... loading ...
وقت ایک بے رحم صراف ہے، وہ کھوٹے کو کھرے سے الگ کردیتا ہے۔الفاظ اور عمل کے فاصلے کو ناپ دیتا ہے۔
مردِ حریت نے آواز دی ہے!! اب کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے لیے فیصلے کی گھڑی آگئی۔سید علی گیلانی نے پاکستان سے مدد کی اپیل کردی۔ یہ ایک باریک لکیر کا خاتمہ ہے، غور سے دیکھیں لائن آف کنٹرول دھندلارہی ہے۔ پاکستان کو اب ایک فیصلہ کرنا ہے۔
درحقیقت بھارت کے خلاف تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان ایک بہتر حالت میں ہے۔ مودی نے بھارت کو بُری طرح تقسیم کردیا ہے۔ بھارت کبھی اتنا منتشر نہیں تھا، جتنا آج ہے اور کشمیر کبھی اتنا متحد نہیں تھا، جتنا آج ہے۔تاریخ کے دیگر عوامل بھی پاکستان کے حق میں ہیں۔ امریکا افغانستان سے واپسی کے دروازے پر کھڑا ہے۔ جس کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔ امریکا کا غیر متوازن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے سال کے صدارتی انتخاب سے پہلے افغانستان کا حل چاہتا ہے تاکہ اِسے اپنی ایک کامیابی کے طور پر انتخابی مہم کاحصہ بنا سکے۔ چین پہلے سے زیادہ پاکستان کا حامی بن کر سامنے آیا ہے۔ کیونکہ لداخ کی حیثیت کی تبدیلی اُسے بھی گوارا نہیں۔ چین کے دوٹوک موقف نے روس کو بھارت کی ہمنوائی سے دور رکھا۔ درحقیقت روس عالمی صف بندی میں چین کے ساتھ کھڑا ہے اور چین کی معیشت اُس کے دفاعی حجم کو سنبھالنے کا ایک آسرا ہے۔ اس لیے علاقائی طور پر امریکا کے اس حریف کے لیے خود کو غیر جانبدار بنانا دراصل پاکستان کی یک نوعی حمایت ہے۔ امریکا اگلے چند ماہ تک پاکستان کے ساتھ تنازع میں نہ جانے کی ایک جبری حالت رہے گا،جب تک افغانستان کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا۔ پاکستان کے لیے یہ بہترین سودے بازی کاوقت ہے۔ بھارت نے کشمیر کو چھیڑ کر پاکستان کو اس پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے کہ وہ تنازعہئ کشمیر کے حل پر دنیا کو مجبور کردے۔ امریکا کی طرف سے ناقابل نظرانداز مجبوریوں کے باعث یہ ممکن نہیں کہ وہ بھارت کی بڑی منڈی ہونے کے باوجود اُس کی پاکستان کے خلاف کھلی حمایت کرسکے۔ یہ پہلو پاکستان کو دیگر یورپی ممالک اور عالمی اداروں کے سامنے بہت سی رعایتوں کو دلوانے کا موجب بنے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ میں اسی لیے بھارت کی دال نہیں گل سکی۔ یہ امکانات سے بھرا منظرنامہ ہے۔
کشمیر کے بحران میں پاکستان کے داخلی حالات بھی قابلِ غور ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ دونوں کے درمیان کسی بھی مسئلے پر کوئی تنازع نہیں یا کم ازکم سامنے نہیں۔ بھارت اور کشمیر کے مسئلے پر دونوں کے مابین مثالی ہم آہنگی کے باعث اب یہ دونوں کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ کسی بھی بڑے”انحراف“ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال سکیں۔ اگر کشمیر کے معاملے میں کچھ اچھا ہوا تو یہ دونوں ہی کریں گے اور کچھ بھی بُرا ہوا تو اس کے ذمہ دار بھی یہ دونوں ہی ہونگے۔ یہ پہلو جہاں دونوں کو طاقت ور بناتا ہے وہاں اُنہیں کمزور بھی کرتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس اب مسئلہ کشمیر پر کسی بھی بڑے انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ ڈان لیکس اور بھارت میں کاروبار کرنے والے سیاست دانوں کے عہد کی کُھسر پُھسر والی کیفیت سے پاک صورتِ حال ہے۔ جس میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی تو قطعاً کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا پاکستان کے اندرونی معاملات پر تو جو بھی فرق پڑتا ہو مگر کم ازکم کشمیر ایسے دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے تو یہ سود مند فضاہے۔
کشمیریوں کو اب مزید بہلایا نہیں جاسکتا۔ وہ جان، مال اور عزت کی قربانیوں کے ساتھ میدانِ عمل میں ہیں۔ حریت کا جذبہ موت سے زیادہ قابل عزت بن کر کشمیر کی وادی میں انگرائی لے چکا ہے۔ تاریخ ِ انسانی میں ایسا جذبہ کسی بھی جبر سے پا بہ زنجیر نہیں کیا جاسکا۔ سید علی گیلانی نے پاکستانی عوام سے مدد کی اپیل کی ہے۔ محتاط الفاظ میں یہ پاکستانی حکومت اور فوج سے اپیل ہے۔مرد ِحریت 89 سال کی عمر میں آزادی ئکشمیر کی تحریک کو جوان رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ اُن کا دل اپنوں سے زیادہ زخمی ہیں مگر پھر بھی اُن کی ”اپنوں“ سے”اپنائیت“کم نہیں ہوتی۔ قدرت ایسے لوگوں کو جن سانچوں سے ڈھالتی ہیں وہ پھر توڑ دیتی ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ کبھی دوسرے نہیں ہوتے۔ کشمیر کی سرزمین پر سید علی گیلانی ایسا دوسرا شاید ہی کبھی جنم لے سکے۔ ایسے لوگ تاریخ کا بانکپن ہوتے ہیں۔ تاریخ ان کے نام سے اِتراتی، اِٹھلاتی ہے۔ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ایسے لوگ اپنی زندگیوں میں مردِ حریت کے موقف کو فتح یاب ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ بھارت نے انہیں بھی کوڑے دان میں ڈال دیا۔ تاریخ میں بھی یہ جائے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ سید علی گیلانی نے عوام کے نام اپنے خط میں یہ بارِ دگر یاد کرایا کہ بھارت نے کشمیریوں کے اِن سوداگرو ں کو بھی نظر بند کردیا ہے۔ اب ان کی مشروط رہائی کے متعلق چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ بھارت کو کشمیر میں کچھ سرگرمیوں کی ضرورت ہے، چنانچہ یہ مشروط رہائی مطلوبہ ہدف کے حصول کا ایک جال بھی ہوسکتی ہے۔ مگر سید علی گیلانی بہت آگے بڑھ کر سوچ رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے خط میں کشمیر ی حکام، بیوروکریٹس اور پولیس حکام کو پیغام دیا ہے کہ نئی دہلی کو اُن پر بھی کوئی اعتماد نہیں۔ اسی لیے پولیس کو غیر مسلح کرکے سارے اختیارات فوج اور نیم فوجی دستوں کو دے دیے گئے ہیں۔ سید علی گیلانی نے سرکاری حکام کو کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کے احتجاج میں شامل ہو جائیں۔ سید علی گیلانی نے اس نکتے کو اُجاگر کیا ہے کہ احتجاج میں شامل نہ ہوئے تو وہ بھی بھارت نواز سیاست دانوں کی طرح غیر ضروری ہو جائیں گے۔ یہ پاکستان کے لیے بھی ایک تنبیہ ہے۔ خون دینے والے باتوں، وعدوں اور نعروں سے نہیں بہلتے۔ پاکستان کو اب کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ہے۔
پاکستان کے لیے گردوپیش کے تمام حالات موزوں ہیں، اگر وطنِ عزیز نے آج کشمیر کو فیصل نہ کیا تو شاید ہی اتنا سنہری موقع کبھی حاصل ہو۔ بھارت اپنے ایجنڈے کی جانب بتدریج بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے بجا طور پر اس مسئلے کی بین الاقوامیت کو بحال کرادیا ہے۔ دنیا اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوچکی ہے۔ امریکی صدر حالیہ چند دنوں میں اس پر تین مرتبہ ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں۔ کشمیر کا دباؤ قابل لحاظ حد تک بڑھ رہا ہے۔ اسے ایک حقیقی تبدیلی میں ٹھوس طریقے سے ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس سنہری موقع پر اب تک الفاظ کی جنگ لڑرہا ہے۔ جو اگرچہ چھوٹی نہیں۔ مگر اسے عملی اقدامات کی طرف پیش قدمی کے لیے قوم کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مردِحریت سید علی گیلانی کی اپیل کے بعد اب پاکستان کے لیے کشمیریوں کو مطمئن رکھنے کا محاذ کھل چکا ہے۔ پاکستان کا حال دیکھ کر ایک اطمینان کی لہر پید ا ہوتی ہے مگر تاریخ پڑھ کر ریڑھ کی ہڈی سنسنا اُٹھتی ہے۔ ہم اپنے آج اور پچھلے کل کے درمیان گومگو کی کیفیت میں کھڑے ہیں اور سید علی گیلانی کی اپیل اس کے درمیان گونج رہی ہے۔ یہ تاریخ ساز لمحات ہیں۔