وجود

... loading ...

وجود

بے شک سیاسی لڑائی آپ کریں۔۔۔ لیکن عوام کو معاف کریں!!!

اتوار 26 مئی 2019 بے شک سیاسی لڑائی آپ کریں۔۔۔ لیکن عوام کو معاف کریں!!!

آخر کار اٹھارویں ترمیم کے پھول بھی ایک ایک کر کے مرجھانا شروع ہوچکے ہیں، ابتدا سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک فیصلہ سے ہورہی ہے۔ جس میں اعلیٰ عدلیہ نے تمام وفاقی ہسپتال جنہیں اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں نے اپنے اختیار میں لے لیا تھا،اُنہیں ایک بار پھر سے واپس وفاق کے اختیار میں دینے کا حکم صادر فرمادیا ہے اور یوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اِس حکم کی روشنی میں سندھ کے چار ہسپتال اور پنجاب کا ایک ہسپتال وفاق کو واپس اپنے اختیار میں لینے کی اجازت مل گئی ہے۔ گو کہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے یہ فیصلہ آج سے کم و بیش پانچ ماہ پہلے جاری کیا گیا تھا۔ لیکن وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں خاص طور پر سندھ حکومت سے ہسپتالوں کا اختیار واپس لینے میں زبردست ہچکچاہٹ کا شکار رہی تھی۔وفاقی حکومت کو ڈر تھا کہ سندھ کے ہسپتال جب وفاق اپنے ماتحتی میں لینے کا حکمنامہ جاری کرے گا تو اُسے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کی طر ف سے سخت سیاسی،انتظامی اور قانونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اِن ہی سیاسی اندیشوں کے باعث پانچ ماہ گزر گئے اور وفاقی حکومت ہسپتالوں کو اپنے اختیار میں لینے کا سرکاری حکمنامہ جاری نہ کرسکی۔وفاقی حکومت کی اِس ”سیاسی پسپائی“سے سندھ حکومت کو اُمید ہو چلی تھی کہ سندھ میں قائم وفاقی ہسپتال دوبارہ سے وفاقی حکومت کے زیرانتظام چلے جانے سے بچ جائیں گے اور اٹھارویں ترمیم کا جادواِس بار بھی وفاقِ پاکستان کے خلاف خوب سر چڑھ کر بولے گا۔
مگرغیر متوقع طور پر اُلٹی ہوگئیں سب سیاسی تدبیریں اورکچھ نہ اٹھارویں ترمیم کے سحر نے کام کیا اورگزشتہ دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اچانک ہی وفاقی ہسپتالوں کو صوبائی حکومتوں سے واپس اپنے ماتحت لینے کا سرکاری حکمنامہ جاری کرکے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو حیران و پریشان کردیا۔ذرائع کے مطابق سندھ کے کئی علاقوں میں بچوں کے ایڈز میں مبتلاء ہونے کی خبروں نے وفاقی حکومت کے لیے بظاہر ایک مشکل اور ناقابلِ عمل دکھائی دینے والا کام بالکل ہی آسان بنادیا۔ اب سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی لاکھ سرپیٹتی رہے مگر حقیقت یہ ہی ہے اٹھارویں ترمیم کے مضبوط قلعہ میں نقب لگ چکی ہے۔اِس نقب زنی کا سب سے بڑا محرک سندھ حکومت کی بد انتظامی بنی ہے۔جبکہ اندرونِ سندھ میں ایڈز کے پھیلاؤ کی خبروں نے سندھ حکومت کی انتظامی و اخلاقی ساکھ کو انتہائی بُری طرح سے مجروح کیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اِس وقت سندھ حکومت ہسپتالوں کے انتظام کے مسئلہ پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے خلاف اپیل کے لیے چلی جاتی ہے تو قانونی محاذ پر بھی سندھ حکومت کی شکست کے واضح امکانات موجود ہیں کیونکہ جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاق کے وکیل کی طرف سے سندھ میں ہسپتالوں کی حالتِ زار خاص طور پر اندرونِ سندھ میں ایڈز کے پھیلاؤ کی بابت تیز و تند سوالات کی بوچھاڑ کی جائے گی تو غالب اِمکان یہ ہی ہے کہ سندھ حکومت کے قانونی ماہرین کے پاس اپنی اپنی بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی دوسرا”قانونی راستا“نہیں بچے گا۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ کراچی سے یہ بات بھی خوب واضح ہوگئی ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے اَب سندھ حکومت کو کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں ملنے والی۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آنے والے سخت ایام میں وزیراعظم پاکستان عمران خان سندھ حکومت کی مشکیں کسنے کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ فی الحال وفاق کی طرف سے سندھ حکومت کی تمام تر وفاقی گرانٹ روکی جاچکی ہے جس کی وجہ سے سندھ حکومت حقیقی معنوں میں شدید ترین مالی بحران کا شکار ہے اور اگر یہ صورت حال کچھ ماہ اور یونہی جاری رہی تو وہ وقت دُور نہیں کہ جب سندھ حکومت کے پاس ترقیاتی پروجیکٹ مکمل کروانا تو بہت دُور کی بات ہے،شاید وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیے اپنی اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجائے گا۔جبکہ عنقریب سندھ حکومت کے اہم ترین وزراء کو کرپشن الزامات کے تحت گرفتار کیے جانے کی خبریں بھی میڈیا میں خوب گرم ہیں۔ واقفانِ حال کا تو یہ بھی خیال ہے کہ تھرکول پروجیکٹ سے منسلک کمپنی سندھ ایگرو کول مائننگ کے چیئرمین خورشید اور اِس کے دیگر دو ساتھیوں کی گرفتاری بھی سندھ میں نئے ”سلسلہ گرفتاری“ کا ایک نقطہ آغاز ہے۔جس سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ بہت جلد سندھ میں کتنے وسیع پیمانے پر اور کس قسم کی سیاسی و کاروباری شخصیات کی گرفتاریاں ہونے جارہی ہیں۔اہم ترین بات تو یہ ہے کہ سندھ کی جن سیاسی شخصیات تک ”گرفتاری نما“یہ”خاموش پیغام“پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے،آیا اُن تک یہ پیغام پہنچ بھی گیا ہے یا نہیں اور اگر اُن تک پیغام پہنچ گیا ہے تو کیا اُنہیں یہ پیغام اچھی طرح سمجھ بھی آگیا ہے یانہیں؟
وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان جاری اِس سیاسی کشمکش کا حتمی نتیجہ کس فریق کی شکست اور کس کی فتح پر جاکر منتج ہوگا،یہ تو فی الحال کوئی نہیں بتا سکتا، لیکن ایک بات ضرور پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سندھ حکومت آہستہ آہستہ وفاقی حکومت کے ”سیاسی جال“ میں مکمل طور پر پھنستی جارہی ہے۔ یعنی ذراملاحظہ ہو کہ پہلے وفاق نے پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نیب کے خلاف غیرضروری لب و لہجہ اختیار کرنے پر اُکسایا اور جب پی پی پی قیادت پوری طرح سے نیب کے چیئرمین جناب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے خلاف تلوار سونت کر کھڑی ہوگی تو اچانک سے ایسی صورتحال پیدا کردی گئی کہ اَب وہی پی پی پی قیادت نیب کو وفاق کی دست برد سے بچانے کے بلند و بانگ بیانات داغ رہی ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین کو بے نطق سُنا کر ایسا کونسا ”سیاسی جیک پاٹ“ہوگا جو مستقبل میں پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت یا سندھ حکومت کو حاصل ہوسکتا ہے سوائے اِ س کے کہ نیب اپنا شکنجہ کچھ اور زیادہ سختی سے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت اور اُن کے سہولت کاروں کے گرد کسنا شروع کردے گا۔بہر حال قصہ مختصر یہ ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت کی روز بروز بڑھنے والی محاذ آرائی کے درمیان ایک تیسرا فریق بھی ہے جس پر کسی کی بھی توجہ نہیں ہے اور وہ تیسرا اور سب سے اہم ترین فریق ہے سندھ کے عوام۔ اِس وقت سندھ کے عوام کا وہی حال ہورہا ہے جو دو گینڈوں کی لڑائی میں گھاس،پھونس کا ہوتا ہے یا جو حشر چنوں کی پسائی میں گُھن کا ہوتا ہے۔ہماری عاجزانہ سی گزارش ہے کہ بھلے ہی وفاق اور سندھ حکومت اپنی دیرینہ سیاسی معرکہ آرائی کو زور و شور سے بدستور جاری رکھیں لیکن”سیاسی لڑائی“ کے درمیان کچھ تو خیال سندھ کے عوام کا بھی کریں کیونکہ سندھ کے عوام کا پیٹ نہ تو وفاقی حکومت کے کھوکھلے نعروں سے بھرنے والا ہے اور نہ ہی سندھ کے عوام کی شکم میں سلگنے والی بھوک کی آگ سندھ حکومت کی سیاسی آہ ہ بکاکے جھوٹے آنسوؤں سے بجھنے والی ہے۔
لڑائی ہی ہمارا مسئلہ ہے
لڑائی مسئلے کا حل نہیں ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر