... loading ...
زندگی کسی خواب کے تعاقب میں ہوتو بسر کہاں ہوتی ہے!زندگی، زندگی سے لڑتی ہے۔ہاتھوں پر بہتی لکیروں کی آبِ جو میں بھی قسمت کا کھیت بنجر دکھائی پڑتاہے۔پتھر کی لکیریں اورپانی پر بنی تصویریں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتی ہیں۔اندیشے اور یقین میں فاصلے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ خواب خود خوابوں سے دھوکا کھانے لگتے ہیں۔ ہائے عمران خان!!ہائے یہ ایوانِ بالا!!
سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت کی شکست نے جمہوریت کے بنیادی فلسفے کو بے نقاب کیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے کیا کیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں یہ سب ممکن ہے۔ یہاں ہر بدی کا سبب موجود ہوتا ہے۔ ہربُرائی باجواز بنا دی جاتی ہے۔ چنانچہ جمہوریت کے خود اپنے ساتھ کھلواڑ کا ایک جواز طاقت ور قوتوں کی جنبشِ ابرو کی محتاجی قرار دی جاتی ہے۔ مگر جو جمہوریت اپنے آپ کو خود مکتفی نہ بناسکے، جسے اپناآپ بچانا نہ آتا ہو، جسے اپنی تقدیس کی حفاظت کا یارا نہ ہو، اُسے عوام کے لیے کیسے قابلِ اعتبار بنایا جاسکتا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جو اپنے اوصاف کی حفاظت پر قادر نہیں؟طاقت کے آگے سجدہ ریز جمہوریت طاقت کیسے پاسکے گی؟
پاکستان کے ایوان بالا میں جو’کچھ‘ ہوا، اس میں ’کچھ‘بھی نیا نہیں۔البتہ اس پراُٹھنے والا ردِ عمل نیا نیا سا لگتا ہے۔ ہندسوں کے ہیرپھیر کی ترکیب آزمودہ ہے اور باربار آزمائی گئی۔ جو شکار ہوئے وہ اِس کھیل کے بار بار شکاری رہے ہیں۔ شکار ہونے والی دونوں جماعتوں نے چھانگا مانگا سے مری تک ان ”مقدس“ ایوانوں کے”قابل عزت نمائندوں“ کی”تکریم“میں رقاصائیں تک پیش کی ہیں۔ رات کی کہانیاں دن کے اُجالے میں عام بھی ہوئیں، مگر وہ ”شیخ“ کوئی اور ”شیخ“ تھے، جو ننگے نہ دکھائی دیے۔ اس مرتبہ کے شیخ نہ جانے کیوں عریاں نظرآئے۔ ایک گانے کے پرانے بول تازہ جو ہوگئے:شکاری خود یہاں شکار ہوگیا!! چودہ سینیٹرز کا ہندسہ بھی الجبرا کا سوال بن گیا ہے۔ یہ برُائی کے بُرائی سے ٹکراؤ میں لامحدود الجبرا کا انصاف ہے۔ کل کانٹے بونے والے آج پھولوں کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما لطیف کھوسہ نے ایک فقرے میں پوری کہانی سنا دی کہ اگر اپوزیشن اتحاد کے سینیٹرز کو کہیں تو 64 تو کے 64 سینیٹرز قرآن اُٹھا کر کہیں گے کہ ہم نے صادق سنجرانی کے خلاف ہی ووٹ ڈالا ہے۔ یہ ہے وہ فقرہ جس میں ہماری پوری تاریخ قید ہے۔جس کا ہر باب خون سے لتھڑا ہوا، غم سے رندھا ہوا اور آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔ چور، چوری کے سامان کے بغیر چور نہیں ہوتا۔ اور ”چوری کا سامان“تقدیس و تعظیم کا مستحق سمجھا جارہا ہے۔ یہ آج کی جدید اور جید تنقید کے تیور ہیں۔ہمیشہ مینڈیٹ چوری ہوا ہے مگر مینڈیٹ جب ایسا ہی کچرا ہو تو اس سے گلشنِ جمہوریت سنورے گا اور نہ ہی اس کی آبرو باقی بچے گی۔ سوال جمہوریتوں اور سیاسی جماعتوں کا ہے، وہ ایسا انگڑ کھنگڑ کیوں آگے بڑھاتے ہیں، جو غریب کی جوڑو اورجوان بیوہ بن کر اٹھلاتے لہراتے اور ٹھمکے لگاتے رہتے ہیں۔چوری کا سامان، چوری ہی ہوتا ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر عدم اعتماد کی تحریک میں چودہ ارکان کی چوری کا واقعہ بھی ایک نوع کا چسکا بن چکا ہے۔ تحریک کے حق میں 64 سینیٹرز پورے بانکپن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر جب اس پر رائے شماری کی جاتی ہے تو 14 ووٹرز غائب ملتے ہیں۔ اس واقعے کے ذریعے اپوزیشن اتحاد کی سوشل میڈیا پر خوب مزاح پرسی کی گئی۔ کہا گیاکہ بعد میں کھانے پر بھی 64 پورے کے پورے تھے۔ حیرت ہے ان میں 14 نے تو پہلے ہی ”کھا“ لیا تھا، پھر بھی وہ اپوزیشن اتحاد کے دستر خوان پر موجود تھے۔سوشل میڈیا پر جو دسترخوان سجایا گیا، اُس میں ڈش بھی خیالی پلاؤ کی رہی ہوگی۔چند ثانیوں کے بعد 64 سینیٹرز 50 کیسے ہوگئے؟ 14 جب کہیں شمار نہ ہوسکے تب بھی 45 سینیٹرز 50 پر کیسے بھاری پڑگئے؟ جن کی سمجھ میں حساب کتاب نہ آئے اُنہیں ماضی کی کرکٹ میں جھانک کر پاکستان کے سست رفتار بلے بازمدثرنذر کو یاد کرناچاہئے۔ ایک اسکول کے بچے سے استاد نے سوال کیا کہ اگر مدثر نذر پہلے اوور میں ایک رنز بنائے تو پچاس اوورز میں کتنے رنز بنائے گا؟ اسکول کے بچے نے ذرا بلند آواز میں کہا کہ استاد جی ایک ہی رنز۔ استاد نے غصے سے کہا کہ تم حساب نہیں جانتے۔ بچے نے لہک کر کہا سرجی آپ مدثرنذر کو نہیں جانتے۔ سینیٹ کے حساب کتاب میں اظہارِ حیرت کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ ”چوری کا سامان“ اصل میں ہے کیا؟ جمہوریت دراصل ایسا ہی گھن چکر ہے، جس میں طاقت کا مرکز ایک بڑے دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔تضادات جزوِ لاینفک اور وفاداری محض ضرورت کی سودے بازی کا نام ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کے لیے جو زبان اب استعمال کی ہے، اُسے پڑھتے ہوئے اُن کی چیئرمین سینیٹ کو مٹھائی کھلاتے ہوئے پرانی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب ڈاکٹر قیوم سومرو چیئرمین سینیٹ کے لیے صادق سنجرانی کو منتخب کرانے کی خاطر کوئٹہ میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے،تب اس جیت کا سہراآصف زرداری نے اپنے سر باندھا تھا۔ ”ضمیر“نامی چڑیا تب شاداب کھیتوں میں دانے چگتی تھی۔ اب وہ ہماری منڈیروں پر بیٹھ کر اچانک ”چوں چوں“ کا شور کرنے لگی ہے۔ پہلے فیصلے سے اس فیصلے تک جمہوریت کا سفر ایک جیسا ہی ہے، پورا غلط یا پھر پورا درست۔ یہ ہے پورا سچ!!ذرا دیکھیے! اب ’کوئی شرم کوئی حیا والے‘ خواجہ آصف کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایوان بالا کے انتخابی طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا، ہم نے یہی الفاظ عمران خان کی زبان سے سنے تھے۔ پہلے اُن کے الفاظ پر یہ بہرے ہوگئے تھے، اب عمران خان کی حکومت بہری ہوگئی ہے۔یہ ایک دوسرے کے خلاف ایک جیسے لوگوں کا ایک جیسا برتاؤ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف ایک جیسی حکومتوں کے ایک جیسے نتائج ہیں۔ایک مغربی دانشور نے پکی جمہوریت کی مغربی ریاست کے نمونے میں سیاست دانوں کی وفاداری پر لکھا تھا کہ کچھ لوگ پارٹی کے لیے اُصول بدل لیتے ہیں اور کچھ اُصولوں کے لیے پارٹی بدل لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اُصول اور پارٹی دونوں ہی سکوں کے لیے بدلی جاسکتی ہے۔ مگر اس تبدیلی کا جبر یہ ہے کہ اِسے حُب الوطنی کی آئینہ دار بھی سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ جبر بھی کسی ایک جماعت نے روا نہیں رکھا۔ یہا ں کوئی کام بھی ایسا نہیں جو ایک جماعت نے کیا ہو اور کسی دوسری جماعت سے وہ سرزد نہ ہوا ہو۔ ا س کے باوجود بے شرم سیاسی جماعتیں اپنے عہد کو فراموش کرکے دوسرے عہد میں اپنے ہی کیے ہوئے کاموں جیسی حرکتوں پر دوسروں کی گوشمالی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ روسی زبان کی کہاوت کیسی ان پر ”صادق“ آتی ہے: میں جب بہو تھی تو مجھے ساس اچھی نہیں ملی اور جب ساس بنی تو بہو اچھی نہیں ملی!!جہاں تک حکومت کا سوال ہے تو وہ اپوزیشن کی اپوزیشن میں اپوزیشن جیسی ہی حرکات کی مرتکب ہو کر اپنے مستقبل کو ان کا ماضی سے مختلف نہ بنا پائے گی۔ابھی کل وہ 35پنکچروں والی اپوزیشن فرما رہے تھے اب وہ 14پنکچروں والی حکومت چلائیں گے۔ مدینہ کی ریاست کا خواب تو بہت دور کی بات ہے ایسی زبانوں سے لفظ مدینہ کا اظہار بھی توہین لگتا ہے۔ عمران خان تو ایک ایسی بہو ہے جس کی ساس بھی خود اُن کے اندر چھپی ہوئی ہے۔