... loading ...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!!
وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔
قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شامی جنہیں غلام بناکر رومن اٹلی میں پہنچا دیا گیا۔ اپنی حس و صلاحیت سے آقانے اُنہیں تعلیم آشنا ہونے دیااور پھر وہ اپنے غیر معمولی ذہن سے لاطینی مصنف بن کر اُبھرا۔خوبصورت فقروں، محاوروں اور ضرب الامثال سے اُس نے اخلاقی تعلیم دی۔ اُن کاخطابت کے حوالے سے ایک فقرہ دنیا کی ہر زبان میں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے، کہا:
’’Speech is the mirror of the soul; as a man speaks, so he is. ‘‘
’’خطابت روح کا آئینہ ہے، آدمی جو بولتا ہے، وہی وہ ہوتا ہے‘‘۔
فلسفی سینیکا نے خطابت کو ذہن کا آئینہ کہا ہے۔ یہ روح وذہن کے امتزاج سے مرتب ایک فی البدیہ تقریر تھی۔ جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔پاکستانی ہی نہیں یہ عالم اسلام کی تمام مملکتوں کے حکمرانوں کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ذہن وقلب کو رہن رکھوا چکے۔ اُنہوں نے مادی آسائشوں کے عوض اپنی اپنی مملکتوں کے مفاد کو سامراج کی قربان گاہ پر چھوڑ دیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق غلط تصورات کو رائج ہونے دیا۔ اور مغربی ممالک کو جھنجھوڑنے کی کبھی حقیقی کوشش نہیں کی۔ یہ مادی آسائشوں سے پیدا ہونے والی بدترین ذہنی غلامی تھی۔ افسوس کوئی ایک شخص بھی عالم اسلام میں ایسا نظر نہیںآتا جو تمام ذہنی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر دنیا کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہوسکے۔ عمران خان نے یہ کوشش کی۔ دنیا میں ہر حقیقی تبدیلی دراصل ذہنی غلامی سے آزادی کے بعد آتی ہے۔ پاکستان سات دہائیوں قبل آزادی سے فیضیاب ہوا، مگر اس پر ہمیشہ ذہنی غلاموں نے حکومت کی۔ اپنے عوام پر سفاکانہ جکڑ بندی اور مغربی آقاؤں کے سامنے عاجزانہ سجدہ ریزی ان کی روش رہی۔ایسا کبھی نہ ہو سکا تھاکہ کوئی حکمران مغرب کو آئینہ دکھاتاکہ وہ ہمارے تمام مسائل کی وجہ ہے۔ اُن کے الفاظ منافقت کی سڑانڈ ہے۔ اُن کا عمل غلیظ تعصب کی کجرو مثال ہے۔ کاش کبھی تو ایسا ہوتا۔ للہ الحمد، ایک بار ایسا تو ہوا۔
یہ کسی بھی منزل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے جب انسان ذہنی غلامی سے آزاد ہوکر اپنے ظالموں کو پہچان کر اُنہیں للکارتا ہے۔عمران خان نے یہی کیا۔ اگرچہ اُنہیں پاکستان میں بھنبھوڑا جائے گا کہ یہ بدترین تعصبات کے ساتھ مکمل منقسم سماج بن چکا ہے۔ جہاں سیاسی دشمنیاں وطن ِ عزیز کے مفادات اور محبت سے بڑھ کر ترجیح پاچکی ہیں۔ یہاں کی طاقت ور اشرافیہ نے اس نکتے کو سمجھنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ تعصبات سے حکومت چلانے اور آہنی گرفت پیداکرنے کا نتیجہ کتنا خطرناک نکلتا ہے۔ جب وطن کی محبت ذاتی نفرت کے مقابلے میں چھوٹی پڑ جاتی ہے۔جب لوگ اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے دشمن ملکوں کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔ دیکھیے اُس بھارتی شاعر عرفان صدیقی کو بھی یہیں یاد آنا تھا:
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
یہ مزاج پاکستان کے سیاسی متعصب حریفوں میں رچ بس گیا ہے۔ ایسا ذہن کہاں سے لائیں جو عمران خان کو اپنا سیاسی مخالف بھی سمجھتا ہو، مگر اُنہیں اپنے ملک کا وزیراعظم سمجھ کر وطن دشمنوں کو للکارتے ہوئے دیکھے تو اُنہیں خوش آئے۔مسلم امہ کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے اگر وہ دیانت دار دکھائی دے ، آزاد اور بے باک دکھائی دے، تو صرف اس پہلو سے وہ قابلِ تعریف سمجھا جائے۔اس کے لیے ایک اختلاف کی تہذیب درکار ہے، اس سے بڑھ کر تہذیبِ نفس بھی۔اس حرماں نصیبی پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ یہ اپنے چور کو ساہوکار اور دوسروں کے ساہوکار کو چور کہنے اور سمجھنے والا سماج ہے۔ یہاں جائز حرف پزیرائی بھی موقع ملامت بنادی جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے قبل کے سوشل میڈیا کو ٹٹولیں۔وزیراعظم کو مضحکہ اڑاتے مشورے دیے جارہے تھے۔ ایسے ایسے اندیشے خوشی خوشی بیان کیے جارہے تھے کہ وزیراعظم کی غلطیوں کی امیدمیں اپنی دُکان بڑھانے کی بے تابی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ہمارے اس قومی مرض میں اب پیپ پڑ چکی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ این آراو کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ رویوں کی تہذیب کے لیے ہوناچاہئے۔
عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سارے اندیشے غلط ثابت کیے۔ اپنے خوش گمانوں کی لاج رکھی۔ اور پاکستان کا ہی نہیں عالم اسلام کا مقدمہ اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ عالم اسلام کے تما م ممالک کے عوام سے داد سمیٹی۔ درحقیقت عمران خان کا پورا دورہ ہی تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے مگر اُن کا خطاب سب پر حاوی اور بھاری ہو چکا ہے ۔لہذا بحث کادائرہ اب اس خطاب کی گونج تک ہی محدود رہ سکتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا خطاب پچاس منٹوں پر محیط تھا۔ عام طور پر کسی بھی سربراہ حکومت کے لیے یہاںپندرہ سے بیس منٹ مختص ہوتے ہیں۔ دنیا میں حکمرانوں کی جو قسم کوس لمن الملک بجاتی ہے وہ ان پندرہ منٹوں کو بھی حد سے زیادہ سمجھتی ہے۔
کیونکہ اُنہیں کھوکھلے لفظوں کے ساتھ خانہ پُری کرنی ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی ماضی میں ایسے حکمران رہے جو کم سے کم وقت میں لکھے ہوئے خطاب سے جان چھڑانے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کے برعکس عمران خان نے پچاس منٹوں پر محیط خطاب کو تحریری نہیں بلکہ فی البدیہہ رکھا۔ گویایہ پرچی اور سرگوشی سے پاک خطاب تھا۔ خطاب سے قبل اسی سوشل میڈیا پر چرچے تھے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کو خطاب بھی ’’سلیکٹ ‘‘کرکے دے دیا گیا ہے۔ جو وہ اچھے بچے کی طرح دیکھ کر پڑھ آئیں گے۔ اس شرمناک پروپیگنڈے کے درمیان وزیراعظم جنرل اسمبلی میں بسم اللہ الرحمان الرحیم کے ساتھ فی البدیہہ گونجے۔عمران خان کا خطاب اپنے پیشکش کے اندر انفرادیت کے چار بڑے پہلو رکھتا تھا۔
اولاً:جنرل اسمبلی کے منچ پر ایسا خطاب کسی بھی مسلم حکمران نے نہیں کیا تھا۔
ثانیاً:فی البدیہہ خطاب کی ہمت کے ساتھ وقت کی قید سے بے نیاز اور موضوع کے انتخاب میں مغربی ممالک کی ناراضی یا خوشی سے آزاد ہونے کی یہ روش اس سے پہلے کبھی دکھائی نہ دی۔
ثالثا: عمران خان کے ہم عصر سیاست دان اس اندازوتیور اور الفاظ وخطاب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
رابعاً: یہ خطاب محض الفاظ کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ اس میں جذبے کا عمل دخل تھا۔جذبہ نہ ہو تو ایسے الفاظ زبان سے اس طرح ادا نہیں ہوسکتے۔
خطاب کی پیشکش کے ان عمومی پہلووؤں کے علاوہ خطاب کے مندرجات پر دھیان دیں تو اس کے اندر ایک موضوعی ہم آہنگی آدمی کو حیران کردیتی ہے کہ کوئی شخص پچاس منٹوں پر محیط اپنے خطاب کو ایک مرکزی خیال سے باندھ کر فی البدیہہ گفتگو کرنے کی ایسی قدرت کیسے رکھتا ہے۔ عمران خان کے خطاب کا مرکزی خیال’’ ریڈیکلائزیشن‘‘یعنی بنیاد پرستی اور اس کے متصادم مظاہر تھے۔ جنہیں اُنہوںنے چار نکات کے تحت مربوط کررکھا تھا۔ اسلاموفوبیا، ٹیررفنانسنگ، منی لانڈرنگ اور پھر حتمی طور پر ٹیررازم۔اس بنیادی تصور کے اندر رہ کر اُنہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی بے نقاب کیا، کشمیر کا مقدمہ بھی رکھا، اسلام کی حقیقی تصویر بھی پیش کی، ناموس رسالتﷺ کی عظمت کو بھی بیان کیا۔ مغرب کی دوغلی اور بیسوائی طبیعت کو بھی عریاں کیا۔ اگر اُن کے خطاب میں موضوعی تفہیم کے لیے اہم الفاظ دھیان میں رکھیں جو اُنہوںنے مختلف مواقع پر استعمال کیے تو اسلام کا لفظ 51مرتبہ استعمال ہوا۔خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺکا نام نامی، اسم گرامی 10مرتبہ استعمال کیا۔ عمران خان نے 15مرتبہ دہشت گردی کا لفظ، 14مرتبہ منی یا پھر منی لانڈرنگ، 10مرتبہ نوگیارہ حملوں، 7 مرتبہ پاکستان، 6 مرتبہ انسان اور 6 ہی مرتبہ اقلیتوںکا ذکر کیا۔ ہندو اور انڈیا کے الفاظ دو دو مرتبہ اُن کی زبان پر آئے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں پہلی مرتبہ اس امر کا ذکر کیا کہ خودکش حملوں کی روایت مسلمانوںکی نہیں۔ نوگیارہ سے پہلے یہ حملے تامل ٹائیگرز کرتے تھے، جو ہندو تھے۔ مگر اس کے بعد اگلے ہی فقرے میں اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا یہ ہندو دہشت گردی ہے، ظاہر ہے کہ نہیں۔ اس طرح ہندو بنیاد پرستی کو اجاگر کرنے کا جو سب سے بہترین اظہاریہ اختیار کیا جاسکتا تھا، وہ اُن کی جانب سے کیا گیا۔ عمران خان کا خطاب ہمہ پہلو معنویت کا حامل تھا۔ جس کے مزید گوشے اگلی تحریر کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں صرف یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہے کہ اس خطاب کے خلاف گفتگو کرنے کے لیے انسان کو انتہائی پست سطح پر جاکر بروئے کار آنا پڑتا ہے۔ اور سیاسی تعصب کی خرابی یہ ہے کہ وہ آدمی کواس پست سطح پر قانع بنادیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
طبیعتیں اُوب گئیں، بس کردیں سر جی!! ایسٹ انڈیا کمپنی کے دماغ سے کراچی چلانا چھوڑیں! آخر ہمار اقصور کیا ہے؟ سرجی! اب یہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری!! سر جی! سال 1978ء کو اب چوالیس برس بیتتے ہیں،جب سے اے پی ایم ایس او(11 جون 1978) اور پھر اس کے بطن سے ایم کیوایم (18 مارچ 1984) کا پرا...
دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...