... loading ...
وزیراعظم عمران خان کو اندازا ہونا چاہئے کہ وہی الفاظ آبرومند ہوتے ہیں جو عمل کی قوت رکھتے ہیں۔ شخصیات کے الفاظ، عمل پر اعتبار سے سرخرو ہوتے ہیں۔ قیادت کبھی بھی گفتگو میں غیر محتاط نہیں ہوسکتی۔ عمران خان مسئلہ کشمیر پر باربار، بتکرار اور بصد اِصرارایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی ریاستیں آمنے سامنے ہیں اور دنیا میں اب تک خطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہئے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران اشرافیہ باتوں سے ہی کام چلانا چاہتی ہے۔ دنیا کو ہم سے زیادہ معلوم ہے کہ خطرہ کی نوعیت کیاہے، وہ ہمیں بھی ہم سے زیادہ جانتی ہے۔
ذرا سوچئے! وزیراعظم ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ دو ایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں۔ اگر جنگ پاکستان کا انتخاب ہی نہیں تو پھر دنیا کو آپ کس ایٹمی خطرے سے ڈرا رہے ہیں۔ بات کچھ بنتی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیر خارجہ نے یہ بات ایک بار کہی ہو۔ پاکستان کی پوری وزارت خارجہ کا سارا بندوبست دنیا کو یہ بات باور کرارہا ہے کہ پاکستان جنگ کا انتخاب کبھی نہیں کرے گا۔ ذرا یاد کیجیے!اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے یہی بات ایک سے زائد مرتبہ کہی ہے۔امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید بھی یہ بات بارِ دگر دہرا چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کو اس متضاد بیان بازی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟پاکستان نے خود مسئلہ کشمیر کی حساسیت کو دن بہ دن، ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال کم کیا ہے پھردنیا کو اس کی پروا کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ پاکستان اب تک یہ طے نہیں کرسکا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹھیک ٹھیک دنیا سے چاہتا کیا ہے؟ وزیراعظم عمران خان کی اب تک کی تقاریر اور شاہ محمود قریشی کے اب تک کے خطباتِ جلیلہ سے کوئی تین چار نکات مرتب کرکے یہ واضح کرسکتا ہے کہ پاکستان کے دنیا سے کیا مطالبات ہیں؟بھارت نے ایک طرف کشمیر کو محبوس کردیاہے۔ جہاں خدمات کی فراہمی سمیت ترسیل اطلاعات کاسارا نظام ہی ساقط کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہمارا طرزِ عمل کیا ہے؟ پاکستان نے اب تک بھارت کے لیے فضائی حدود کی بندش کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی نے جی سیون کے اجلاس میں پاکستان کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے شرکت کی۔ پاکستان اب تک افغانستان کے ساتھ بھارت کے زمینی راستے سے جاری تجارت کو بھی نہیں روک سکا۔ کیا یہ ایک مزاق نہیں؟ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پاکستان قوم کو جمعہ کے روز ایک علامتی احتجاج کا راستا سجھایا گیا ہے۔ یہ غصے کو کنٹرول میں رکھنے اور بھارت مخالف جذبات کی باگ حکومت کے ہاتھ میں رکھنے کی ایک کوشش سے زیادہ کچھ نہیں لگتا۔ کیونکہ ٹھیک اُسی دن پاکستان نے بھارت کے ساتھ کرتار پور راہداری کے حوالے سے مذاکرات کیے۔ بھارت ہماری طاقت کو ایک کمزوری میں ڈھال رہا ہے۔ پاکستان سکھوں کے ساتھ ایک گہرائی پیدا کررہا ہے۔ مگر یہ بیل بھارت کے بغیر منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ بھارت اس معاملے میں زبان سے کچھ بھی نہیں بول رہا اور بس مذاکرات کا ڈول ڈالے ہوئے ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو بھارت کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے چاہئے، کرتار پور راہداری کے مسئلے پر بھارت نے ہمیں اپنی مرضی کے راستے پر ڈال رکھا ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس اپنے ہی اثاثوں کو بوجھ بنانے کی ایک لامحدود طاقت ہے۔ کرتار پور راہداری کے معاملے میں اس نوعیت کے خدشات اب سر اُٹھانے لگے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ اس نوع کے ناقابل فہم تعلقات و معاملات میں ہم دنیا کے ساتھ کیا بات کرسکتے ہیں؟متحدہ عرب امارات کی بات چھوڑیئے، وہاں جا کر یہ بات زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے۔
خطرناک بات یہ ہے کہ ان لچھنوں سے تو ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بھائیوں کو بھی مطمئن نہیں کرسکتے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر پابندیوں میں نرمی آنے کے بعد جب مظلوم کشمیری پاکستانی اقدامات کا ایک بہی کھاتہ بنائیں گے تو ہمارے پاس اپنی بے عملی کے علاوہ کیا ہوگا۔ وہ اقدامات جو بھار ت پر اثرانداز ہوسکتے ہو، یا پھر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھائیوں کے لیے کوئی فرق پیدا کرسکتے ہو، وہ اس کھاتے میں شاید کوئی ایک بھی نہ نکلے۔ ہوسکتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے لیے پاکستان کی اس بے عملی کو ایک مقدمہ بنانے میں بھی کامیاب ہو جائے۔ درحقیقت پاکستان نے اب تک بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لیے جو بیانیہ اختیار کیا ہے وہ آزاد کشمیر پر کسی بھارتی اقدام کے جواب سے عبارت ہے۔ گویا پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ صرف زبانی کلامی ردِ عمل کے لیے رکھا ہے۔ اس معاملے میں ہماری کوئی سرخ لکیر نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے اب تک پاکستان کا طرزِ عمل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بے عملی کو ایک مغالطے کی مکمل شکل دینے کی ضرورت ہے، اس لیے پاکستان میں جمعہ کو علامتی احتجاج ایسا حیلہ تخلیق کیا گیا۔کیا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو سکون سے بیٹھنا چاہئے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عمر کوٹ میں جلسے فرمار ہے ہیں۔ کیا یہ مقامی سیاست کا وقت ہے۔وزیر خارجہ کو معلوم نہیں یہ مشورہ کس نے دیا؟مگر آدمی سوچتا ہے کہ فارغ آدمی کے پاس کوئی کام بھی تو ہونا چاہئے۔ اِدھرہمارے وزیراعظم عمران خان فرمارہے ہیں کہ وہ اب دنیا میں کشمیر کے سفیر بنیں گے۔ وہ یہ نہیں بتا رہے کہ کب بنیں گے۔ روز ایک بیان، دو ٹوئٹس اور دو دنوں بعد ایک دو حکمرانوں سے ٹیلی فون پر بات چیت،یہ ہیں کشمیر کے سفیرہمارے وزیراعظم!!
وزیر اعظم عمران خان کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے انداز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔مودی نے کشمیر کے مسئلے پر ٹوئٹس نہیں کیے، جبکہ ٹوئٹر ہینڈل کو حرکت دینے میں وہ بھی وزیر اعظم عمران خان سے کچھ کم شوقین نہیں۔عمل کو ایک خاموشی درکار ہوتی ہے اور بے عملی پُرشور ہوتی ہے۔ یہی مودی اور عمران خان کے درمیان فرق کی وضاحت ہے۔ مودی نے دنیا سے پوچھ کر کچھ نہیں کیا، بلکہ کرکے دنیاسے تائید لینے نکلا۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ آپ دنیا کو ایک بیانئے پر قائل کرکے اور اپنے عمل کی تائید پاکر کچھ کرنے نکلے۔ مودی نے کشمیر کے اندر اپنے ”حقائق“ تخلیق کیے اور پھر تائید کے لیے میدان میں کودا۔ اب مودی نے جی سیون اجلاس سے قبل فرانس، بحرین اور متحدہ عرب امارا ت کے دورے کیے۔ تینوں ممالک نے کشمیر پر کوئی بات نہیں کی۔ اس کا ہندوستان کی جانب سے مطلب صرف یہی باور کرایا جارہا ہے کہ وہ ان تینوں ممالک سے عملاً تائید لینے میں کامیاب رہا۔ دنیا کسی اور طرح سے چلتی ہے۔ پاکستان اپنے ساتھ تعلقات نبھانے کی ساری ذمہ داری دوسرے ممالک پر ڈالنے کے بجائے اپنے حصے کی بھی تو کچھ ذمہ داریاں پوری کرے۔ جو اقدام پاکستان اُٹھانے کو تیار نہیں وہ پاکستان کے حلیف ممالک پاکستان کے لیے کیسے اُٹھا سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دیکھیں۔ موصوف نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی شرائط عائد کردیں۔سوال یہ ہے کہ بھارت آپ کے ساتھ کون سے مذاکرات کے لیے باؤلا ہوا جارہا ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ آخر اپنی توہین کی کس حد سے سیراب ہوں گے۔ بھارت مسلسل اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور ہم ہر روز خود ہی لفظوں کی ایک دنیا تخلیق کرکے اس پر اپنی مرضی سے ہار جیت کا حکم لگاتے رہتے ہیں۔ہماری باتیں بھی صرف ہمیں ہی خوش کرتی ہیں، اس سے دنیا کو کیا فرق پڑتا ہے؟شاہ محمود قریشی اور کچھ نہ کریں تو کم ازکم اپنی زبان ہی بند کرلیں۔وزیراعظم عمران خان ایسے عالم فاضل کو بھی اپنے علم وفضل کے چراغ نمل یونیورسٹی میں جلانے چاہئے۔ کاروبارِ مملکت ذرا مختلف چیز ہے۔