... loading ...
اقوام متحدہ کے چوہترویں اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریرکا قوم کو شدت سے انتظار تھا ،یہ انتظار اس لیے بھی ہونا تھا کہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اقوام متحدہ میں پہنچ کر کشمیریوں کا مقدمہ اس انداز میں پیش کروں گا کہ کشمیری اور پاکستانی قوم مایوس نہیں ہوں گے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ ان کے اس بیان نے جہاں قوم کی توقعات کو بڑھا دیا تھا وہاں ملک میں بدقسمتی سے اپوزیشن کی جماعتیں طرح طرح کے الزامات حکومت پر لگا رہیں تھیں یہاں تک کہہ دیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے مسئلہ کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے۔
ہم یہاں حکومت کی کارکردگی کی زیادہ تعریف نہیں کررہے لیکن جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی تنہا شخصیت کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ اس وقت حکومت ون مین شو کے مصداق ہے کیونکہ عمران خان تو قوم کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ملک میں رائج نظام ہے جو چوروں کو فرار ہونے میں پوری پوری سہولت کاری کا کام کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت میں شامل خود ان کی جماعت کے ارکان اسی نظام سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور تاحال ہورہے ہیںاس لئے جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی ذات کا معاملہ ہے تو اس میں شک نہیں کہ وہ قوم کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں مخلص ہیں۔ یہی اخلاص اقوام متحدہ میں اس کی تقریر سے چھلکتا صاف محسوس ہوتا تھا۔ جس میں انہوں نے مجموعی طور پر چار نکات بیان کیے جس میں ملک میں پھیلی ہوئی کرپشن اور مغربی ممالک کا چوروں کی لوٹی رقم کو اپنے ملکوں کے مالیاتی اداروں میںتحفظ دینابیان کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک منی لانڈرنگ میں سہولت کار ہیںاور غریب ملکوں کے طبقہ اشرافیہ کی لوٹی ہوئی دولت کوقانونی پیچیدگیوں کی آڑ میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے دنیا کو آگاہ کیا کہ اس سے جو دس ممالک سب سے زیادہ متاثر ہیں ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اسلام کے حوالے سے مغرب کا اسلاموفوبیا کے مرض میں مبتلا ہونا اور توہین رسالت کے حوالے سے مغرب کو آڑے ہاتھوں لیاآخر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور مودی کی دہشت گردی کے سامنے عالمی رائے عامہ کی خاموشی اور بے حسی بیان کیا گیا۔ بلا شبہ جہاں تک اس تقریر کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ میں کی جانے والی تاریخی تقریر کہا جاسکتا ہے جس میں تمام امت مسلمہ کی واضح نمائندگی موجود تھی۔ اس تقریرمیں انہوں نے اپنے مرکزی نکتہ نظر یعنی کشمیر کے حوالے سے واضح طور پر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ اگر دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اپنے دکانداری یا تجارتی مفادات کو کو ترجیح دی تو پھر دنیا میں کسی کا سودا نہیں بکنا کیونکہ دو جوہری صلاحیت کے حامل ملک آمنے سامنے ہوں گے۔پاکستان کے پاس اپنے سے سات گنا بڑے ملک سے جنگ کرنے کے سوا کوئی چارا باقی نہیں بچے گا اور اگر روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار چل گئے تو پھر معاملہ جنوبی ایشیا تک نہیں بلکہ یہاں کی حدود سے نکل کر مغرب تک دراز ہوگااسی لئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر بیان کردیا کہ وہ یہ بات کہہ کر دنیا کو دھمکانے یا ڈرانے نہیں آئے بلکہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیںانہوں نے صاف طور پر بیان کردیا کہ اس مرحلے میں بڑی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اسی کی قراردادوں کے تحت مودی کے دہشت گردانہ اقدام سے پہلے معاملات چل رہے تھیاور اقوام متحدہ کی ہی قرادادوں جس میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا گیا تھا کے تحت کشمیر ستر برس سے زائد عرصے سے حالت صبر میں تھے اب اگر مودی اور اس کی انتہاپسندانہ حکومت ان قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کو دوبارہ معمول پر لانے کے لئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔ اس کے علاوہ عالمی برادری کے سامنے انہوں نے مودی اور اس کی مادر جماعت آر ایس ایس کی قلعی کھولتے ہوئے کہا کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے بھارت کے بانیان میں سے مہاتما گاندھی تک کو قتل کردیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ سیکولرازم پر بھی یقین نہیں رکھتے بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور سیکھوں سمیت دیگر اقلیات کو دیس نکالا دے کر انتہا پسندانہ ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اس لئے جہاں تک دنیا میں اس عالمی ترین پلیٹ فارم یعنی اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر پاکستان اور مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے تقریر کرنا ہے تو اس میں شک نہیں کہ عمران خان سے پہلے کسی پاکستان رہنما نے اس مسئلے پر بات نہیں کی ہے۔ جبکہ بین الالقوامی سطح پر طیب اردگان کے بعد ان کا نمبر دوسرا بنتا ہے اس لئے طیب اردگان کے بعد اگر کسی نے امت کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے تو وہ وزیر اعظم عمران کان ہیں۔ اب اس تقریر کا عالمی رائے عامہ پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا پتا تو کچھ عرصے بعد ہی چل سکے گا لیکن جس قسم کی اقوام متحدہ کی تاریخ رہی ہے اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک کبھی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں رہے۔ مسئلہ فلسطین کو دیکھا جائے تو اس عالمی فورم کی ناک تلے دنیا کی سب سے بڑی جغرافیائی خیانت کی گئی بلکہ اس ادارے کا وجود ہی اس خیانت کو قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ ایک ایسی قوم جس کا جغرافیائی اور نسلی تعلق ہی اس علاقے سے نہیں بنتا تھا اسے یہودیت کے نام پر یہاں لاکر بسا دیا گیا اور جو اس خطے کے اصل وارث یعنی فلسطینی مسلمان تھے انہیں یہاں سے بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی گئی یہ مسئلہ بھی ستر برسوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے لیکن ہزاروں بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود اس عالمی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، یہی حال مسئلہ کشمیر کا بھی ہے اس کے علاوہ جدید تاریخ میں مشرق وسطہ کے ممالک عراق، شام، لیبیا اور یمن کے ساتھ جو کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ افغانستان میں جو خونریزی امریکی جھنڈے تلے ہورہی ہے اس پر یہ ادارہ اور اس کے ارکان ممالک زبان تک ہلانے کے روادار نہیں ۔ روہنگیا مسلمانوں پر قیام توڑ دی گئی کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اس لحاظ سے جہاں تک اتمام حجت کا تعلق ہے وہ وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی جامع انداز میں اس عالمی فورم پر کردی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں تک بھارت کی اس علاقائی جارحیت کا تعلق ہے اور جس دہشت گردی کو مودی عالمی سفارتی سطح پر اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہا تھا اورمغرب کے ساتھ ساتھ اس نے بہت سے عرب مسلمان ملکوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھے ان سب کا تو بیڑا غرق عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر کر دیا ہے۔لیکن اب صورتحال کیا شکل اختیار کرے گی اس کے خدوخال چند دنوں میں واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بابنگ دھل اقوام متحدہ میں کھڑے ہوکر کہہ دیا ہے کہ اگر دنیا نے اس معاملے میں سنجیدگی نہ دکھائی تو پھر اللہ مالک ہے پاکستان اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اطلاعات یہ ہیں کہ اسلام آباد میں مغربی سفارتکاروں کی سرگرمیان تیز ہوگئی ہیں اور وہ پاکستانی اپوزیشن کی عمران خان کے خلاف احتجاجی تحریک کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ بطور شخص عالمی مغربی لیڈر اور ان کی آقا ڈیپ اسٹیٹ عمران خان کو پسند نہیں کرتے ۔ انہوں نے این آر او، میثاق جمہوریت اسی لیے کرایا تھا کہ دو لگی بھگی جماعتیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی اقتدار کی گیند باری باری ایک دوسرے کی جانب اچھالتی رہیں اور ان دونوں جماعتوں کے لیڈر اپنی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار سے پاکستان کو اس قدر مالیاتی طور پر کمزور کردیں کہ پاکستان کے سامنے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے کھڑے رہنے کا حق چھین لیا جائے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کا بھارتی اقدامات کے خلاف عزم دیکھتے ہوئے اب شاطر بنیا انہیں معاشی ترقی کا لالی پاپ دینا چاہتا ہے کشمیریوں کو رام کرنے کے لیے پچاس سے ستر ہزار نوکریوں کی پیشکش کی جارہی ہے کئی ارب روپے کی لاگت سے فلم سٹی ، ہوٹل اور دیگر سیاحت سے متعلق ادارے تشکیل دینے کا اعلان کیا جانے والا ہے اسی منصوبے کے پس منظر میں مودی نے بھارت کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ــکشمیر کو دوبارہ جنت نظیر بنائیں گے، ہر کشمیری کو گلے سے لگائیں گے ــ‘‘ گلے کاٹنے والا مودی اب کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کرکے انہیں دوبارہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتا ہے لیکن یہ اس کی بھول ہے کہ ستر برس سے زائد عرصے پر محیظ ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے کشمیری مسلمان اس کے اس دھوکے میں آجائیں گے۔اس بات کو بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوگا کہ کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی وجہ سے نہ صرف بھارت کی بنیادیں ہل گئی ہیں بلکہ وہ ایک دو عرب اور مغربی ممالک جو کشمیر میں سرمایہ کاری کے ذریعے دولت کمانے چاہتے تھے ان کے منصوبوں پر بھی پانی پھیر چکا ہے۔ کیونکہ ماضی میں بھی کشمیری مسلمانوں نے اس طرح کے اقتصادی منصوبوں کو ٹھکرا دیا تھا اور اب بھی وہ یہی کریں گے۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کے ختم ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مودی سرکار کے ہاتھوں سے مزید نکل جائے گی اب یہی ہڈی مودی کے گلے میں پھنس چکی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جس نے بیان دیا تھا کہ اب بھارتی کشمیر نہیں بلکہ آزاد کشمیر کے حوالے سے بات ہوگی اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ان شاء جلد کشمیری مسلمانوں کے امیدوں کے مطابق حل ہوگا لیکن بھارت کو اب اپنی دیگر ریاستوں کی خیر منانی چاہئے، جنوبی پھارت میں ناگا لینڈ اور آسام میں آزادی کی تحریکیں پہلے ہی زور پکڑ چکی ہے اب مزید اس کی صورتحال دیگر ریاستوں میں ابھر کر سامنے آنے والی ہے۔ اب نہ صرف کشمیری مسلمان بلکہ بھارت میں بسنے والے تیس کروڑ سے زائد مسلمان بھی پاکستان کی جانب دیکھنا شروع ہوگئے ہیں ۔ سکھ اور دیگر ذاتوں کے ہندو بھی اب برہمن اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے چھٹکارے کے لئے کشمیر جیسے حل کے لئے جدوجہد کرنا شروع ہوچکے ہیں۔ مودی اور آر ایس ایس کے دہشت گرد قیادت نے ہندووتا کی جوت جگا کر اصل میں بھارت کے ٹکڑے کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک خصوصا چین میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں معاشی ترقی کے لئے بھارتی ہندوتا کے نظریے کو دفن کرنا لازمی ہے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے کہ بھارت کے پانچ سے سات ٹکڑے کردیئے جائیںیہ خود بھارت کی نام نہاد ریاست کے باشندوں کے حق میں بہتر ہوگا۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو مصنوعی اتحاد میں جکڑ کر وہاں انسانوں کا استحصال کیا جارہا ہے انتظامی امورکی کمزوری اس کا بڑا سبب ہے۔ مودی نے اپنے دہشتگردانہ اقدامات سے ثابت کردیا ہے کہ ’’اکھنڈ بھارتے‘‘ کا نظریہ درحقیقت برہمن اشرافیہ کی حکومتی سیادت کے لئے گھڑا گیا تھا حقیقت میں اس کا کوئی وجود ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا۔عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہوکر خطے میں آزادی کا جو نعرہ مستانہ لگایا ہے اس پر عمل پیرا ہوکر ہی نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت میں بسنے والے کروڑوں کی تعداد میں اقلتوں کو بھی آزاد کرایا جاسکے گا۔ دوسری جانب پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو بھی اب مکمل طور پر چونکنا رہنا پڑے گا۔۔۔ بھٹو اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق شہید کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔۔۔