... loading ...
<p style=”text-align: right;”>ایواینجلیکن عیسائی پادری کے طور پر معروف سوشلسٹ فریڈرک لیوس ڈونلڈسن نے مارچ 1925 کوایک خطاب میں سماج کے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا۔جن میں سے ایک ’’Politics without principle‘‘ ہے۔پاکستان میں اُصول کے بغیر سیاست کا گناہ عام ہے۔ بدترین تقسیم سے دوچار ہمارے سماج میں ’’بے اُصولی‘‘ کی رعایت گروہ بندی کی نفسیات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ ہمیں عمران خان کے دھرنے کی مخالفت کے بعد اب مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی حمایت کرنی ہے۔ اس حمایت کی بنیاد بھی مولانا کے دلائل سے فراہم نہیں ہوتی۔ بلکہ میاں نوازشریف کے اُس خط سے ہوتی ہے جو اُنہوں نے شہبازشریف کے نام لکھا ہے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>میاں نوازشریف کے خطوط کو خطوطِ غالب کے بعد شاید سب سے زیادہ شہرت ملنے والی ہے۔ لسی پی کر آسودہ رہنے والے میاں صاحب کی حسِ خط نویسی اور صلاحیت ِ تحریر کے متعلق تو آج تک کسی کو معلوم ہی نہ ہوسکا۔ رقعوں سے تقریر اور پریس کانفرنس تک کرنے والے ہمارے سابق وزیراعظم خطوط میں اس قدر بسیار نویس ہوں گے، اس کا اندازا ہی نہیں لگایا جاسکا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اُنہوں نے ایک خط کیپٹن صفدر کے ذریعے مولانا فضل الرحمان کو ارسال کیا۔ دوسرا خط شہباز شریف کو لکھا، جس میں اُنہیں دھرنے کی سرگرم حمایت کی تاکید کی۔ شہبازشریف دھرنے کے خلاف مستحکم رائے کا اظہار کرنے کے باوجود اس کی حمایت اپنے برادرِ محترم کی اطاعت میں کرنے کا عندیہ دے چکے۔ اُنہوں نے ایک مشاورتی اجلاس میں موبائل فون باہر رکھوا کر یہ فیصلہ کیا کہ ایک وفد نوازشریف کے خط کو مولانا کی بارگاہِ اقدس میں پیش کرے اور آئندہ کی حکمت عملی پر بات کرے۔ درحقیقت دھرنے کے معاملے میں ہی نہیں ، حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے اندر شدید قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ نوازشریف کسی نوعیت کا دباؤ پیدا کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جو اسلام آباد کے طاقتور حلقوں میں تو کجا ، عمران خان ایسے تیزی سے نامقبول ہوتے وزیراعظم کو بھی پریشان کرسکے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>ابھی بارہ اکتوبر کی تاریخ کو صرف تین روز گزرے ہیں، سال 1999 کی اسی تاریخ میں نوازشریف کو وزیراعظم کے منصب سے بزور طاقت بے دخل کردیا گیا تھا۔ مگر تب اُن کا انحصار سعودی عرب اور امریکا پر تھا۔ پاکستان داخلی طور پر اس دباؤ کو قبول کرنے پر مجبور ہوا، اور خادم الحرمین شریفین کے ایک ’’خط‘‘ ہی نے اُنہیں شب کی تاریکی میں سعودی عرب پہنچا دیا۔ پاکستان کے اندرونی حالات میں غیر معمولی بدلاؤ اور سعودی عرب سمیت عالمی سطح پر نوازشریف کی حمایت کے معمولی جذبات رکھنے والے ممالک بھی مختلف وجوہات سے میاں نوازشریف اور اُن کے معاملات سے قطع تعلق کرچکے ہیں۔ ایسے حالات میں نوازشریف کے لیے ملک کے اندر دباؤ پیدا کرنے اور عمران خان سے چھٹکارے کے علاوہ کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہ جاتا۔ نون لیگ کی مجبوری یہ ہے کہ اُسے عوام کی انتخابی حمایت تو حاصل ہے مگر یہ حمایت کبھی بھی جماعتی نظم میں ڈھال کر سیاسی قوت میں بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ مسلم لیگ نون اپنی عوامی حمایت کو سڑکوں پر منظم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی کچھ کوششیں بھی ہوئیں مگر اپنا پیٹ اُٹھا کر کون دکھاتا ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ نوازشریف کے پاس مولانا فضل الرحمان کی شکل میں وہ واحد’’امید ‘‘ باقی رہ جاتی ہے،جو موجودہ حکومت کے خلاف بروئے کار آنے کی صورت میں اُن کے معاملات میں قدرے آسانی پیدا کرسکتی ہے۔ شہبازشریف اس حکمت عملی کو درست نہیں سمجھتے۔ جبکہ نوازشریف دباؤ کے بغیر مفاہمت کے امکانات کو اب ہر گزرتے دن مدہم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ مولانا فضل الرحمان اور اُن کے مارچ کے لیے نوازشریف کی گرمجوشی قابلِ فہم ہے۔</p>
<p style=”text-align: right;”>اب یہاں فریڈرک لیوس کے سماج کے سات میں سے ساتویں گناہ یعنی بغیر اُصول کے سیاست کو دھیان میں رکھتے ہوئے یاد کریں۔ نوازشریف جدہ اور لندن میں اپنے جلاوطنی کے ایام میں ایک سے زائد بارمولانا فضل الرحمان کو اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ قرار دے چکے ہیں۔ یہی نہیںوہ اپنے ملنے والوں کو واشگاف الفاظ میں کہتے رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کارندے سے عمر بھر ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ اگر چہ وہ ایم کیوایم کے باب میں بھی میثاقِ جمہوریت کے ایک عہد کو پی گئے تھے۔ سماج کے ساتویں گناہ میں آخر لذت بھی تو بہت ہے۔ اب وہ مولانا فضل الرحمان کے باب میںاپنی ساری باتیں فراموش کرچکے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ جنہیں اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ قراردیتے رہے ہیں، وہی کارندہ اسٹیبلشمنٹ کے سب سے زیادہ پسندیدہ کردار کے خلاف سب سے متحرک شخصیت کے طور پر پاکستان کے سیاسی اُفق پر چھا چکا ہے۔ اگر وہ سیاسی نقشہ اُتھل پتھل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ طاقت ور حلقوں کی مرضی کے برخلاف پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا اور اس کا خود مولانا فضل الرحمان سے بھی زیادہ فائدہ نوازشریف کو ہی پہنچے گا۔</p>
<p style=”text-align: right;”>اُصول کے بغیر سیاست کی فضاء میں ایک سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف مولانا فضل الرحمان کی تحریک کی حمایت کی کوئی اُصولی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیا واقعتا وہ ووٹ کو عزت دلانے کے لیے نکلے ہیں؟ اس کا جواب بھی ایک خط کی اطلاع سے ملتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ نوازشریف نے ایک خط اپنے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو بھی تحریر کیا ہے ، جس میں اُنہوں نے اپنے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے واضح ہدایات دی ہیں۔</p>
<p style=”text-align: right;”>نوازشریف نے اس خط میں اپنے صاحبزادے کو کچھ لوگوں سے خبردار کیا ہے ، اللہ نہ کرے کہ اس میں مولانا فضل الرحمان کا نام ہو۔ مگر اس کی اطلاع ضرور ہے کہ اُنہوں نے اپنے خط میں اپنی جماعت اور خاندان کے خود سے مخلصین کے متعلق اور اُن سے معاملات آگے بڑھانے کی نوعیت کو واضح کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دھرنے کے اس ماحول اور ووٹ کو عزت دلوانے کی اس مہم میں حسین نواز کو خط کے ذریعے کس کردار کے لیے ہدایت دی گئی ہے؟کیا یہ خط دھرنے کے دباؤ میں اپنے خال وخط سنوارنے اور فائدہ اُٹھانے کی کاروباری نفسیات کا حصہ ہے؟ اس بدگمانی کو چھوڑئیے!مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ نوازشریف کے پاس ملک میں حکومت کے خلا ف براہِ راست اور طاقت ور حلقوں کے خلاف بالواسطہ دباؤ پیدا کرنے والی کسی بھی تحریک کی حمایت کے سوا کوئی راستا نہیں۔ تاہم شہبازشریف سمجھتے ہیں کہ اُن کے پاس ابھی یہ راستا موجود ہے۔ اس لیے اُن کے نزدیک ابھی ووٹ کو عزت دلانے کا وقت نہیں آیا۔درحقیقت فریقین کوئی بھی ہو، سب اپنے مفادات کے کھیل ، کھیل رہے ہیں، مگر اس کھیل کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس الفاظ بڑے خوبصورت ہیں۔ سماج کا ساتواں گناہ ہم نے اپنے اوپر واجب جو کرلیا ہے۔ دیکھیے شاعر نے خود گناہ کو بھی کیسا باجواز بنا رکھا ہے:</p>
<p style=”text-align: center;”>گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یارب
تری نگاہِ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا</p>