وجود

... loading ...

وجود

دو قومی نظریہ

جمعه 13 ستمبر 2019 دو قومی نظریہ

مودی نے گنگا اُلٹی بہادی!!بھارت میں گنگا اُلٹی ہی بہنے کے لیے ہے!!!
گجرات کے قصاب اور2500 مسلمانوں کے قاتل، بھارت کے دہشت گرد وزیراعظم نریندر مودی نے نفرت کی ہانڈی تاریخ کے چولہے پر چڑھادی۔ اُنہوں نے حد سے بڑھ کر کہا: دہشت گردی کی اصل وجہ ”نظریہ پاکستان“ ہے۔ نائن الیون کے اٹھارہ سال مکمل ہونے پر مودی نے دہشت گردی کو عالمی خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو قرار دیا۔ مودی نے عالمی دہشت گردی کو پاکستان کا تناظر دینے کی نہ صرف مذموم اور مضحک کوشش کی،بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی ”نظریاتی اساس“ پر دھوکے کے ہتھیار سے حملہ کیا۔ پاکستان میں بھی ایک طبقہ اس کی نظریاتی اساس پر مستقل حملہ آور ہے، مگر دشمن ہم کو ہم سے بہتر جانتا ہے اور ہمارے وجہ وجود کی بنیادی حقیقت سے کامل آشنا ہے۔ یہی ہماری اصل طاقت کا راز ہے اور ہماری حیات کا ضامن بھی۔
مودی نے نظریہئ پاکستان کے جس تصور کو نشانے پر لیا ہے درحقیقت اُسی تصور نے مسلمانوں کو برہمنوں کے نشانے سے بچایا تھا۔ مودی نے اس طرح مسلمانوں کی ڈھال اورحصار کو اُن سے چھیننے کی کوشش کی ہے۔مسلمانوں کے لیے نظریہئ پاکستان تک پہنچنے کا سفر تاریخی طور پر ہندو جبرکا نتیجہ تھا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کے ہر طریقے پر پہرے لگانے شروع کردیے تھے، یہ ٹھیک آج کے ہندوستان جیسے بھیانک حالات تھے، جس میں مسلمانوں کے لیے زندگی کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا تھا۔ پاکستان کا نظریہ ہندوؤں کی تنگ نظری، برہمن سامراج کی پیش قدمی اور مسلم وجود کے خاتمے کی کٹر ہندو ذہنیت سے پھوٹا تھا۔ اِسے علامہ اقبالؒ نے بھانپا اور قائد اعظمؒ نے تجربے سے پرکھا تھا۔ یہ ایک مدبّر کی دوراندیشی اور ایک رہنما کی عملیت پسندی سے پختہ تر ہوا تھا۔ پہلے تاریخ اور پھر آج کے بھارت سے اِسے سمجھتے ہیں۔
ہندوؤں کے دو چہرے تھے۔ ایک گاندھی اور نہرو وغیر کا اور دوسرا سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ساورکر وغیرہ کا۔ دونوں مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے، مگر مسلمانوں کو برتنے کے لیے دونوں کی حکمت عملی میں فرق تھا۔ سردار پٹیل اور ہندو مہاسبھا کے ساورکر وغیرہ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ہر حالت میں روند دیا جائے۔ جبکہ گاندھی کا خیال تھا کہ مسلمان ایک حقیقت ہے اور اُنہیں کم پر مطمئن کرکے اپنی راہ نکالی جائے۔گاندھی اور نہرو کا باطن درحقیقت سردار پٹیل وغیر ہ کا ظاہر تھا۔ مگر وہ اپنی سیاسی حکمت عملی سے ایک فرق پیدا کرنے کے قائل تھے۔ یہ حکمت عملی اتنی گہری تھی کہ اس سے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی ایسے نابغہئ روزگار بھی دھوکا کھاگئے۔ تاریخ کے بہاؤ میں مسلمان جس مقام پر لاکھڑے کیے گئے، اُس کی تشریح مسلم رہنماوؤں یا علامہ اقبال اور قائداعظم کے فرمودات کے بجائے خود ہندو مہاسبھا کے صدر ساورکر، کے الفاظ سے کرتے ہیں:اُس نے 1937ء میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ
”یہ ایک ٹھوس واقعہ ہے کہ ہمیں یہ نام نہاد فرقہ وارانہ مسائل ہندو اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں کی
ثقافتی، مذہبی اور قومی معاندت سے ورثے میں ملے ہیں۔ آج ہندوستان کو ایک متحد اور ہم آہنگ قوم فرض
نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے برعکس ہندوستان میں دو بڑی قومیں ہیں۔ ایک ہندو دوسری مسلمان“۔
یاد رہے کہ ہندو مہاسبھا کے یہ صدر ”ونایک دامودر ساورکر“ ہندوتوا نظریے کے بانیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ اُنہیں کٹر ہندو ”ویر ساورکر“ کہتے تھے۔ تمام ہندو انتہا پسند تنظیمیں ایک ہی چشمے سے پھوٹتی رہی ہیں۔ چنانچہ ساورکر بعدازاں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے منسلک ہوئے،بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اسی تاریخ کی آج سیاسی وارث ہے۔ یہ کوئی راز نہیں رہا کہ گاندھی کو30 /جنوری 1948ء کو برلا ہاؤس (موجودہ گاندھی سمرتی) میں قتل کرنے والے”نتھو رام گوڈسے“اسی ہندو مہاسبھا سے تعلق رکھتے تھے، جس کے ساورکر رہنما تھے۔قتل کی تفتیش میں یہ راز بھی کھلا تھا کہ نتھو رام قتل سے قبل ٹھیک اُسی روز ساورکر سے ملا تھا۔ گوڈسے نے گاندھی کے قتل کے جو محرکات برسرعدالت بیان کیے، وہ یہ تھے کہ تقسیمِ ہند کوروکا جاسکتا تھا، گاندھی اپنے خیالات کے اظہار میں ہندومفادات کا لحاظ نہیں کرتے۔ چنانچہ تقسیم ہندکے اُصول کے تحت جو اثاثے پاکستان کے حصے میں آنا تھے، اُسے گاندھی کے قتل کے ذریعے روکا گیا۔ خود گوڈسے نے اس کا اظہار بھی کیا۔ اس نتھورام گوڈسے کا اصل سرپرست یہی ساورکر تھا اور اُس نے 1937ء میں اپنی تقریر میں کیا کہاتھا، وہ اوپر آپ پڑھ آئے۔آج بی جے پی ان عناصر کو اپنے رہنماوؤ ں اور ہیروز کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ دہشت گردی کی اصل وجہ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کا یہی کٹرپن تھا۔ اسی کو حکیم الامت علامہ اقبال ؒ نے اپنی نگاہ دوربین سے دیکھ لیا تھا۔ قائد اعظمؒ نے ہندوؤں کی سوچ میں موجود مسلمانوں کے خلاف اس بہیمانہ تعصب کا مشاہدہ کرنا شروع کردیا تھا۔ اب ذرا اُس جواہر لال نہرو کو بھی جان لیجیے جو بظاہر گاندھی کے راستے پر تھا۔ مگر عملاً اُس کے اند ربھی اسی انتہا پسندی کے جراثیم پنپ رہے تھے، جسے وہ حکمت عملی کے ہتھیار سے چھپاتے تھے۔
قانون ہند 1935ء (جو عملاً مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے لیے بنایا گیا تھا) کے تحت1936-37 میں متحدہ ہندوستان میں عام انتخابات ہوئے تو کانگریس نمایاں طور پر کامیاب ہوئی۔ تب عملاً نہرو، مودی میں تبدیل ہوگئے۔ اُنہوں نے 19/ مارچ 1937ء کو دہلی میں منعقدہ آل انڈیا نیشنل کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصور کرکے ہندوؤں سے سمجھوتا
کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔یہ اندازِ فکر قرونِ وسطیٰ میں رائج ہو تو ہو، موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا“۔
ساورکر اور جواہر لال نہرو کے مختلف حالات میں مختلف بیانیوں پر غور کر لیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا کہ مسلمانوں کو ساتھ رکھ کر مارا جائے یا الگ کرکے مارا جائے۔ چنانچہ مسلمان تقسیم کی صورت میں پاکستان کے سائے تلے الگ ہوئے توبھارت نے پہلے دن سے وطنِ عزیز کو نشانے پر رکھا۔ اور تقسیم ِ ہند کے باوجود جو مسلمان نہرو اور گاندھی کے بھرّے میں آگئے، اور ہندوبرہمنوں کے ساتھ رہے، اُنہیں ساتھ رکھ کر دائم نشانا بنائے رکھا۔ (گزشتہ روز کی تحریر میں اس کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی تھیں، مزید تفصیلات بھی انشاء اللہ جلد احاطہئ تحریر میں لانے کی کوشش کی جائے گی)۔بھارتی مسلمانوں کے لیے آج بھی یہی سوال ہے جس کاسامنا پاکستان میں موجود مسلمانوں نے تقسیم سے پہلے کیا تھا۔ یقین نہ آئے تو ایک ہفتے قبل جمعہ کی شب بھارت میں ہونے والی ایک کتاب ”Framed As Terrorist“ کی تقریب رونمائی میں چلیں،جہاں کتاب کا مصنف محمد عامر اپنی کہانی سناتا ہے۔محمد عامر چودہ برس بھارتی جیل میں قید وبند کی زندگی گزار کررہا ہوا۔ اُسے دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں گرفتار کیا گیا اور چودہ برس اُس کی زندگی کے چاٹ کر کہا گیا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ اس دوران میں محمد عامر کے والد کا انتقال ہو گیا اور پڑوسیوں نے بھی اُس کے گھر والوں سے ملنے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی ماں سے ”بیٹا“ لفظ سننے کو ترس گیا۔ جیل اور الزامات کی کہانی سناتی کتاب کی تقریب رونمائی میں محمد عامر نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے راز کی اصل بات بھی کہہ دی:
”ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے،آزادی سے قبل ملک کی تقسیم کاسانحہ پیش آیا،مگر مسلمانوں نے دوقومی نظریہ
کو ٹھوکر ماردی اور جناح کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ہندوستان کو تسلیم کیا،مسلمانوں
موقع سے نہیں بلکہ خواہش سے ہندوستانی شہری بنے مگر ستر سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مسلمانوں سے ان کی
حُب الوطنی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ سکیولرازم کے علمبردار مہاتماگاندھی کے قاتل کا مندر بنایاجاتا ہے اور اس کی
پوجا کی جاتی ہے اور مسلمانوں سے ان کی حُب الوطنی کے ثبوت کااستفسار کیاجاتا ہے ’ہم ایسے دور کی طرف بڑھ رہے
ہیں جہاں پر دوقومی نظریہ نہ صرف فروغ پارہا ہے، بلکہ جس سے آنے والی نسلوں کے لیے مشکل دور ہوگا او ردنیاکی عظیم
جمہوریت عراق، سیریا اور افغانستان کے طرز پر خانہ جنگی کے ماحول کاشکار ہوجائے گی“۔
مودی گنگا اُلٹی بہاتے رہیں، مگر بھارت کے اندر بہتی اُٹی گنگا میں سیدھی ڈبکی تو لگالیں، وہاں ایک اور پاکستان جنم لے رہا ہے۔ جس کی نظریاتی اساس وہ خود ”ساورکر“بن کر مہیا کررہے ہیں۔ایک اور نظریہئ پاکستان، اور ایک اور پاکستان۔بھارت کی سرزمین پر انگڑائیاں لے رہا ہے۔ پاکستان میں یہ کسی کو معلوم ہے، معلوم نہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر