... loading ...
پاکستان کے اندر پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کی مہم کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکائے گئے ہیں، حالانکہ ملک کے بڑے بڑے دانشور، علمائے کرام، خصوصاً بڑے معتبر دینی مدارس، مدارس کی بڑی تنظیمات، دینی جماعتیں اور ان کے اکابر اس بابت عوام الناس سے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی بارہا تاکید کرچکے ہیں۔ چنانچہ ملک بھر میں مہم کامیابی سے چل پڑی۔ ایسا ہی ماحول بلوچستان کے اندر بھی بنا ہے۔ بلوچستان اس لحاظ سے مشکل صوبہ ہے کہ یہاں شرح خواندگی کم ہے۔ اس بنا پر مسائل کا سامنا رہا ہے، جو کہ اب بھی ہے۔ اس تناظر میں حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے سخت اقدامات نے بھی انکار کرنے والے خاندانوں کو قطرے پلانے پر مجبور کیا۔ بہرحال ایسے خاندانوں کی کمی نہیں جو کہ اب بھی قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔بلوچستان کے اندر پولیو مہم کو دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔
25/ اپریل کو پاک افغان سرحدی شہر چمن کے دامان میرالزئی میں پولیو ٹیم پر حملہ ہوا۔ موٹر سائیکل سوار افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون رضا کار نسرین بی بی جاں بحق ہوگئی جبکہ ایک رضاکار راشدہ بی بی زخمی ہوئی۔ اس ٹیم کے تحفظ کے لیے لیویز اہلکار ہمراہ تھے۔ یہاں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اہلکاروں کی ہمراہی اور موجودگی میں یہ رضاکار خواتین کیسے نشانا بن گئیں اور حملہ آور فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟ بہرحال کوئٹہ کے اندر بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں۔ جنوری 2018ء میں دو خواتین پولیو ورکر، اسی طرح 2014ء میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز قتل ہوچکے ہیں۔ جنوری2016ء میں کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں پولیو مرکز کے باہر دھماکے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 14افراد کی موت ہوئی۔گویا اس مہم کو ساتھ دہشت گردوں کے حملوں کے ساتھ جاہل اور ناسمجھ لوگوں کا بھی سامنا ہے۔بلاشبہ پولیو ویکسین کی وجہ سے اس مرض پر قابو پایا گیا ہے، باوجود اس کے کہ ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں۔ افغانستان سے روزانہ ہزاروں لوگ سر حد کے اس پار آتے ہیں، سندھ اور پنجاب سے سینکڑوں ہزاروں بھکاری درآتے ہیں۔ یعنی جہاں کوئی کیس سامنے آتا ہے اُس کی وجوہات میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے۔جیسے ذکر ہوا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں انتہائی مشکل صورت حال میں پولیو ویکسین مہم چلائی جاتی ہے۔ دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہمہ وقت رہتا ہے، اور بچوں کو قطرے پلانے کا عمل یقینی بنانا انتہائی کٹھن ہے۔ اکثر اوقات سوشل میڈیا پر غیرذمہ دارانہ پوسٹ اور ویڈیو اس مہم کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتی ہیں۔ 22 /اپریل 2019ء خیبر پختون خوا کے علاقے بڈھ بیر ماشوخیل میں ایک شخص کی خباثت بلوچستان کے اندر 22 سے 24/ اپریل تک جاری رہنے والی مہم پر بُری طرح اثرانداز ہوئی ہے، جہاں قطرے پلانے کے بعد اسکول کے بچوں کی حالت غیر ہونے کا ڈراما رچایا گیا اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ یہاں کوئٹہ میں بھی بعض جہلا ء نے اپنا حصہ ڈالا۔ حیرت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام جیسی بڑی اور ذمہ دار جماعت کے اندر سے بھی نامعقول بیانات جاری ہوئے جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
23 اپریل2019ء کے اخبارات میں جے یو آئی ف کوئٹہ کے امیر حافظ حمداللہ، جنرل سیکریٹری حاجی سازالدین، مولانا ولی محمد ترابی اور دوسروں کے نام سے بیان شائع ہوا جس میں پشاور میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے سینکڑوں بچوں کی حالت غیر ہونے کے واقعہ کی مذمت کی گئی۔ اس بیان میں ان ذمہ داران نے یہ بھی کہا کہ پولیو ویکسین کے قطرے مشکوک کہنے والوں کی بات سچ نکلی۔ بیان میں گمراہ کن و صریح مبالغہ آرائی کی گئی کہ ”پولیو ویکسین کے قطروں سے ملک کے مختلف علاقوں میں اب تک سینکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں“۔ مزید یہ کہا کہ ”پولیو ویکسین کے قطرے زبردستی پلانے والے اس کا جواب دیں کہ ان کو کیا دیا جاتا رہا ہے کہ یہ مشکوک قطرے پلانے کے لیے زبردستی کررہے ہیں“۔ آگے جاکر ان فہمیدہ رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ ”نادار بیمار بچوں کے علاج معالجے پر کسی قسم کی زبردستی نہیں، نہ ہی ان کو علاج میسر ہے۔ پھول جیسے تندرست بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے زبردستی پلانا سازش نہیں تو اور کیا ہے! گھر گھر اور گلی گلی یہ زہر پینے کو کوئی تیار نہیں، نہ ہی لوگ اپنے بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔“ اس کج بیانی کی توقع کم از کم ایسے شخص سے نہیں کی جاسکتی جو قریبا ً پانچ سال صوبائی وزیر رہا ہو۔اور ایک بار سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے بھی آئینی مدت پوری کر چکا ہو۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان فرمودات پر ان سیاسی نمائندوں سے وضاحت و جواب طلب کیا جاتا، بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا اور اس بات کا جواب طلب کیا جاتا کہ پولیو ویکسین کے قطرے پینے سے یہ سینکڑوں بچے کب اور کہاں ہلاک ہوئے اور پولیو کو زہر کن معلومات اور پاکستان یا دنیا کی کس لیبارٹری کی تحقیق کی بنیاد پر قرار دیا گیا ہے؟ حیرت ہے کہ جن کو ڈسپرین کی افادیت کا معلوم نہیں، انہوں نے اتنی بڑی بات کہہ ڈالی ہے۔ اس طرح معصوم عوام، خاص کر اپنی جماعت کے کارکنوں اور بہی خواہوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اخبارات کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے بے سرو پا بیانات شائع نہ کریں کہ جس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچتا ہو۔ لازم ہے کہ ان ذمہ داران سے مجاز فورم پر بازپرس ہو۔ بلوچستان کے پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈی نیٹر راشد رزاق کے مطابق ملک گیر انسدادِ پولیو مہم میں بلوچستان میں 24 لاکھ69 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ مہم کے دوسرے روز یعنی23 اپریل کو خیبر پختون خوا کے واقعہ کے بعد افواہیں پھیلانے سے پولیو ٹیموں کو بلوچستان کے بعض علاقوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اور انکار کرنے والے خاندانوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ میں ایسے والدین میں اضافہ ہوگیا ہے جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلانا چاہتے۔