... loading ...
بلاول بھٹو نے ایک روز قبل ہی کہا:عمران خان حکمران ہیں مگر لیڈر نہیں“۔ ایک دن بعد کپتان دنیا کے سب سے طاقت ور ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پورے قد سے کھڑا تھا۔وزیراعظم کے اس دورے کو”ناکام“کہنے کی جرأت اُنہیں بھی نہیں ہورہی جو اُن کے عرصہئ حکومت میں اب تک خیر کی کوئی جھلک اور امید کی کوئی چمک نہیں پاتے۔ بلاول بھٹو کو بھی عمران خان کے دورے کی کامیابی کے عمومی تاثر کے دباؤ میں یہ کہنا پڑا کہ قومی مفادات پر حکومت کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔یہ بیان ایک ایسے رہنما کی طرف سے آیا تھا، جن کے والد اور سابق صدر آصف زرداری زنداں میں ہیں۔ وہ خود بھی گرفتاری کے اندیشے سے دوچار ہیں۔ اس کے باوجود بلاول بھٹو نے نوشتہ ئ دیوار پڑھا اور دورے کی کامیابی کے تاثر کو خلافِ حقیقت بیانات کی زد میں لینے سے گریز کیا۔ یہ پاکستان کی عمومی سیاسی روش کے برخلاف رویہ ہے۔ مگر شریف خاندان اس حقیقت کو سمجھنے میں بالکل ناکام رہا۔
مسلم لیگ نون کے صدر شہبازشریف نے ایک عجیب وغریب انٹرویو دیا۔ایک طرف تو اُنہوں نے دورے کوناکام کہا مگر دوسری طرف کامیابی کے تاثر میں یہ کہا کہ عمران خان نے نوازشریف کا ویژن اپنا لیا ہے۔ نوازشریف کا ویژن کیا تھا،ا گر کسی کو معلوم ہو تومستقبل کے مورخ کی سہولت کے لیے اُسے ضرور ریکارڈ پر لانا چاہئے۔ تفنن برطرف!عمران خان کا دورہئ امریکا پاکستان کے اب تک کے حکمرانوں کے تمام دوروں میں ایک خاص انفرادیت رکھتا ہے۔نوآبادیاتی پسِ منظر کے زیراثر ہماری بیوروکریسی (بشمول عسکری) نے جس قسم کے براؤن کلچر کے نرغے میں حکومتی ماحول کو لے رکھا ہے اور حکمرانی کے لیے جس قسم کی شان وشکوہ کو لازم کرلیا ہے۔عمران خان اس سے کوسوں دور نظر آئے۔ عمران خان کایہ رویہ اثر لینے والا نہیں بلکہ اثر چھوڑنے والا ہے۔ وہ بلا ہچکچاہٹ شلوار قمیص، واسکٹ اور پشاور ی سینڈل کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ سے ملے۔ اُنہیں گفتگو کے لیے پرچیوں کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا گیا اور نہ ہی اُن کے ارد گرد ایسے لوگ نظر آئے جو اُنہیں لمحہ لمحہ رہنمائی دیتے ہوں۔بدقسمتی سے ہم اپنے حکمرانوں کو اس قدر لدا پھندااور رہنمائی کے بوجھ تلے دبا دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں کہ نئے مناظر دیکھتے ہوئے ایک خوشگوار حیرت طاری رہی۔ سفارتی عمل میں اظہارو پیشکش کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عمران خان نے اِسے سادگی کے جوہر کے ساتھ انتہائی وقار سے برتا۔ایرینا میں خطاب اور فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو کے بعض حصوں کو چھوڑ کر وزیراعظم عمران خان نے مجموعی طور پر جہاں جہاں گفتگو کی وہ بے حد مناسب تھی۔ ٹرمپ کے ساتھ پریس بریفنگ کو شاندار کہا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی بریفنگ سے اس دورے کے خدوخال کا پتہ چلتا ہے۔
امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش ایک بڑی پیش رفت ہے، مگرامریکی صدر نے اس پیشکش کوکرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے وہ زیادہ توجہ کا مرکز بن گئے۔ اُنہوں نے اِ س پیشکش کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اُنہیں نریندری مودی نے دوہفتے قبل ایک ملاقات میں کہا کہ
”کیاآپ ثالث بننا چاہیں گے تو میں نے پوچھا کہاں، جس پر انہوں نے کہا کہ کشمیر کیونکہ یہ مسئلہ کئی برسوں سے ہے‘‘۔
مودی کی جانب سے تین روز گزرنے کے باوجود اس پر براہِ راست کچھ بھی کہنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ تاہم توقع کے عین مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اپنے فوری ردِ عمل میں اس کی تردید کی: مودی کی جانب سے ایسی کوئی درخواست نہیں کی گئی“۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ ردِ عمل سیاسی اور روایتی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کی تو اس پر چیخیں ہی نکل گئیں۔ باجماعت امریکی صدر کو کوسنے دینے کا ایک عمل شروع ہو گیا۔ گزشتہ تین ماہ سے بھارتی ذرائع ابلاغ میں خاموش مگر انتہائی ارتکاز سے یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کرنے کا بھارتی منصوبہ ناکام ہو گیا ہے اور علاقائی سطح پر پاکستان کا کردار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں مختلف تجزیہ کار کافی عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری کو بیکار کردیا ہے۔ امریکی صدر کے بیان نے پہلے سے موجود اس تاثر کو تقویت دی اور ذرائع ابلاغ نے اس پر ہنگامہ اُٹھا دیا۔ یہاں تک کہ کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ”مودی نے بھارتی مفادات کے ساتھ دھوکا کیا ہے“۔ عام طور پر اس قسم کی گفتگو پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف ہوتی تھی۔ بھارت میں اس قسم کی آوازوں کے اُٹھنے سے واضح ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے دورہئ امریکا نے ایک شورش ضرور برپا کردی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر یہ ہنگامہ برپا ہونا ہی پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ہے جس کی اس دورے میں کوئی امید بھی نہیں باندھی گئی تھی۔
عمران خان کے دورہئ امریکا کا سب سے بنیادی نکتہ افغانستان تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020ء میں صدارتی انتخاب کا معرکہ درپیش ہے۔ اگر وہ افغانستان سے امریکی افواج کی محفوظ واپسی ممکن بنا لیتے ہیں تو یہ اُن کے لیے انتخابات میں کامیابی کا پروانہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ یہ واپسی بھی پوری واپسی نہیں۔ امریکا اپنی افواج کی کمی اور افغانستان میں ایک فوجی کیمپ کے قیام کو محفوظ واپسی کا نام دیتا ہے۔ وہ افغانستان میں اپنی عسکری موجودگی کو خطے کے ماحول میں ضروری سمجھتا ہے۔ مگر امریکا کی افغان سرزمین پرکسی بھی طرح کی موجودگی طالبان کو گوارا نہیں۔ اس کا ایک عارضی حل امریکی فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کی صورت میں نکالا گیا ہے۔ مگر اس سے زیادہ پیچیدہ معاملہ یہ ہے کہ امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا؟ اور طالبان جنگ بندی کا اعلان کب اور کن حالات میں کریں گے؟عمران خان نے اس موقع پر یہ خبر دی کہ افغانستان کا واحد حل طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہے اور اس کے لیے ہم بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔درحقیقت طالبان کے ساتھ معاملات میں ”بہت قریب“کا مطلب اتنا بھی قریب نہیں ہوتا۔ پھر بھی عمران خان کی جانب سے اس خوش گمانی کا اظہار کیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر وہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ایک قدرے مشکل منطقے میں بھی داخل ہوئے، جب اُنہوں نے کہا کہ ’ہم طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار کر پائیں گے اور سیاسی حل نکل آئے گا‘۔حالیہ مذاکرات میں سب سے مشکل نکتہ ہے یہ ہے کہ طالبان امریکا سمیت سب سے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں مگر وہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت میں کسی اورکی شرکت نہیں چاہتا۔وہ جاری مذاکراتی عمل میں افغان حکومت کے کسی بھی نمائندے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک مشکل حالت ہے جو اس مسئلے کے تمام فریقوں کو تقریباً عاجز کیے بیٹھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نکتے پر عمران خان اتنے پرا مید کیسے ہوسکتے ہیں؟اب تک کے مذاکراتی عمل سے واضح ہے کہ طالبان نے صرف میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی امریکا کو مجبورِ محض رکھا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکا ان مشکلات سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کا خواہاں ہے۔ عمران خان کے دورہئ امریکا کا سب سے محوری نکتہ یہی تھا۔پاکستان کی یہ کامیابی ہے کہ اُس نے مذکراتی عمل میں حاوی اس ایجنڈے کو کہیں پر بھی غیر متوازن طور پر اُبھرنے نہیں دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس طرح کی شخصیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ ماضی میں اپنے تعلق کو جن توہین آمیزالفاظ کے ساتھ بیان کرتے رہے ہیں،اُن کے ساتھ کسی تال میل کو بنانا یوں بھی ایک خاصل مشکل کام ہے۔ یہ خطرہ ہر وقت موجودہ تھا کہ اُن کی خواہشات حکم کے الفاظ میں ظاہر ہوسکتی ہیں اور وہ اپنی بدن بولی سے غلبے کے تاثر کو اجاگر کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے امریکا کی سرزمین پر بھی یہ کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑی ہے۔پاکستان اپنے نقصانات کا ذکر کم ہی کرتا ہے۔ عمران خان نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے اور 150 بلین ڈالرز کا معاشی نقصان اُٹھایا ہے۔ درحقیقت یہ واحد موقف ہے جس پر اب تک عمران خان نے کوئی یوٹرن نہیں لیا۔وہ ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں۔ عمران خان کی پاکستان کے اندر مسائل کے انبار میں مسلسل گرتی ہوئی مقبولیت کو امریکی دورے نے کافی سہارا دیا ہے۔ وہ اس سہارے کو سنبھالنے میں کامیاب رہتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کیونکہ پاکستان میں لوگ ناکام ہوکر ہی نہیں، کامیاب ہو کر بھی ہار جاتے ہیں۔