وجود

... loading ...

وجود

لایعنیت اور امید

اتوار 26 مئی 2019 لایعنیت اور امید

زندگی اے زندگی!!!کیا ہمارا کوئی سراغ ملتا ہے؟ ہم آخر کون ہیں؟گہرے معانی کے سمندر میں غرقاب دراصل لایعنیت کے شکار!
چیکو سلواکیہ کا ممتاز ادیب کافکا اچانک مطلع ذہن پر اُبھرتا ہے۔جس کی تخلیقات میں لایعنیت اور امید کی لہریں گاہے گڈ مڈ ہوجاتیں تھیں۔ ایک احمق کی کہانی ایسے ہی تو نہیں تھی جو نہانے کے ٹب میں مچھلیاں پکڑتا تھا۔ کافکا کی کہانی میں ایسے احمق کے ہاتھ کبھی مچھلیاں نہ آتی ہوں گی۔ مگر ہم کیا چیز ہے ہمارے ہاتھوں میں نہانے کے ٹب سے منوں ٹنوں وزنی مچھلیاں نکل آتی ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو نیب کے ٹب میں ہاتھ ڈال کر دیکھ لے۔ چیئرمین نیب کے تڑپتے پھڑکتے وجود پر نگاہ ڈالے!
مچھلیوں کا ذکر آیا تو شرق وغرب پر اپنی حاکمیت کا سکہ جمانے والا وہ غیر معمولی فاتح سائرس اعظم یاد آیا۔ قدیم لیڈیا کی فتح پر اُس نے شکست خوردہ بادشاہ کو ایک حکایت سنائی تواس میں ان مچھلیوں کا ذکر تھا جو نہانے کے ٹب میں نہیں بلکہ سمندر میں تیرتی ہیں۔ کہا:ساحل کے کنارے پر کوئی بانسری بجارہا تھا مگر مچھلیاں اُس سے دور بے خبر رہیں۔ پھر اُس نے جال پھینکا اور مچھلیاں ایک ایک کرکے دام میں آتی گئیں۔ اُس نے جال باہر نکالا تو مچھلیاں تڑپنے پھڑکنے لگیں۔مچھیرے نے کہا یہ بے وقت کا ناچ بند کرو،میں جب بانسری بجارہا تھا تب تم کہاں تھیں؟موقع گیا تو زندگی بھی گئی۔چیئرمین نیب اب مچھیرے نہیں بلکہ جال میں پھنسی مچھلی ہے جو اپنا موقع کھو چکے۔ شکست خوردہ بادشاہ نے سائرس اعظم کی حکایت کے معنی سمجھ لیے تھے، ہم نہ جانے کب سمجھیں گے۔
چیئرمین نیب کے ویڈیو اسکینڈل نے ہماری اجتماعی زندگی کی پوری کہانی کو عریاں کردیا ہے۔ ہمارے بدن پر سکڑی سمٹی معمولی بچی کپڑے کی دھجی تک کو بھی کھینچ لیا ہے۔ صرف چند دنوں میں نیب کا ادارہ احتساب کرتے کرتے خود قابلِ احتساب حالت پر پہنچ گیا ہے۔ اربابِ بست وکشاد کے لیے یہ اب ایک امتحان ہے کہ وہ کس طرح احتساب کے عمل کو اُس کی ساکھ کے ساتھ جاری رکھ پاتے ہیں۔ وہ سماج کیسا لاچار ہوگا جسے اپنے گندے کپڑے دھونے کے لیے ہاتھ بھی گندے ملتے ہو، اپنے چہرے کی کالک صاف کرنے کے لیے جو پانی استعمال کرنے پر مجبور ہو وہ اُس سے بھی زیادہ کالا ہو۔چیئرمین نیب بے قابو ہوئے اور پھر بے قابو ہی رہے۔ ایسا نہیں کہ یہ واقعات دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتے، بس فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ان واقعات کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں رہتی مگر پاکستان میں سب کچھ پہلے جیسا رہتا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے۔ ہالی وڈ کی سحر انگیز اداکارہ مارلن منرو کے ساتھ اُن کے معاشقے کی کہانیاں گردش میں رہیں۔ ایک روز مارلن منرو اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئیں۔ کینیڈی کا انجام بھی مختلف نہیں تھا۔ اگر چہ دونوں کے قتل کے پیچھے مختلف محرکات تھے۔ مگر مارلن منرو اور کینیڈی کی تال میل نے اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت سے اتار چڑھاؤ پید اکیے۔ ڈیموکریٹ جماعت کے دو صدور کرشماتی کہلائے۔ ایک کینیڈی اور دوسرے بل کلنٹن۔بل کلنٹن خود کو کینیڈی کا شاگرد کہتے تھے۔ شاید اسی لیے مونیکا لیونسکی اسکینڈل میں جاپھنسے۔ تب امریکیوں نے بل کلنٹن کو مواخذے سے لذت آشنا کیا۔ مونیکا نے اس اسکینڈل سے جو سبق سیکھا وہ امریکی درسگاہوں میں تربیت کا آج بھی موضوع ہے۔ ذرا مونیکا کی تقریر ”The price of shame“سنیں، سب سمجھ آجائے گا۔ ہمارے ہاں ”پرائس“ کی بات چھوڑیں، کوئی”شیم“کی پرچھائیں بھی نہیں ملتی۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے فارسی کلام کا منظوم ترجمہ جناب فیض احمد فیض نے کیا تھا:
عاشق کے لیے یکساں کعبہ ہو کہ بت خانہ
یہ جلوتِ جانانہ، وہ خلوتِ جانانہ
امریکی اداکارہ شیرن اسٹون کے چند ہفتوں کے ایک عشق نے چارطلاقیں کروائی تھیں، پھر ایک جملہ اداکارہ کی زبان سے جاری ہوا کہ میرے اندر ایک ہلاکت خیز رقصِ درویش جاری ہے۔ چیئرمین نیب کے اندر کیا جاری ہے اس کا تو پتہ نہیں مگر اُن کے گردوپیش میں وحشتوں کی ایک دھمال ہے۔ شنید ہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی ”غیبی امداد“ کا بندوبست کیا جارہا ہے کہ راستا کوئی نہیں۔ناقابلِ اعتبار احتساب کا مور دائرے کے رقص کے بعد اب گھوم پھرکر اپنے پاؤں دیکھ رہا ہے۔ رہی سہی عزتِ سادات بچانے کے لیے پھر اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کا ارادہ ہے کیونکہ استعفیٰ حل نہیں۔ اس طرح پورا کھیل واپس قائد حزب اختلاف کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے جن کی حمایت اب آئینی مجبوری ہے۔ لاچاری کا سلسلہ دائرے بُنتا بُنتا اپنی نحوستیں واپس لاسکتا ہے۔ چنانچہ بالوں پر کالے رنگ کی پالش اور آنکھوں میں کاجل کا دور ابھی جاری رہے گا۔ نہانے کے تب میں مچھلیاں بھی پکڑی جاتی رہیں گی۔ ایسا کیوں ہوگا؟ بس یہی سوال ہمارے زوال کی وجوہات بتاتا ہے۔ یہ پورا معاشرہ سمجھوتوں پر زندہ ہے۔ ہر ایک کے پاؤں کہیں نہ کہیں جاکر جل جاتے ہیں۔ اسی لیے یہاں کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔کو ئی معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ ساقی اور پیر مغاں دونوں ہی بے پروا ہ رہتے ہیں۔ہر کسی کے پاس دوسرے کو کھینچنے کے لیے رسیاں ہیں۔ سب اپنی اپنی رسیاں ہلاتے ہیں تو کوئی بھی نہیں بچتا، اس لیے کوئی ہلاتا ہی نہیں۔ ہر ایک کا کردار دوسرے کوزندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ ہربُرا دوسرے کی ڈھال ہے۔ چنانچہ احتساب کی دھمال اور بدعنوانوں کا کمال ایک ساتھ ابھی جاری رہے گا۔ طاؤس ورباب اور شمشیر وسناں متوازی سفر میں رہیں گے۔ بس ایک فرق واقع ہو سکتا ہے جو بہت بڑا فرق بھی پید اکرسکتا ہے۔
اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں یہ بات زیر گردش ہے کہ چیئرمین نیب نے ملک میں جاری الجھاؤ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے احتساب کے عمل کو سست رفتار کردیا تھا۔ بازی لگانے والے بھی پریشان تھے۔ اُن کے سب سے اچھے بچے کی عادتیں کیوں بگڑ رہی ہیں، پتہ ہی نہی چل رہا تھا۔ تب سب پر بھاری نے ایک روز نیب میں پیشی پر کہا کہ اگلی بار نیب ہی نہیں رہے گا۔ پھر خاتون کا چیئرمین کے ساتھ ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر آیا۔ اُصول تو یہ ہے کہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔سو اس پردہ زنگار کے پیچھے کی تلاش فطری تھی۔ کھیل، کھیلنے والوں کو کھیلنے دیا گیا تاکہ سب اپنے اپنے ٹھکانے پر آجائیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ چیئرمین نیب کے اسکینڈل کے بعد نیب کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا تو یہ اور مشکل ہو گیا ہے۔ کیونکہ نیب میں آسانیاں پیدا کرنے والا خود مشکلات کا شکار رہے گا۔ پھر نظر ڈپٹی چیئرمین پر جائے گی اور اختیارات خاموشی سے اُنہیں منتقل کردیے جائیں گے۔ آئینی مجبوری کے تحت چیئرمین نیب لنجی بطخ (لیم ڈک)بن کر رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اب ذرا جاوید چودھری کے ساتھ چیئرمین نیب کے مکالمے کو یادکریں کہ نوازشریف جیل میں ہیں اور میں آج بھی چیئرمین نیب ہوں۔ایسے ہی فقرے عالم کے پروردگار کو ناراض کرتے ہیں۔ بھٹو ایسے ہی ایک جملے سے قدرت کے پنجہئ انتقام میں آگئے تھے۔ کیا چیئرمین نیب کے تکبر کے متوازی یہ ویڈیو اسکینڈل اُن کی بے بسی کا اعلان بن سکتا ہے۔وہ اسی منصب پر بے اختیاری کے کرب سے گزرسکتے ہیں۔ کیاوقت پھر کروٹ لے رہا ہے؟لایعنیت اور امید کی لہریں پھر گڈ مڈ ہوتی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر