کو تعینات کیا گیا ۔کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے ایسے بدترین سرکاری پروٹوکول کی شاید ہی کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کی طرف سے روا رکھے جانے والے اِس امتیازی سفارتی سلوک کو بین الاقوامی میڈیا نے اپنی شہ سرخیوں میں نمایاں جگہ بھی دی، جس سے دنیا بھر میں مودی سرکار کی زبردست جگ ہنسائی بھی ہوئی تھی ۔اَب آ پ خود ہی سوچ لیں ایک ایسی بین الاقوامی سیاسی شخصیت جس سے بھارتی حکومت آخری درجہ کا بغض و عناد رکھتی ہو ،جب آئندہ ہفتے وہی جسٹن ٹروڈو ایک بار پھر سے کنیڈا کے وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھائیں گے تو بھارت بھر کے میڈیا میں کیا قیامت خیز کہرام برپا ہوگا۔

کنیڈا میں منعقد ہونے والے حالیہ انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کے علاوہ ایک اور بھی ضرب نریندر مودی کی سرکار کو لگی ہے اور اُس کاری ضرب کا نام ہے نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے جگمیت سنگھ۔ جن کی جیتی ہوئی 24 نشستیں کینیڈا میں حکومت بنانے کے لیے سب سے فیصلہ کن کردار کی حامل ہوگئی ہیں۔ یعنی کینیڈا کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ سکھوں کو اپنے ہمراہ شامل کیے بغیر حکومت بنانے کا اِمکان کسی بھی جماعت کے لیے بالکل صفر ہو کر رہ گیا ہو ۔ یاد رہے کہ جگمیت سنگھ کا شمار بھی اُن سکھ رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہیں بھارتی سرکار سخت ناپسند کرتی ہے اور اُن کے بارے میں بھارت کے میڈیا میںیہ پروپیگنڈا وقتا فوقتاکیا جاتا رہتا ہے کہ جگمیت سنگھ علیحدگی پسند خالصتان تحریک کے سب سے سرگرم حمایتی ہیں ۔اِس بناء پر بھارت سرکارنے ایک مدت سے جگمیت سنگھ کے بھارت داخلے پر بھی پابندی عائد کی ہوئی ہے ۔جسٹن ٹروڈو اور جگمیت سنگھ کا ایک بار پھر سے کینیڈا کے سیاسی اُفق پر طاقتور حیثیت میں سامنے آنے پر دہلی کی فضاؤں پر افسردگی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور بھارت میں تجزیہ کار وں نے اندیشے ظاہر کرنا شروع کردیے ہیں کہ اِس بار کنیڈا میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تعداد میں اہم ترین وزارتیں علیحدگی پسند تحریک خالصتان کے حامی سکھوں کے پاس چلی جائیں گی ۔اگر ایسا ہو گیا تو پھر یقینا بھارت سے علیحدگی کی تحریک خالصتان کو کامیاب ہونے سے زیادہ دیر تک روکنا مودی سرکار کے لیے ممکن نہ رہ پائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر