... loading ...
دوستو، بجلی یا بتی کی ضرورت عام دنوں سے زیادہ رمضان المبارک میں ہوتی ہے۔۔ ہر شہرمیں بجلی کا ترسیلی نظام حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن ملک کا واحد شہر کراچی ہے جہاں بجلی نجی شعبے کے حوالے کردی گئی ہے اور نجی شعبے کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مرضی میں جب چاہے عوام پر بجلی گرادے۔۔ گرمیوں میں شارٹ فال بڑھ جاتا ہے جس کے باعث پورے پاکستان میں 12 سے 16 گھنٹے تک کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور اس موسم میں لوگ ایک دوسرے کا حال چال نہیں بلکہ ان کے علاقے اور شہر میں بجلی کا شیڈول پوچھنا شروع کر دیتے تھے۔
مالک نے جب نوکر سے کہا کہ۔۔ جب بھی تمہیں کسی کام سے بھیجتا ہوں،تم دو تین گھنٹے سے پہلے واپس نہیں آتے۔نوکر نے بڑے ادب سے جواب دیا۔۔ صاحب جی! آپ ہی تو کہتے ہیں بجلی کی طرح آیا کرو۔۔ایک صاحب کے گھر ان کے پیر صاحب تشریف لائے،اس وقت صاحب خانہ کے ایک رشتہ دار بھی ان سے ملنے آئے ہوئے تھے جو پیری مریدی کے سخت مخالف تھے اْن کے اور پیر صاحب کے درمیان کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا اور اچانک ہی سارا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا، ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی اور صاحب خانہ سمجھے کہ پیر صاحب جلال میں آ گئے ہیں اور تمام گھر والوں کو اندھا کر دیا ہے، گرتے پڑتے پیر صاحب کے قدموں میں لیٹے اور گڑگڑانے لگے۔۔”موتیاں والیو معاف کردیو ساڈی نظر واپس کر دیو“۔۔۔پیر صاحب نے ٹھوکر لگائی اور غصہ سے بولے۔۔ ”انی دیو میں کجھ نہیں کیتا، بجلی چلی گئی اے تے تہاڈا یو پی ایس کم نہیں کردا؟؟“۔۔اپنے شاگردوں کو بجلی کے بارے میں بتاتے ہوئے پرائمری اسکول کے ٹیچر نے مناسب سمجھا کر روز مرہ زندگی میں سے مثالیں دی جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک شاگرد کو کھڑے ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔ ”فرض کرو میں پنکھے کا بٹن دباتا ہوں لیکن پنکھا نہیں چلتا تو اس کا کیا مطلب ہے“۔ شاگرد نے جواب دیا”یہی کہ آپ نے بجلی کا بل ادا نہیں کیا ہے“۔۔استاد نے جب شاگردوں سے سوال کیا کہ۔۔ آسمانی بجلی اور زمینی بجلی میں کیا فرق ہے؟ایک ذہین شاگردنے جواب دیا۔۔ ”فرق صرف اتنا ہے کہ آسمانی بجلی کا بل نہیں دینا پڑتا“۔۔
بات ہورہی تھی کے الیکٹرک کی،جسے اگر ”کہاں“ الیکٹرک کہاجائے تو بجا ہوگا۔۔ہم کراچی کے جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں وہاں رمضان المبارک میں بھی ڈھائی،ڈھائی گھنٹے کی تین بار لائٹ جاتی ہے۔ پہلی طاق رات کو بھی کے الیکٹرک کا ستم کم نہ ہوا یہ روٹین کے مطابق لائٹ لے گئے، جس کی وجہ سے معتکفین شدید متاثر ہوئے۔۔ بہرحال بات کرتے ہیں کے الیکٹرک کی۔۔ہمارے حساب سے یہ نجی ادارہ بجلی کے نام پر کراچی کے شہریوں سے لوٹ مار میں ملوث ہے۔۔ ان کی لوٹ مار کے چند حقائق بھی سن لیجئے۔۔ انہوں نے شہر بھر میں نئے میٹرز لگانے شروع کردیئے ہیں، جب ہماری بات اسی محکمے کے چند ماہرین سے ہوئی تو انہوں نے آف دا ریکارڈ اعتراف کیا کہ۔۔نئے میٹرز پچھلے میٹروں سے پچیس سے تیس فیصد زیادہ تیز چل رہے ہیں۔۔اب ان کی دوسری کرپشن بھی سن لیجئے۔۔یہ ملک بھر کا اصول ہے اور یہ رائج بھی ہے کہ صلیب تبدیل پر یونٹ چارجز بدل جاتے ہیں۔یعنی اگر تین سو یونٹ تک دس روپے بیس پیسے فی یونٹ ہے تو تین سوایک یونٹ ہوتے ہی پندرہ روپے پینتالیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں اور سات سو یونٹ تک یہی چارجز ہوتے ہیں، پھر سات سو ایک یونٹ ہوتے ہی سترہ روپے تینتیس پیسے چارج کیے جاتے ہیں۔۔کے الیکٹرک والے کرتے یہ ہیں کہ جب بل تیار کیاجاتا ہے تو جس کے دوسواسی، دوسونوے یونٹ بنتے ہیں ازخود تین سوپانچ،تین سوپندرہ یونٹ کردیتے ہیں اس طرح صارفین سے دس روپے بیس پیسے فی یونٹ کے بجائے پندرہ روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ چارج کیے جاتے ہیں۔۔اسی طرح جس کے سات سو یونٹ سے کم ہوتے ہیں اس کے یونٹ بھی خود بڑھا کر زائد پیسے وصول کرتے ہیں۔۔کیا یہ ناجائز منافع خوری میں شمار نہیں ہوتا؟؟ کیا ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں؟؟ ان کی چالاکی کا ایک عام آدمی مداوا بھی کیسے کرے، میٹر ریڈنگ کے 10 سے 15 دن کے بعد بل آتا ہے، جب تک آدھا مہینہ اور ہوجاتا ہے، اور کس طرح 10 یہ 15 یونٹ کا حساب لگایا جاسکتا ہے؟
کے الیکٹرک کی تیسری کرپشن بھی سن لیجئے۔۔ کے الیکٹرک پابند ہے کہ صارف کو دوسوتیس وولٹ بجلی فراہم کرے یا کم از کم 220 بجلی فراہم کرے۔ کے الیکٹرک اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ صارفین کو فلٹر ہوئی بجلی فراہم کرے جو نقصانات سے بچاتی ہے۔۔لیکن ہوتا برعکس ہی ہے، کراچی کے شہریوں کو کبھی دوسوبیس وولٹ فراہم نہیں کیاجاتا، نہ ہی فلٹر کی ہوئی بجلی فراہم کرتی ہے جسکا نقصان صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے۔اب آپ پوچھیں گے کہ 220 وولٹ سے کم بجلی کا کیا نقصان ہے؟تو اس کا جواب ہے۔۔جب دوسوبیس وولٹ کم آتے ہیں تو اس کے ”امپیئر“ بڑھ جاتے ہیں، جب امپیئر بڑھ جاتے ہیں واٹ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔۔اس کی مثال یوں سمجھ لیئجے کہ اگر وولٹ دوسوبیس ہو،ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور مسلسل ایک گھنٹے بجلی چلے تو ایک یونٹ بنتا ہے، اسی طرح اگر وولٹ ایک سی اسی ہو،ہمارا لوڈ ایک ہزار واٹ ہو اور ایک گھنٹہ مسلسل چلے توڈیڑھ یونٹ بنتا ہے یعنی پانچ سو واٹ بجلی زیادہ استعمال ہوئی۔۔یہ چونکہ تکنیکی مسئلہ ہے،اس لیے عام عوام کا اس جانب ذہن ہی نہیں جاتا۔۔چوتھی کرپشن کے الیکٹرک نے یہ شروع کی ہے کہ پورے شہر سے کاپر وائر اتار کر سلور وائر ڈال رہی ہے، جس کی معیاد چند کی ہے، یہ کیوں اور کس کی ایماپرکیاجارہا ہے؟نئے میٹر کے لیے جو صارفین ڈیمانڈ نوٹ کے ساتھ پیسے بینک میں جمع کراتے ہیں۔۔ اْس میں صارفین سے مین لائن سے میٹر تک آنے والی جو وائر استعمال ہونی ہے اْس کے پیسے لیئے جاتے ہیں اور وہ پیسے کاپر وائر کے لیئے جاتے ہیں مگر لگایا سلور وائر جاتا ہے، اور اگر میٹر تبدیل کرنے آتے ہیں تو صرف میٹر تبدیل نہیں کرتے بلکہ جو کاپر وائر ڈالا ہوا ہوتا ہے اس کو بھی سلور وائر سے تبدیل کردیتے ہیں، جبکہ اس کاپر وائر کے صارفین پہلے ہی پیسے ادا کیے ہوئے ہوتے ہیں، مگر یہ ایک نہیں سنتے بلکہ دھمکی دیتے ہیں، اگر ہمارے معاملے میں بولوگے تو پریشان ہوجاؤ گے، اور صارف بیچارہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے، کیوں کے اس کو پتہ ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہوسکتا!!!
کے الیکٹرک کی پانچویں کرپشن جس سے ہر شہری تنگ ہے وہ ہے ”اووربلنگ“۔۔۔جب صارفین کو اوور بل موصول ہوتا ہے تو بیچارے پریشان ہوجاتے ہیں، اور جب سروس سینٹر جا کر شکایت کرتے ہیں تو پریشان کیا جاتا ہے،چکر لگوائے جاتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کے بل تو بھرنا پڑیگا، ایک نوکری پیشہ آدمی کب تک ان سے لڑے؟ کب تک چکر لگائے! آخر کار بل بھر دیتا ہے، کیوں کہ اس ملک میں غریب اور کمزور کا کوئی مدد گار نہیں،جو بجلی کا یونٹ پورے پاکستان بھر میں 6 روپے سے 8 روپے کے درمیان ہے وہ یونٹ کراچی میں 10 روپے 20 پیسے لیا جاتا ہے!!!آخر کراچی سے ایسی دشمنی کیوں؟یہ مسئلہ کسی ایک کا نہیں بلکہ کراچی کے ہر صارف کا ہے۔۔ہم امید کرتے ہیں چیف جسٹس پاکستان،وزیراعظم پاکستان اور متعلقہ حکام اس بارے میں تحقیق کریں گے اور کراچی کے عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔۔