... loading ...
امریکا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی حمایت یافتہ افغان فورسز کے ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور صحت کے مراکز پر حملے کرنے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اس چشم کشا رپورٹ میں اہداف کو نشانہ بنانے کے امریکی طریقہ میں تبدیلی کی تفصیلات بھی بتائی گئیں جس کے مطابق ان فورسز کی جانب سے اندھا دھند فضائی حملوں میں اضافہ ہوا اور شہریوں کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ابیوزِو نائٹ ریڈز بائے سی آئی اے بیکڈ افغان اسٹرائیک فورسز( سی آئی اے) کی حمایت یافتہ افغان فوج کی رات کی غیر انسانی چھاپہ مار کارروائیاں کے نام سے جاری کردہ رپورٹ میں افغان فوج ک بدسلوکیوں کے انفرادی واقعات بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن کے دعوے کے مطابق رپورٹ میں درج کردہ 14 واقعات جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے عکاس ہیں اور کچھ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔مذکورہ رپورٹ میں سال کے اوآخر2017 سے لے کر 2019 کے وسط تک کے واقعات درج ہیں جس میں ان حملہ آور فورسز کے کمانڈ اینڈ کنٹرول، سی آئی اے کے کردار، امریکی فوج اور افغان حکومت کی نگرانی کی عدم موجودگی کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وسیع تر سیاسی استحکام کی غیر موجودگی میں امریکا اور طالبان کے درمیان کوئی بھی معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین تنازع کو ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی مختلف افغان گروہوں کے درمیان لڑائی کو بھڑکانے والے اختلافات کو حل کرسکتا ہے۔مزید یہ کہ اگر سیاسی استحکام ہو بھی تو بننے والے افغان حکومت، ملکی دفاعی فورسز کا ڈھانچہ اور موجودہ ملیشیاز اور شورش پسند قوتوں کو غیر متحرک کرنے کا عمل بھی انتہائی اہم ہوگا۔مارچ 2018 میں افغان فوج نے ایک افغان غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے رکن کے گھر پر چھاپہ مارا اور گھر میں موجود مرد و خواتین کو علیحدہ علیحدہ کردیا گیا۔جس کے بعد انہوں نے این جی او رکن کے بھائی کو گھر کے دوسرے حصے میں لے جا کر گولی ماردی اور اس کی لاش چھوڑ کر گھر کے ایک مرد کو اپنے ہمراہ لے کر چلے گئے جس کی تحویل کی افغان حکومت کی جانب سے تردید کی گئی۔اسی طرح اکتوبر 2018 میں افغان فوج نے ننگر ہار صوبے میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر ایک ہی خاندان کے 5 افراد کو ہلاک کیا جن میں ایک ضعیف خاتون اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔دسمبر 2018 میں خوست پروٹیکشن فورسز نے صوبہ پکتیہ میں رات گئے ایک سرچ آپریشن کے دوران بے دردی سے 6 شہریوں کو ماردیا جس میں 60 سالہ قبائلی رہنما معین فاروقی، صوبائی امن کونسل کے رکن کی آنکھوں میں گولی ماری گئی اور ان کے ساتھ ان کے بھتیجے کو منہ میں گولی مار قتل کیا گیا۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ صرف یہ چند کیسز ہیں نہیں ہیں بلکہ پڑے پیمانے پر جنگی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے عکاس ہیں جس میں کچھ جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ سلسلہ افغانستان کے تمام صوبوں میں جاری ہیں جہاں افغان فوج آزادی سے تعینات ہے۔