... loading ...
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ اٹھارہویں صدی میں برطانیا ہر سال چین سے ساٹھ لاکھ پاؤنڈ مالیت کی چائے درآمد کرتا تھا ۔اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانیا میں میں چائے کی مانگ انتہائی حد تک بڑھ چکی تھی اوربرطانیا کو چائے کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے میں بے پناہ مالی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ چین چاندی کے علاوہ کوئی اور چیز چائے کے عوض بطورِ کرنسی لینے پر رضامند نہ تھا۔برطانیا نے چین کو چاندی کے علاوہ بے شمار متبادل جیسے ریشم کی مصنوعات،مٹی کے برتن ،لوہے کے آلات اور برطانوی کرنسی پاؤنڈ کی پیشکش کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن چین کے شہنشاہ، کون لانگ نے یہ کہہ کر چائے کے عوض چاندی کے علاوہ کوئی دوسری شے قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا کہ’’ اُن کے لیے یہ سب کچھ بیکار ہے اور ان کے ہم وطنوں کے لیے چاندی کے مقابل ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔چینی شہنشاہ کا انکار برطانیا کے لیے دردِ سر بن گیا جس کا حل برطانیا نے یہ ڈھونڈ نکالا کہ اِس نے افیون کا نشہ غیر قانونی طور پر چین کو بیچنا شروع کردیا۔چین میں اُس وقت افیون کو تمباکو میں ملا کر نشے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جلد ہی چین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ افیون کا رسیا ہوگیا اور افیون کے نشے کے عادی اس کے حصول کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے یہاں تک کہ برطانیا کے لیے جاسوسی بھی کرنے لگے۔چین کے شہنشاہ نے جب برطانیا کی طرف سے افیون برآمد کو روکنے کی کوشش کی اور تیرہ فیکٹریوں میں بیالیس ہزار افیون کے پائپ، اور بیس ہزار افیون سے بھرے صندوق قبضے میں لیے تو برطانوی تاجروں نے لندن پہنچ کر حکومت کو قائل کر لیا کہ وہ چین سے بدلہ لے۔ برطانوی سلطنت چین کے خلاف کارروائی پر فوری رضامند ہو گئی۔برطانیا کے جدید بحری بیڑے کے سامنے چین کی افیون کے نشے کی عادی بحری فوج انتہائی کمزور اور ناتواں ثابت ہوئی اور صرف پانچ گھنٹوں میں ہی اس نے مٹھی بھر برطانوی اہلکاروں کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیے۔ برطانوی حملے میں چین کے بیس سے پچیس ہزار فوجی ہلاک ہوئے جبکہ برطانیا کے صرف انہتر فوجی ہلاک ہوسکے۔برطانیا نے چین کو فتح کرنے کے بعد ایک ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت اس نے پانچ بندرگاہیں کھولنے کی اجازت لی۔ برطانیا نے اس معاہدے کے تحت ہانگ کانگ جزیرے کو اپنے اختیار میں لے لیا جہاں سے برطانیا نے چین میں افیون کی تجارت بدستور جاری رکھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کا وہ چین جس کی افواج نے افیون کے نشہ کی لت کی وجہ سے فقط پانچ گھنٹوں میں دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔ آج وہی چین دنیا کی اُبھرتی ہوئی سپر پاور بننے جارہا ہے ۔ یکم اکتوبر 1949ء کو مائوزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا۔مائوزے تنگ نے اس موقع پر اپنی قوم کی غیرت کو جھنجھوڑا اور افیون کے نشے میں ہر وقت دھت رہنے والی چینی قوم کے اندر انقلابی روح کو بیدار کر دیا۔ پوری قوم نے افیون کا نشہ ترک کر کے مائو زے تنگ کی صدائے انقلاب پر لبیک کہا تو مائو نے چین کے ماضی کو اپنی قوم کے لیے ”کالا وقت” قرار دیا اور اپنے عوام کو مستقبل میں ” روشن وقت ” کے جلد طلوع ہونے کی نوید سنائی۔ اس روشن وقت کو پانے کے لیے پوری چینی قوم نے اس قدر جاں فشانی، خلوص اور جذبے سے کام کیا کہ عظیم و قدیم تہذیب و ثقافت کا امین عوامی جمہوریہ چین آج اقوام عالم میں پورے قد کے ساتھ پہلی صف میں کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ چین کی اس قدر شاندار ترقی کا راز یہ ہے کہ اسے مائوزے تنگ، دینگ سائو پنگ، ڈاکٹر سَن یات سین، چو این لائی اور مارشل چھو جیسی دیانت دار، دور اندیش اور مخلص قیادت تسلسل کے ساتھ میسر آتی رہی۔گزشتہ دنوں یکم اکتوبر کو چین نے اپنے قیام کا 70 سالہ جشنِ آزادی شاندار آغاز میں مناتے ہوئے چین کے دارلحکومت پیکنگ میں شاندار عسکری پریڈ کا انعقاد کیا ۔جس میں چینی فوج کی طرف سے آواز سے کئی گنا تیز رفتار سے مار کرنے والا ہائپر سونک بیلسٹک نیو کلیئر میزائل دی ایف۔17 پہلی بار متعارف کروایا گیا ہے، جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نصب کردہ تمام میزائل شکن شیلڈز (ڈھال) کو توڑنے کی بھرپور صلاحیت کا حامل ہے۔جدید ترین ٹیکنالوجی کے موثر و ماہرانہ استعمال کی وجہ سے اس میزائل کی جائے وقوع کی نشاندہی انتہائی مشکل ہے۔ اس کے علاوہ اِسی پریڈ میں ڈی ایف۔41بین براعظمی میزائل بھی پریڈ کے موقع پر پیش کیا گیا جس کی مار 12 ہزار سے 15 ہزار کلو میٹرز تک ہے۔جدید عسکری ہتھیاروں کی نمائش کے بعد کہا جارہا ہے کہ معیشت کے عسکری محاذ پر چین نے اپنے آپ کو بطور سپر پاور متعارف کروادیا ہے ۔
چین کی اس بے مثال عسکری، معاشی، اخلاقی اور سائنسی ترقی کی بنیاد اگر چین کے نصاب تعلیم کو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ چین کا تعلیمی نصاب اپنی ”قومی زبان” میں ہے۔یہ نصاب تعلیم بچوں کے اندر بچپن سے ہی جذبۂ ایثار و قربانی، حب الوطنی، جھوٹ اور کرپشن سے نفرت، انسانیت کی خدمت اور اپنی قوت ِ بازو پر یقین و اعتماد کوٹ کوٹ کر بھر دیتا ہے۔ شاید یہ وجہ ہے کہ چین کے 97 فی صد نوجوان چین میں ہی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ ان کے خیال میں چین کا تعلیمی نظام اور تعلیمی اخراجات دنیا میں سب سے کم ہیں۔ چین کے رہنما ماؤزے تنگ کو یہ اعزازحاصل ہے کہ بہترین انگلش جاننے کے باوجود انہوں نے پوری زندگی کبھی انگریزی نہیں بولی یہاں تک کہ انہیں انگریزی میں لطیفہ بھی سنایا جاتا تو وہ اس وقت تک ہنستے نہیں تھے جب تک کہ اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ یعنی اپنی زبان سے محبت بھی چین کی ترقی کی وجہ ہے۔چین کے تمام لوگ بشمول افسران‘ مزدور سب مل کر ایک ہی جیسا کھانا کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی بھی ملک جاتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ چینی مصنوعات بھی لے آتے ہیں تاکہ دنیا کو چین کی مصنوعات سے متعارف کروایا جاسکے۔ چین کے عظیم قومی رہنما ماؤزے تنگ نے تاریخ کے سب سے بڑے لانگ مارچ کے دوران اپنی قوم کو ہدایت کی تھی کہ وہ لانگ مارچ کے دوران چنے اور گرم پانی ساتھ رکھیں۔ چنے تھوڑے سے کھانے سے آپ کی بھوک ختم ہوجائے گی اور گرم پانی آپ کو پیٹ کی بیماریوں سے بچائے گا۔اپنے رہنما کی اِس بات کو چینی عوام نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے پلو سے باندھ لیا اوریوں آج بھی چینی قوم گرم پانی استعمال کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ قوم صحت مند اور توانا ہے۔چین کی کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کررکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کومتعلقہ شعبوں میں وزیر‘ مشیر بنانے اور چین کے لئے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کو سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹی ٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تو اسے وزیر یا مشیر کے قابل نہیں سمجھاجاتا۔ یہاں تک کہ چین کے ہر آ نے والے صدر کو پانچ سال پہلے ہی صدر بننے کی تربیت دینا شروع کردی جاتی ہے۔ چینی قوم کی 70 سال کی مختصر مدت میں حاصل ہونے والی شاندارکامیابی کی داستان فقط ایک مشہور چینی کہاوت کے گرد گھومتی ہے کہ اگر’’ آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو مکئی لگاؤ‘ اگر تم دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ‘ اگر تم صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو لوگوں کی تربیت کرو اور تعلیم دو‘‘۔
٭٭٭٭٭٭٭