وجود

... loading ...

وجود

پولیو مہم، دہشت گردی اور کج بیانی

پیر 06 مئی 2019 پولیو مہم، دہشت گردی اور کج بیانی

پاکستان کے اندر پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کی مہم کی راہ میں ہر طرح کے روڑے اٹکائے گئے ہیں، حالانکہ ملک کے بڑے بڑے دانشور، علمائے کرام، خصوصاً بڑے معتبر دینی مدارس، مدارس کی بڑی تنظیمات، دینی جماعتیں اور ان کے اکابر اس بابت عوام الناس سے بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی بارہا تاکید کرچکے ہیں۔ چنانچہ ملک بھر میں مہم کامیابی سے چل پڑی۔ ایسا ہی ماحول بلوچستان کے اندر بھی بنا ہے۔ بلوچستان اس لحاظ سے مشکل صوبہ ہے کہ یہاں شرح خواندگی کم ہے۔ اس بنا پر مسائل کا سامنا رہا ہے، جو کہ اب بھی ہے۔ اس تناظر میں حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے سخت اقدامات نے بھی انکار کرنے والے خاندانوں کو قطرے پلانے پر مجبور کیا۔ بہرحال ایسے خاندانوں کی کمی نہیں جو کہ اب بھی قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔بلوچستان کے اندر پولیو مہم کو دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔
25/ اپریل کو پاک افغان سرحدی شہر چمن کے دامان میرالزئی میں پولیو ٹیم پر حملہ ہوا۔ موٹر سائیکل سوار افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون رضا کار نسرین بی بی جاں بحق ہوگئی جبکہ ایک رضاکار راشدہ بی بی زخمی ہوئی۔ اس ٹیم کے تحفظ کے لیے لیویز اہلکار ہمراہ تھے۔ یہاں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اہلکاروں کی ہمراہی اور موجودگی میں یہ رضاکار خواتین کیسے نشانا بن گئیں اور حملہ آور فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟ بہرحال کوئٹہ کے اندر بھی اس طرح کے واقعات ہوچکے ہیں۔ جنوری 2018ء میں دو خواتین پولیو ورکر، اسی طرح 2014ء میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز قتل ہوچکے ہیں۔ جنوری2016ء میں کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں پولیو مرکز کے باہر دھماکے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 14افراد کی موت ہوئی۔گویا اس مہم کو ساتھ دہشت گردوں کے حملوں کے ساتھ جاہل اور ناسمجھ لوگوں کا بھی سامنا ہے۔بلاشبہ پولیو ویکسین کی وجہ سے اس مرض پر قابو پایا گیا ہے، باوجود اس کے کہ ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں۔ افغانستان سے روزانہ ہزاروں لوگ سر حد کے اس پار آتے ہیں، سندھ اور پنجاب سے سینکڑوں ہزاروں بھکاری درآتے ہیں۔ یعنی جہاں کوئی کیس سامنے آتا ہے اُس کی وجوہات میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے۔جیسے ذکر ہوا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں انتہائی مشکل صورت حال میں پولیو ویکسین مہم چلائی جاتی ہے۔ دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہمہ وقت رہتا ہے، اور بچوں کو قطرے پلانے کا عمل یقینی بنانا انتہائی کٹھن ہے۔ اکثر اوقات سوشل میڈیا پر غیرذمہ دارانہ پوسٹ اور ویڈیو اس مہم کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتی ہیں۔ 22 /اپریل 2019ء خیبر پختون خوا کے علاقے بڈھ بیر ماشوخیل میں ایک شخص کی خباثت بلوچستان کے اندر 22 سے 24/ اپریل تک جاری رہنے والی مہم پر بُری طرح اثرانداز ہوئی ہے، جہاں قطرے پلانے کے بعد اسکول کے بچوں کی حالت غیر ہونے کا ڈراما رچایا گیا اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی۔ یہاں کوئٹہ میں بھی بعض جہلا ء نے اپنا حصہ ڈالا۔ حیرت ہے کہ جمعیت علمائے اسلام جیسی بڑی اور ذمہ دار جماعت کے اندر سے بھی نامعقول بیانات جاری ہوئے جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
23 اپریل2019ء کے اخبارات میں جے یو آئی ف کوئٹہ کے امیر حافظ حمداللہ، جنرل سیکریٹری حاجی سازالدین، مولانا ولی محمد ترابی اور دوسروں کے نام سے بیان شائع ہوا جس میں پشاور میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے سینکڑوں بچوں کی حالت غیر ہونے کے واقعہ کی مذمت کی گئی۔ اس بیان میں ان ذمہ داران نے یہ بھی کہا کہ پولیو ویکسین کے قطرے مشکوک کہنے والوں کی بات سچ نکلی۔ بیان میں گمراہ کن و صریح مبالغہ آرائی کی گئی کہ ”پولیو ویکسین کے قطروں سے ملک کے مختلف علاقوں میں اب تک سینکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں“۔ مزید یہ کہا کہ ”پولیو ویکسین کے قطرے زبردستی پلانے والے اس کا جواب دیں کہ ان کو کیا دیا جاتا رہا ہے کہ یہ مشکوک قطرے پلانے کے لیے زبردستی کررہے ہیں“۔ آگے جاکر ان فہمیدہ رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ ”نادار بیمار بچوں کے علاج معالجے پر کسی قسم کی زبردستی نہیں، نہ ہی ان کو علاج میسر ہے۔ پھول جیسے تندرست بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے زبردستی پلانا سازش نہیں تو اور کیا ہے! گھر گھر اور گلی گلی یہ زہر پینے کو کوئی تیار نہیں، نہ ہی لوگ اپنے بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔“ اس کج بیانی کی توقع کم از کم ایسے شخص سے نہیں کی جاسکتی جو قریبا ً پانچ سال صوبائی وزیر رہا ہو۔اور ایک بار سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے بھی آئینی مدت پوری کر چکا ہو۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان فرمودات پر ان سیاسی نمائندوں سے وضاحت و جواب طلب کیا جاتا، بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا اور اس بات کا جواب طلب کیا جاتا کہ پولیو ویکسین کے قطرے پینے سے یہ سینکڑوں بچے کب اور کہاں ہلاک ہوئے اور پولیو کو زہر کن معلومات اور پاکستان یا دنیا کی کس لیبارٹری کی تحقیق کی بنیاد پر قرار دیا گیا ہے؟ حیرت ہے کہ جن کو ڈسپرین کی افادیت کا معلوم نہیں، انہوں نے اتنی بڑی بات کہہ ڈالی ہے۔ اس طرح معصوم عوام، خاص کر اپنی جماعت کے کارکنوں اور بہی خواہوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اخبارات کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے بے سرو پا بیانات شائع نہ کریں کہ جس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچتا ہو۔ لازم ہے کہ ان ذمہ داران سے مجاز فورم پر بازپرس ہو۔ بلوچستان کے پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈی نیٹر راشد رزاق کے مطابق ملک گیر انسدادِ پولیو مہم میں بلوچستان میں 24 لاکھ69 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ مہم کے دوسرے روز یعنی23 اپریل کو خیبر پختون خوا کے واقعہ کے بعد افواہیں پھیلانے سے پولیو ٹیموں کو بلوچستان کے بعض علاقوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اور انکار کرنے والے خاندانوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا۔کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ میں ایسے والدین میں اضافہ ہوگیا ہے جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلانا چاہتے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر