... loading ...
اقبالؒ کا کہنا ہے کہ
کیا چرخِ کج رو، کیا مہر، کیا ماہ
سب راہ رو ہیں داماندہئ راہ
عمران خان کہا کرتے تھے کہ اگر لیڈر ٹھیک ہو تو جاہلوں اور نااہلوں سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی نے پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے ناموں کی حقیقت اس انداز سے آشکارا کی ہے کہ سب کو یقین ہو گیا ہے کہ موجودہ حُکمران جماعت میں ایک بھی دوسرا عمران خان تو دُور کی بات ہے کوئی اُس کے قریب بھی نہیں پہنچتا۔ کپتان اپنی ساکھ پر اپنے کھوٹے سکے چلا رہا ہے، ناتجربہ کاری اور بیوروکریسی کی چالاکی نے مُشکلات کا پہاڑ لا کھڑا کیا ہے۔ وزراء اور مُشیر منظر اور پس منظر کے ادراک سے محروم ہیں۔ شبلی فراز کی کھچائی کی خبر صرف شیخ رشید نے دی ہے۔ آزاد ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ وزیر اعظم کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگانے والوں سے کوئی باز پُرس بھی کی جائے گی یا انہیں بھی عامر کیانی کی طرح ”پوتر“ قرار دے دیا جائے گا۔
جنابِ وزیر اعظم ایسا کرنا بے نیازی نہیں ایک سنگین کوتاہی ہوگی جس کے اثرات مستقبل کی سیاست پر ایسا تاثر چھوڑ یں گے کہ مداوا مشکل ہوسکتا ہے۔ ابھی تو دورہئ امریکا کے ثمرات کی انسپائریشن کا وقت تھا کہ ایک سازش کے تحت کامیابی کے اثرات زائل کرنے کی کاوشیں شروع کر دی گئی ہیں۔
دُنیا کا طاقتور ترین صدر جب پاکستان کے وزیر اعظم اور پاکستانی قوم کی تعریف کر رہا تھا تو ماضی میں امریکیوں کی جانب ادا کیے گئے یہ توہین آمیز الفاظ زبردستی سماعتوں سے ٹکر انے کی کوشش کر رہے تھے کہ ”پاکستانی رقم کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔“ اس مرتبہ تحسین کے یہ ڈونگرے اُسی مُلک کی طرف سے برسائے گئے جس کے ایک وزیر دفاع جنرل کولن پاول نے ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ آج اُسی ملک کا صدر پاکستانیوں سے درخواست کر رہا تھا کہ انہیں ”پتھر کے علاقے“ سے نکالا جائے۔ یہ پاکستانیوں کی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ جس میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے رویہ کی بدولت شروع ہی سے تنقید کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ سفارتی آداب انہوں نے کئی مرتبہ پامال کیے۔ وہ امریکی صدر کے منصب پر فائز تو ہو گئے لیکن ان کے اندر کا ”ریسلر“ ریٹائر نہیں ہوا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے رُوبرو ان کی سنجیدگی حیران کُن قرار دی جا رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود عمران خان بھی ہیں۔
کپتان سماجی خدمت اور سیاست کے میدان میں کئی عشروں سے ہیں لیکن ان کے اندر کا ”کھلاڑی“ بھی ہمیشہ جوان ہی رہا ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ سیاست کو بھی کھیل سمجھتے ہیں۔ سیاست کو جس کھیل سے تشبیہ دی جاسکتی ہے وہ شطرنج کا کھیل ہے۔ لیکن کپتان اس کھیل کے حوالے سے خاصے کورے ہیں۔ جبکہ ان کی پارٹی میں بہت سے ایسے ہیں جو ان کے ساتھ بھی”چالیں“ چلتے رہتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے دورہ امریکا کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق امریکی صدر کے مشیروں نے انہیں ایک سے زائد مرتبہ یہ بریفنگ دی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کسی بھی ایسے رویے یا طرزعمل سے گریز کیا جائے جس کا فوری جواب سُپر پاور امریکا کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہو۔ انہیں بار بار بتایا گیا کہ کپتان ایسے معاملات میں اُدھار پر بالکل یقین نہیں رکھتے۔ عمران خان کے ایسے ویڈیو کلپس سے بھی مدد لی گئی جس میں وہ اپنے فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ امریکی دفترِ خارجہ پہلے ہی اُس وقت سے عمران خان کے فوری ردِ عمل دینے کی عادت سے آگاہ تھا جب عمران خان نے اپنے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب ترکی بہ تُرکی دیا تھا۔ بھارت کو فوجی محاذوں پر دیے گئے جوابات بھی عالمی برادری کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔
کپتان نیازی قبائل کی جس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں وہ شیر مان خیل کہلاتی ہے ان کی دادی مرحومہ کے ایک بھائی (جو کہ پولیس میں انسپکٹر تھے)نے نمل کے علاقے میں دہشت پھیلانے والے خونخوار شیر سے ہاتھا پائی شروع کر دی تھی۔ نومبر 1994 ء میں وہ اپنے آبائی شہر میانوالی میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ مہم میں شریک تھے۔گورنمنٹ بوائز کالج میانوالی میں ایک لڑکے نے گاڑی میں بیٹھے خان صاحب کا چشمہ ہاتھ مار کر اُتارا اور بھاگا۔ کپتان نے یہ جا اور وہ جا کے مصداق لڑکے کو جا دبوچا اور چشمہ لے کر آگئے۔ کہنے لگے اس نے سمجھ لیا تھا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔، پھر کہا کہ میں نہیں چاہتا اس طرح ہمارے نوجوانوں کی عادتیں خراب ہوں کہ وہ چھینا جھپٹیاں کریں۔ اسی روز کا ایک واقعہ زبیر ہاشمی یہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھاکہ ”مین بازار سے گزرتے ہوئے ایک دُکان کی چھت پر کھڑے ایک نوجوان نے کہا کہ وہ چھت سے گڑ کی ڈلی پھینکتا ہے، اگر خان صاحب کیچ کرلیں تو وہ سونے کی چین عطیہ کرے گا،، اس نے گڑ پھینکا اور خان صاحب نے اپنی گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہوکر اسے کیچ کر کے سونے کی چین حاصل کر لی۔“
یہ دونوں واقعات ایسے نہیں ہیں کہ ان سے ڈونلڈ ٹرمپ یا مغربی دنیا کو ڈرایا جا سکے۔واضح یہ کرنا ہے کہ عمران خان بعض اوقات اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نہ سوچتا ہے اور نہ دیر لگاتا ہے۔ گزشتہ دنوں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”نیازی اتنا کرو جتنا تم برداشت بھی کرسکو“۔ شہباز شریف اور ان کا خاندان تین دہائیوں کے اقتدار کے بعد کچھ مُشکلات کا شکار ہے اس لیے انہیں ایسا لگتا ہے کہ اس سے بڑی شاید ہی کوئی دوسری مُشکلات ہوں۔ لیکن عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی زندگی سخت ترین جدوجہد سے عبارت ہے، ایسی مُشقت جس میں زیادہ تر بوجھ انہوں نے خود ہی اُٹھایا ہے۔ یہی وجہ ہے اُس کی کہانی کے عینی شاہد جب اُس کی حکومت کے کارپردازوں کے کمالات دیکھتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے واقعہ پر کالم کا اختتام کیا جارہا ہے۔
جون 2002 ء کے دوران میں تین بجے سہ پہر کے وقت یہ اپنے حلقہ کے خٹک بیلٹ کے علاقے میں تھے۔ بلُند و بالا پہاڑوں کے بے آب وگیاہ پتھریلے علاقے میں چلے جارہے تھے۔ دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں تھا۔سایہ اور ٹھکانہ تلاش کیا جارہا تھا کہ ایک طرف کچھ درخت نظر آئے، ان کے ساتھ ایک گھر بھی دکھائی دیا اور ایک بابا جی بھی سامنے گھوم رہے تھے۔ گاڑیوں کا رخ اسی طرف کردیا گیا۔ درختوں کے نیچے چند پرانی چارپائیاں رکھی تھیں۔ میلے غلافوں والے تکیے تھے مگر نیازی صاحب نے شان بے نیازی کے ساتھ ایک چارپائی سنبھالی، تکیہ جیسا بھی تھا، سر کے نیچے رکھا اوزبیر ہاشمی سے کہامیرا سر دباؤ، دکھ رہا ہے،،،زُبیر نے سر دبایا،،، اتنے میں بابا جی ایک بالٹی میں پانی اور ساتھ جست والے گلاس لے آئے۔ خان صاحب نے بڑے مزے سے پانی پیا،،، پھر بابا جی چائے بھی لے آئے اور خالص دیہاتی طرز کے پیالوں میں پیش کی،، خان صاحب نے بھی ایک پیالہ پیا۔ کہنے لگے ایسے لوگوں سے مل کر مجھے سکون ملتا ہے۔ لیکن اب ”اب شبلی فراز اور عامر کیانی۔۔۔۔۔؟