... loading ...
زندگی اے زندگی!!!کیا ہمارا کوئی سراغ ملتا ہے؟ ہم آخر کون ہیں؟گہرے معانی کے سمندر میں غرقاب دراصل لایعنیت کے شکار!
چیکو سلواکیہ کا ممتاز ادیب کافکا اچانک مطلع ذہن پر اُبھرتا ہے۔جس کی تخلیقات میں لایعنیت اور امید کی لہریں گاہے گڈ مڈ ہوجاتیں تھیں۔ ایک احمق کی کہانی ایسے ہی تو نہیں تھی جو نہانے کے ٹب میں مچھلیاں پکڑتا تھا۔ کافکا کی کہانی میں ایسے احمق کے ہاتھ کبھی مچھلیاں نہ آتی ہوں گی۔ مگر ہم کیا چیز ہے ہمارے ہاتھوں میں نہانے کے ٹب سے منوں ٹنوں وزنی مچھلیاں نکل آتی ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو نیب کے ٹب میں ہاتھ ڈال کر دیکھ لے۔ چیئرمین نیب کے تڑپتے پھڑکتے وجود پر نگاہ ڈالے!
مچھلیوں کا ذکر آیا تو شرق وغرب پر اپنی حاکمیت کا سکہ جمانے والا وہ غیر معمولی فاتح سائرس اعظم یاد آیا۔ قدیم لیڈیا کی فتح پر اُس نے شکست خوردہ بادشاہ کو ایک حکایت سنائی تواس میں ان مچھلیوں کا ذکر تھا جو نہانے کے ٹب میں نہیں بلکہ سمندر میں تیرتی ہیں۔ کہا:ساحل کے کنارے پر کوئی بانسری بجارہا تھا مگر مچھلیاں اُس سے دور بے خبر رہیں۔ پھر اُس نے جال پھینکا اور مچھلیاں ایک ایک کرکے دام میں آتی گئیں۔ اُس نے جال باہر نکالا تو مچھلیاں تڑپنے پھڑکنے لگیں۔مچھیرے نے کہا یہ بے وقت کا ناچ بند کرو،میں جب بانسری بجارہا تھا تب تم کہاں تھیں؟موقع گیا تو زندگی بھی گئی۔چیئرمین نیب اب مچھیرے نہیں بلکہ جال میں پھنسی مچھلی ہے جو اپنا موقع کھو چکے۔ شکست خوردہ بادشاہ نے سائرس اعظم کی حکایت کے معنی سمجھ لیے تھے، ہم نہ جانے کب سمجھیں گے۔
چیئرمین نیب کے ویڈیو اسکینڈل نے ہماری اجتماعی زندگی کی پوری کہانی کو عریاں کردیا ہے۔ ہمارے بدن پر سکڑی سمٹی معمولی بچی کپڑے کی دھجی تک کو بھی کھینچ لیا ہے۔ صرف چند دنوں میں نیب کا ادارہ احتساب کرتے کرتے خود قابلِ احتساب حالت پر پہنچ گیا ہے۔ اربابِ بست وکشاد کے لیے یہ اب ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح احتساب کے عمل کو اُس کی ساکھ کے ساتھ جاری رکھ پاتے ہیں۔ وہ سماج کیسا لاچار ہوگا جسے اپنے گندے کپڑے دھونے کے لیے ہاتھ بھی گندے ملتے ہو، اپنے چہرے کی کالک صاف کرنے کے لیے جو پانی استعمال کرنے پر مجبور ہو وہ اُس سے بھی زیادہ کالا ہو۔چیئرمین نیب بے قابو ہوئے اور پھر بے قابو ہی رہے۔ ایسا نہیں کہ یہ واقعات دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتے، بس فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ان واقعات کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں رہتی مگر پاکستان میں سب کچھ پہلے جیسا رہتا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے۔ ہالی وڈ کی سحر انگیز اداکارہ مارلن منرو کے ساتھ اُن کے معاشقے کی کہانیاں گردش میں رہیں۔ ایک روز مارلن منرو اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں۔ کینیڈی کا انجام بھی مختلف نہیں تھا۔ اگر چہ دونوں کے قتل کے پیچھے مختلف محرکات تھے۔ مگر مارلن منرو اور کینیڈی کی تال میل نے اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت سے اتار چڑھاؤ پید اکیے۔ ڈیموکریٹ جماعت کے دو صدور کرشماتی کہلائے۔ ایک کینیڈی اور دوسرے بل کلنٹن۔بل کلنٹن خود کو کینیڈی کا شاگرد کہتے تھے۔ شاید اسی لیے مونیکا لیونسکی اسکینڈل میں جاپھنسے۔ تب امریکیوں نے بل کلنٹن کو مواخذے سے لذت آشنا کیا۔ مونیکا نے اس اسکینڈل سے جو سبق سیکھا وہ امریکی درسگاہوں میں تربیت کا آج بھی موضوع ہے۔ ذرا مونیکا کی تقریر ”The price of shame“سنیں، سب سمجھ آجائے گا۔ ہمارے ہاں ”پرائس“ کی بات چھوڑیں، کوئی”شیم“کی پرچھائیں بھی نہیں ملتی۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ جناب فیض احمد فیض نے کیا تھا:
عاشق کے لیے یکساں کعبہ ہو کہ بت خانہ
یہ جلوتِ جانانہ، وہ خلوتِ جانانہ
امریکی اداکارہ شیرن اسٹون کے چند ہفتوں کے ایک عشق نے چارطلاقیں کروائی تھیں، پھر ایک جملہ اداکارہ کی زبان سے جاری ہوا کہ میرے اندر ایک ہلاکت خیز رقصِ درویش جاری ہے۔ چیئرمین نیب کے اندر کیا جاری ہے اس کا تو پتہ نہیں مگر اُن کے گردوپیش میں وحشتوں کی ایک دھمال ہے۔ شنید ہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی ”غیبی امداد“ کا بندوبست کیا جارہا ہے کہ راستا کوئی نہیں۔ناقابلِ اعتبار احتساب کا مور دائرے کے رقص کے بعد اب گھوم پھرکر اپنے پاؤں دیکھ رہا ہے۔ رہی سہی عزتِ سادات بچانے کے لیے پھر اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کا ارادہ ہے کیونکہ استعفیٰ حل نہیں۔ اس طرح پورا کھیل واپس قائد حزب اختلاف کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے جن کی حمایت اب آئینی مجبوری ہے۔ لاچاری کا سلسلہ دائرے بُنتا بُنتا اپنی نحوستیں واپس لاسکتا ہے۔ چنانچہ بالوں پر کالے رنگ کی پالش اور آنکھوں میں کاجل کا دور ابھی جاری رہے گا۔ نہانے کے تب میں مچھلیاں بھی پکڑی جاتی رہیں گی۔ ایسا کیوں ہوگا؟ بس یہی سوال ہمارے زوال کی وجوہات بتاتا ہے۔ یہ پورا معاشرہ سمجھوتوں پر زندہ ہے۔ ہر ایک کے پاؤں کہیں نہ کہیں جاکر جل جاتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔کو ئی معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ ساقی اور پیر مغاں دونوں ہی بے پروا ہ رہتے ہیں۔ہر کسی کے پاس دوسرے کو کھینچنے کے لیے رسیاں ہیں۔ سب اپنی اپنی رسیاں ہلاتے ہیں تو کوئی بھی نہیں بچتا، اس لیے کوئی ہلاتا ہی نہیں۔ ہر ایک کا کردار دوسرے کوزندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ ہربُرا دوسرے کی ڈھال ہے۔ چنانچہ احتساب کی دھمال اور بدعنوانوں کا کمال ایک ساتھ ابھی جاری رہے گا۔ طاؤس ورباب اور شمشیر وسناں متوازی سفر میں رہیں گے۔ بس ایک فرق واقع ہو سکتا ہے جو بہت بڑا فرق بھی پید اکرسکتا ہے۔
اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں یہ بات زیر گردش ہے کہ چیئرمین نیب نے ملک میں جاری الجھاؤ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے احتساب کے عمل کو سست رفتار کردیا تھا۔ بازی لگانے والے بھی پریشان تھے۔ اُن کے سب سے اچھے بچے کی عادتیں کیوں بگڑ رہی ہیں، پتہ ہی نہی چل رہا تھا۔ تب سب پر بھاری نے ایک روز نیب میں پیشی پر کہا کہ اگلی بار نیب ہی نہیں رہے گا۔ پھر خاتون کا چیئرمین کے ساتھ ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر آیا۔ اُصول تو یہ ہے کہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔سو اس پردہ زنگار کے پیچھے کی تلاش فطری تھی۔ کھیل، کھیلنے والوں کو کھیلنے دیا گیا تاکہ سب اپنے اپنے ٹھکانے پر آجائیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چیئرمین نیب کے اسکینڈل کے بعد نیب کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا تو یہ اور مشکل ہو گیا ہے۔ کیونکہ نیب میں آسانیاں پیدا کرنے والا خود مشکلات کا شکار رہے گا۔ پھر نظر ڈپٹی چیئرمین پر جائے گی اور اختیارات خاموشی سے اُنہیں منتقل کردیے جائیں گے۔ آئینی مجبوری کے تحت چیئرمین نیب لنجی بطخ (لیم ڈک)بن کر رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اب ذرا جاوید چودھری کے ساتھ چیئرمین نیب کے مکالمے کو یادکریں کہ نوازشریف جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین نیب ہوں۔ایسے ہی فقرے عالم کے پروردگار کو ناراض کرتے ہیں۔ بھٹو ایسے ہی ایک جملے سے قدرت کے پنجہئ انتقام میں آگئے تھے۔ کیا چیئرمین نیب کے تکبر کے متوازی یہ ویڈیو اسکینڈل اُن کی بے بسی کا اعلان بن سکتا ہے۔وہ اسی منصب پر بے اختیاری کے کرب سے گزرسکتے ہیں۔ کیاوقت پھر کروٹ لے رہا ہے؟لایعنیت اور امید کی لہریں پھر گڈ مڈ ہوتی ہیں۔